عبید اللہ عابد
میری خوش قسمتی ہے کہ گزشتہ روز سورج ڈوبنے سے پہلے ہی بجٹ2023-24کی دستاویز ہاتھ لگ گئی۔ میں اسے بغل میں دابے گھر پہنچا کہ اس میں درج ان حکومتی وعدوں کا مطالعہ کروں گا جو پڑھنے والے پر عجب سحر طاری کردیتے ہیں،اس کی آنکھیں پہلے سے زیادہ روشن کردیتے ہیں۔
بجٹ وعدوں کا مجموعہ ہی ہوتا ہے کہ آئندہ 12مہینوں میں آپ کی آمدن میں اس قدر اضافہ ہوگا اور آپ کے اخراجات اس قدر ہوں گے۔ آج سے 40برس قبل، یہ وعدے سال میں ایک بار سنائے جاتے تھے لیکن اب بار بار سنائے جاتے ہیں، جون کے اوائل میں ’بجٹ‘ کے عنوان سے، بعدازاں ’منی بجٹ‘ کے نام سے۔ اور ’منی بجٹ‘ بنیادی طور پر خوش کن وعدوں کو چکنا چور کرنے کا نام ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر بجٹ میں آپ کو 10روپے دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے، منی بجٹ میں کہا جاتا ہے:’ذرا! مجھے تین روپے دینا‘(چاہے آپ کو 10روپے ملے ہیں یا نہیں)۔ یعنی آپ کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ 90کی دہائی سے پاکستانیوں کے ساتھ یہی کچھ ہورہا ہے۔
آدھی رات کا وقت ہے۔آج ’انجمن ترقی اردو‘ کے شائع کردہ ’غالب کے خطوط‘ پڑھنے کا ارادہ تھا لیکن میرے سامنے ’بجٹ دستاویز‘ دھری ہے، اور مجھ پر کچھ معلوم وعدوں کا سحر طاری ہے۔ پتہ چلا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30سے35فیصد اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں سب سے پہلے سمجھ میں آنے والی بات یہی ہوتی ہے۔
اس بار ایک سے 16گریڈ تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35فیصد اضافہ ایڈہاک الاؤنس کے نام سے کیا گیا ہے۔ یعنی یہ اضافہ ان کی بنیادی تنخواہ میں شامل نہیں ہوگا، نتیجتاً ان کے الاؤنسز(مراعات) نہیں بڑھیں گے، وہیں کے وہیں رہیں گے۔ اسی طرح گریڈ17سے گریڈ22تک کے سرکاری ملازمین کو 30فیصد ایڈہاک الاؤنس ملے گا۔
سرکاری ملازمین اس ایڈہاک الاؤنس کو بھاگتے چور کی لنگوٹی کے طور پر رکھ لیں گے کہ حکومت جن مشکل ترین حالات کا ذکر ہر دوسرے روز کرتی ہے، ان میں اس ایڈہاک الاؤنس سے بھی کچھ نہ کچھ ریلیف مل ہی جائے گا بشرطیکہ حکومت مزید ٹیکسز کے ذریعے لوگوں کی جیب پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش نہ کرے، اور منی بجٹ لاکر تھوڑا سا جو ریلیف دیا ہے، اسے غارت نہ کرے۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب پاکستان میں کم از کم اجرت 32ہزار روپے ماہانہ ہوگی۔ عمران خان دور(2021ء) میں 20ہزار روپے تھی۔کہا جارہا ہے کہ اس بار ہربل اور یونانی ادویات سستی ہوں گی، اس کا مطلب ہے کہ اب لوگ ایلوپیتھک ادویات کے بجائے ہربل اور یونانی ادویات کی طرف مائل ہوں گے، انہیں اس سے افاقہ ہوتا ہے یا نہیں، تاہم اسی طریقہ علاج کی طرف منتقل ہوں گے۔
مینوفیکچرنگ کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان میں مینوفیکچرنگ زیادہ سے زیادہ بڑھے۔ اسی لیے سولر پینل، انورٹر اور بیٹریوں کی تیاری میں معاون مشینری کی درآمد پر بھی ڈیوٹی ختم کردی گئی تاکہ یہ سب کچھ پاکستان ہی میں سستے داموں تیار ہو۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ اب لوگ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے ظلم اور استحصال سے بچ جائیں گے، شمسی توانائی سے بجلی کے متبادل نظام پر زندگی بسر کریں گے۔ بشرطیکہ حکومت کے حالیہ فیصلے کے فوائد سولر پینل، انورٹر اور بیٹریاں تیار کرنے والے ہی نہ سمیٹ لیں بلکہ اس کے اثرات عام خریدار تک پہنچیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس حکومت نے سولرپینلز پر عائد 17فیصد سیلز ٹیکس ختم کردیا تھا جو عمران خان نے 2020ء میں نافذ کیا تھا۔
شہباز شریف حکومت نے زراعت کے شعبے پر قدرے رحم کھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی مختلف چیزوں پر سبسڈیز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں کم مارک اپ پر قرضہ دیا جائے گا، اس مد میں 2200ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،50ہزار زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے لیے 30ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت کے اس فیصلے سے چھوٹے کسان کو کیا فائدہ ملتا ہے یا بڑا کسان ہی اس سے استفادہ کرے گا؟
انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر پر بھی شفقت جاری رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس شعبے سے متعلقہ برآمدات بڑھانے کی خاطر انکم ٹیکس کی موجودہ شرح 0.25ہی کو 30 جون2026ء تک برقرار رکھا جائے گا۔ اور فری لانسرز غیرملکیوں کا کام کریں، اگر وہ سالانہ 24ہزار ڈالر سے زائد کمائیں گے تو انہیں سیلز ٹیکس رجسٹریشن کروانا ہوگی اور ٹیکس گوشوارے جمع کرانا ہوں گے، بصورت دیگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ایک اور اچھی بات ہے کہ آئی ٹی اور اس سے متعلقہ خدمات فراہم کرنے والوں کو درآمدات میں بھی ریلیف دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی وفاقی حکومت کے کچھ خوش کن وعدے، ارادے ہیں۔ ملکی برآمدات کا ہدف 30ارب ڈالر رکھا گیا ہے، ایف بی آر سے کہا گیا ہے کہ اگلے ایک سال میں 9200ارب روپے ٹیکس جمع کرے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو 38فیصد سے 21فیصد تک کم کیا جائے گا۔ حکومت یہ کام کرے گی تو اچھی ساکھ کے ساتھ عام انتخابات کے لیے میدان میں اتر سکے گی ورنہ شاید مسلم لیگ ن رنر اپ بھی نہ رہے۔
اس وقت پاکستان میں شرح نمو 0.29فیصد ہے، حکومت نے آئیندہ مالی سال کے لیے ہدف 3.5فیصد رکھا ہے۔ اگر یہ ہدف بھی حاصل کرلیا تو بڑی بات ہوگی۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہوگا کہ حکومت ایسا دوستانہ ماحول پیدا کرے جس میں بڑھوتری کی شرح میں اضافہ ہو۔ اگر آپ ایک پاکستانی کے ایک ہاتھ میں 10روپے تھمائیں لیکن اس کی جیب سے 15روپے نکال لیں تو شرح نمو کے تن مردہ میں جان کیسے پڑے گی؟
ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس بار حکومت نے دولت مند لوگوں سے’سپر ٹیکس‘ 3 سلیبز میں لینے کا فیصلہ کیا ہے،35سے 40کروڑ سالانہ کمانے والوں کو 6فیصد ٹیکس دینا ہوگا، 40سے 50کروڑ روپے سالانہ کمانے والوں کو 8فیصد اور 50کروڑ سے زائد آمدن والوں کو 10فیصد۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر کروڑپتی پاکستانی سے سپر ٹیکس وصول کیا جائے گا، کسی کو چھوٹتو نہیں ملے گی۔
ایسے لوگ خبردار ہوجائیں جو ڈیبیٹ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بیرون ملک کسی فرد یا کمپنی کو ادائیگی کرتے ہیں، اگر وہ فائلر ہیں تو اب انہیں 5فیصد ٹیکس دینا پڑے گا، اس سے پہلے ایک فیصد تھا۔ اگر وہ نان فائلر ہیں تو 10فیصد ٹیکس دینا پڑے گا، اس سے پہلے یہ شرح 2فیصد تھی۔
اور ہاں! خواتین خانہ کو نوید ہو!! اب آپ شوہر کو خوشخبری سنا سکتی ہیں کہ باہر کھانا کھانے والوں کو ڈیبیٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر کم ٹیکس دینا پڑے گا، پہلے ٹیکس15فیصد تھا، اب 5فیصد ہوگیا ہے۔ اس لیے اب آپ کے ناز نخرے شوہر کی جیب پر زیادہ بھاری نہیں پڑیں گے، آپ ان سے بلا جھجھک کہہ سکتی ہیں کہ آج شام کھانا باہر کھائیں گے، بلکہ آپ ہر شام ایسا کہہ سکتی ہیں۔
عبید اللہ عابد