محمدعثمان جامعی
فیس بُک ہماری زندگیوں میں اس طرح شامل ہوئی ہے کہ بہت سے لوگوں کی زندگی تو گزر ہی فیس بُک پر رہی ہے۔ بات چیت، مبارک باد، تعزیت، اطلاع، پیغام، دعاسلام غرض کہ ہر ہر کام کے لیے اسی سماجی ویب سائٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ سائٹ جو محض وقت گزاری کے لیے تھے، سارا وقت اسی پر گزر جاتا ہے۔ خود فیس بُک کے منتظمین کو بھی اس حقیقت کا احساس ہے، چناں چہ انھوں نے کوشش کی ہے کہ اس سائٹ کے استعمال کنندگان سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں بھی وقت گزاریں، گویا فیس بک اپنے صارفین سے کہہ رہی ہے۔۔۔
کبھی کبھی مجھے تنہا بھی چھوڑ دے
فیس بک نے ایک نیا فیچرمتعارف کرادیا ہے جو لوگوں کو یہ بتائے گا کہ انھوں نے کتنا وقت فیس بک استعمال کرنے میں ضائع کردیا۔ اس فیچر کو ”یور ٹائم آن فیس بک“ کا نام دیا گیا ہے جو کہ کمپنی کے مطابق اس سوشل میڈیا نیٹ ورک کے صارفین کو اس سروس کے بامقصد استعمال میں مدد دے گا۔ یہ فیچر بتائے گا کہ اوسطاً آپ فیس بک پر روزانہ کتنے منٹ تک آن لائن رہتے ہیں اور گذشتہ ہفتے ہر روز کتنا وقت اس سائٹ پر گزارا۔ اس فیچر کے ذریعے آپ روزانہ کے وقت کی حد بھی مقرر کرسکتے ہیں اور ریمائنڈر بھی لگاسکتے ہیں جو بتائے گا کہ مقررہ حد آچکی ہے، اب فیس بک کا استعمال ترک کردیں۔
فیس بُک پر وقت ضائع کرنے والوں کی مختلف اقسام ہیں۔
ایک قسم اُن لوگوں کی ہے جن کے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت کی کوئی کمی نہیں اور کھانے کے وقت کے علاوہ وقت کی قدر کرنا انھوں نے سیکھا ہی نہیں۔ دوسری قسم ان خواتین وحضرات کی ہے جو فیس بُک پر رہنے ہی کو وقت کا صحیح استعمال سمجھتے ہیں، چناں چہ ہر وقت فیس بُک پر دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جن کی گھر، محلے اور خاندان سمیت کہیں ”فیس ویلیو“ نہیں، سو وہ فیس بُک پر ہی اپنی اہمیت اور حیثیت منوانے میں پوراپورا دن صرف کردیتے ہیں، ایسے بھی ہیں جو فیس بُک پر کوئی چہرہ دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوجاتے ہیں، پھر ان باکس میں اسے پیغامات بھیجنے اور جواب کا انتظار کرنے میں صبح شام کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس گلفام کی تصویر دیکھ کر لفظوں کی گل باری کر رہے ہوتے ہیں، درحقیقت وہ کوئی گُل خان ہوتا ہے۔
وقت کا ضیاع اپنی جگہ لیکن اس میں شک نہیں کہ فیس بُک نے لوگوں کو کچھ سے کچھ بنادیا ہے۔ چناں چہ وہ لوگ جو کسی کے ”ہُش“ کرنے پر بھی ڈر کر دوڑ لگادیتے ہیں، فیس بک پر سورما بنے نظر آتے ہیں اور دوسروں سے یوں جھگڑ رہے ہوتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ”نوچ لوں منہ، پھیپھڑے گُردے تمھارے نوچ لوںا ِس کنارے نوچ لوں اور اُس کنارے نوچ لوں “۔ اسی طرح یہاں ایسے ایسے دانش وروں اور داناوں سے ملاقات ہوتی ہے جو نادانی سے بھری دانائی کا ایک ایک دانا لُٹادےنے پر تیار ہوتے ہیں۔ یہ اپنے اقوال کی آرائش وزیبائش کرکے یوں پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں جیسے وقت کے سقراط، بقراط اور ارسطو ہوں، شکر ہے فلسلفے اور فکرودانش پر اتنا بُرا وقت نہیں آیا ورنہ یہ خود کو مذکورہ حضرات کی طرح فلسفی اور مفکر منواچکے ہوتے۔ ایسے ایسے لوگ جن کی حرکتوں کی وجہ سے اُن کی گلی میں پردے کا رجحان بڑھ جاتا ہے، جنھیں دیکھ کر والدین بچوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کردیتے ہیں کہ کہیں اولاد اُن جیسی نہ ہوجائے اور جن کی اخلاقی حالت پاکستان کی معاشی حالت جیسی ہوتی ہے، جو شرافت کا قرضہ لے کر بھی نہیں سُدھر سکتی، ایسے افراد فیس بُک پر وعظ ودرس اور تبلیغ اور تلقین کا سلسلہ اس اُمید کے ساتھ جاری رکھتے ہیں کہ کوئی نیکی فروغ نہ پاسکے گی کیوں کہ ان کی نیکی پھیلاتی ہر پوسٹ کو لائیک یا شیئر کرنے سے شیطان روک دے گا۔
اب ان تمام اقسام کے لوگ جو ہیں فیس بُک پر ہی ہیں، تو یہ حقیقی دنیا میں اپنا وقت کیوں ضائع کریں؟ ایسے افراد تو یہ شعر ترمیم واضافے کے ساتھ پڑھتےہوں گے۔
کروں گا کیا جو ایف بی کرے حکومت جام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا