گنبد خضرا ، مسجد نبوی ، مدینہ منورہ ، سعودی عرب

میثاق مدینہ: آج بھی ہماری زندگیوں کو روشن کرسکتا ہے، لیکن کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شاھنواز شریف

انسانی جبلت ہے کہ جب بھی کسی فرد کے آنے کا امکان ہو تو وہ دیگر تیاریوں کے ساتھ اس فرد کے استقبال کے لیے منتظر رہتا ہے اور اگر آنے والا فرد محبوب ہو، محترم ہو، مکرم ہو تو یہ انتظار اور بھی بے تابانہ ہوتا ہے۔

تاریخ نے ایک ایسا فقیدالمثال استقبال بھی دیکھا جس کی نظیر کوئی چاہے بھی تو تصور نہیں کرسکتا۔

یثرب کی وادی نے یہ بے نظیر اور محبت سے بھرپور فقید المثال استقبال دیکھا کہ کیا مرد و زن، کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان ہر شخص یثرب سے باہر اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ کیا تپتی ریگستانی زمین، کیا جھاڑ جھنکار، کیا گھاس پھونس حتی کے جوان کھجور کے بلند و بالا درختوں پر چڑھے لوگ مکہ سے آنے والے راستے کی طرف پلکیں بچھائے، نظرے لگائے ہوئے تھے، ایسا کیوں نہ ہوتا، اب یثرب مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بننے جارہا تھا۔ وہ مدینہ جو پہلی اسلامی ریاست بننے جارہا تھا جہاں امن سکون قائم ہونا تھا، جہاں معاشرت و معیشت کی اعلی مثال قائم ہونا تھی۔

اور جب آمد مصطفی کے آثار نمودار ہوئے تو ہر ذی روح پکار اٹھا
طلع البدر علینا

قائد عالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد رکھ کے اسلامی فلاحی ریاست کی پارلیمنٹ کو عملی جامہ پہنایا بلکہ مواخات کے ذریعے مہاجر و انصار یک جان دو قالب بنا دیا لیکن دانائی و بصیرت کے پیکر نبی محترم نے اس تمام کے ساتھ ساتھ جو اہم ترین کام فوری کیا وہ تھا یثرب میں موجود یہودی قبائل کے ساتھ معاہدہ۔

اور یہ دنیا کا پہلا تحریری معاہدہ تھا جس کی بدولت نہ صرف مدینہ کی بلکہ پوری دنیا کی تقدیر بدل گئی۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن مبارک میں یہ بات تھی کہ جہاں انصار و مہاجرین بھائی بن گئے ہیں، اس کے نتیجے میں مدینہ کے داخلی معاملات اچھے ہوجائیں گے، وہیں یثرب میں موجود یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کو نقصان سے بچانے کی بھی ضرورت ہے۔

نبی مہربان جانتے تھے کہ اگر دین اسلام کی ترویج کرنی ہے، اسلام کا بول بالا کرنا ہے تو مدینہ کو امن کا گہوارہ بنانا ہوگا، مدینہ کو ترقی دینا ہوگی، معاشی معاشرتی اور تمدنی حب بنانا ہوگا اور اس تمام میں حائل جہاں قریش مکہ جیسے آنکھوں دیکھے دشمن تھے تو وہیں مدینہ میں موجود یہودی چھپے ہوئے دشمن تھے اور اسی لیے نبی محترم نے میثاق مدینہ کیا۔

اگر آج ہم کوئی بھی معاہدہ کو کرتے ہوئے اس میثاق مدینہ کو ملحوظ خاطر رکھیں چاہے وہ رشتے داروں کے درمیان ہو یا غیروں کے، سیاسی جماعتوں کے درمیان ہو یا غیر مسلموں کے ساتھ تو یقینا ہم اس سے بے پناہ فوائد اٹھا سکتے ہیں انشاءاللہ۔

سنہ 622 عیسویں بمطابق یکم ہجری کو ہونے والے اس معاہدے میں کل 53 دفعات تھیں۔ اس معاہدے کو ہم 2حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مسلمانوں کے لیے اور دوسرا یہودیوں کے لیے۔

اگر ہم پہلے حصے کی بات کریں تو اس کے چیدہ چیدہ نکات یہ تھے:

1- تمام مسلمان اپنے آپ کو رضاکار سمجھیں گے
2-مسلمان آپس مین امن اور اتحاد قائم رکھیں گے جو کہ اسلام کی بنیاد ہے
3- اگر ان میں کوئی اختلاف ہوگا تو نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے
4- مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق کی لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا
5- عسکری خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی
6- قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی
7- تمام مہاجرین کو ہر معاملے میں ایک قبیلے کی حیثیت حاصل ہوگی، انصار مدینہ کے قبائل کی موجودہ حیثیت کو تسلیم کیا گیا
8- تمام معاملات اور آپس میں اختلافات کے لیے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ حتمی ہوگا۔دوسرے حصے کے اہم نکات یہ ہیں:
1- مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی
2- مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودیوں کے لیے بھی ضروری ہے
3- بیرونی حملے کی صورت میں یہودی بھی متحد ہوکر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کا دفاع کریں گے
4- ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا
5- مسلمانوں کے قتل ناحق پر ورثاء اگر رضامند نہ ہو تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا
6- تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے
7- یہودی اور مسلمان حلیف ہوں گے۔ لڑائی اور صلح میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے
8- مسلمانوں پر حملے کی صورت میں یہودی اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے
9- قریش یا ان کے حلیفوں کی یہودی مدد نہیں کریں گے
10- یہودی اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں عدالت نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی
11- اسلامی ریاست کی سربراہی مجاہد اعظم متحد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی اور یہودی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و سیادت کو تسلیم کریں گے۔
12- یہودیوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی
13- شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق سے جنگ حرام ہوگی

یہ تو تھے وہ اہم نکات جو آگے چل کر مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام اور سالمیت کے لیے فائدہ مند ہوئے اور جب مدینہ امن و امان کا گہوارہ بن گیا، جب آپس کے معاملات نہ صرف مہاجرین و انصار مسلمانوں میں بلکہ مسلمانوں کے معاملات یہودیوں کے ساتھ بھی امن و اتحاد کے رہے تو دنیا نے دیکھا کہ جو یہودی اس وقت معیشت میں، تجارت میں اور دیگر مہارتوں میں جانے مانے جاتے تھے مسلمانوں نے اپنی انتھک محنت جانفشانی سے، وہ تمام علوم وہ تمام فنون سیکھے اور اللہ کی رحمت سے ان کا شمار بھی بہترین کاریگروں میں ہونے لگا۔ داخلی امن و سکون کی بدولت نبی محترم نے بقیہ انتظامی و معاشرتی معاملات کو بہترین بنا کر دنیا کے سامنے مدینہ کو ایک بے نظیر مملکت کے طور پر منوایا اور دوسری طرف تمام عالم میں اسلام کی ترویج و تبلیغ کو پہنچایا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ہر ہر معاملات میں قرآن و سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد حاصل کریں جو اللہ کی طرف سی نصرت کا باعث ہوگا۔

ایک ہجری میں ہونے والے اس معاہدے کا اطلاق مدینہ میں بسنے والے مہاجرین و انصار اور یہودیوں کے 3 قبیلوں بنو قینقاع بنو قریضہ اور بنو نضیر پر ہوتا تھا۔

تاریخ نے دیکھا کہ مدینہ کے مسلمانوں نے اس میثاق کی پاسداری ہر معاملے میں کی لیکن یہودی پہلے بھی اپنی ریشہ دوانیوں سے مدینہ کے 2 بڑے قبیلوں اور اور خزرج میں لڑائیاں کرواتے تھے اور ان لڑائیوں سے خود فوائد حاصل کرتے تھے۔

کچھ عرصہ تو امن و امان قائم رہا لیکن جونہی غزوہ بدر ہوا ،بنو قینقاع نے بد عہدی کی۔ نبی مہربان نے بنو قینقاع کی اس بدعہدی اور غداری کی وجہ سے انہیں مدینہ بدر کردیا۔ اسی طرح کچھ عرصے بعد بنو نضیر کی۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم بہت بہادر ہیں، قریش مکہ اور بنو قینقاع تم سے ڈر گئے۔ اگر ہم سے جنگ کروگے تو ہم مزا چکھا دیں گے
لیکن غزوہ احد کے بعد ان کا محاصرہ کیا گیا اور وہ لوگ اپنا سامان چھوڑ کے خود ہی مدینہ سے نکل گئے۔

آخر میں رہ جانے والے بنو قریضہ کے لوگوں نے بھی میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی اور پھر انہیں سزا دی گئی۔ یوں دنیا کا سب سے پہلا تحریری معاہدہ اختتام کو پہنچا اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر حکمت اور دانائی کی بدولت مدینہ نہ صرف امن کا گہوارہ بنا بلکہ تجارت و فنون کا مرکز بھی بنا۔

جہاں اس میثاق سے ہمیں عہد و پیمان کی پاسداری حکمت و دانائی کا سبق ملتا ہے وہیں ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ عہد کی خلاف ورزی اور غداری کی صورت میں سزا و جوابدہی بھی قابل عمل ہے۔

آج ہم ایک تو معاہدوں پر یقین نہیں رکھتے اور جو معاہدے کرتے بھی ہیں تو اس کا پاس نہیں کرتے۔ دوسری طرف ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو وعدہ خلافی سے مزید معاہدے کرلیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر معاملے میں قرآن و سنت کو مقدم رکھیں تاکہ دنیا میں احسن طریقے سے اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اغیار کے مکر و فریب سے بھی بچ سکیں، ان کے بنے ہوئے جال اور گھناؤنی سازشوں سے نبرد آزما ہوسکیں، ان کے اسلام اور امن کے خلاف کئے گئے اقدامات کو ختم کرسکیں۔

ایسا کرنے سے اللہ کی رضا اور جنت کا حصول ممکن بنا سکیں۔ یہ تب ہوگا کہ جب قرآن و سنت کو اس کی روح کے ساتھ سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک بار پھر پوری آب و تاب سے دنیا کے افق پر روشن آفتاب کی مانند ابھریں، اس کی روشنی سے پوری دنیا اندھیروں سے نکل کے امن و آشتی سے منور ہوجائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں