نام: وازوان
مصنف: عامر خاکوانی
قیمت:1800روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم (رابطہ:03215440882)
’وازوان‘ کیا ہے؟ ایک کشمیری دسترخوان جو روایتی کشمیری پکوانوں سے سجا ہوتا ہے۔ گوشت، پلاؤ اور سبزی کے مختلف ذائقوں کے بیس سے پینتیس کھانے۔ اس اعتبار سے یہ نام کالموں کے زیر نظر مجموعہ پر خوب سجتا ہے، اس میں بھی ایسی سدا بہار تحریریں شامل ہیں جو تیکھے، کٹیلے، کھٹ مٹھے اچھوتے ذائقے والی ہیں۔ ’وازوان‘ مصنف کے کالموں کا تیسرا مجموعہ ہے۔ پہلا ’زنگار‘، ’دوسرا’زنگارنامہ‘ خوب پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔
جناب عامر خاکوانی نے کالم نگاری کا آغاز روزنامہ ’ایکسپریس‘ ہی سے کیا۔ برسوں پہلے ہم دونوں رفیق کار رہے،قریباً چھ برس تک، ہفتے میں چھ دن، آٹھ سے دس گھنٹے تک ہم ایک ساتھ رہتے تھے۔ انھیں لکھتے ہوئے بھی دیکھا، دوسروں کو لکھنا سکھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ میں نے جانا کہ ان کی ساری کوششوں اور کاوشوں کا محور و مرکز ’قاری‘ ہوتا ہے۔
وہ اپنا کتھارسس ہی نہیں کرتے بلکہ پڑھنے والے کو زیادہ سے زیادہ، نت نئی اور دلچسپ معلومات فراہم کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔کتاب کے ابتدائی صفحات میں کسی ’نامعلوم‘ نے مصنف کا تعارف لکھا اور صد فی صد درست لکھا کہ ان کے کالموں کی پہچان ان کا معتدل اور متوازن انداز بیان اور غیرجانبداری سے ایشو ٹو ایشو رائے دینا ہے۔
معروف کالم نگار و تجزیہ کار ہارون الرشید کے بقول:’واقعہ یہ ہے کہ جس انشراح کے ساتھ عامر خاکوانی کالم لکھتے ہیں،عصری صحافت میں اس کی مثال کم ہوگی۔ سوچ سمجھ کر طے کیا گیا موقف، رواں اور بے ریا لہجہ۔ غیر جانبداری مگر دکھاوے کی نہیں۔ نقطہ نظر اور عقیدہ رکھتے ہیں، مگر لازماً کسی گروہ کے حامی یا مخالف نہیں۔آزاد مصنف کی یہی روش ہوتی ہے‘۔
ایک دوسرے معروف کالم نگار محمد اظہار الحق لکھتے ہیں:’خاکوانی لکھتا ہے تو منطق، دلیل اور غیر جانبداری کے ساتھ نکات اٹھاتا جاتا ہے اور پڑھنے والے کو استخراج اور استدلال سے قائل کرتا جاتا ہے۔ تاثیر کا ایک بڑا سبب اس کی قوت تحریر بھی ہے، مناسب اور موافق الفاظ کا استعمال اسے خوب آتا ہے۔ زبان سادہ، سلیس اور رواں ہے۔ کالم کو ثقیل مقالہ نہیں بننے دیتا، اسی لیے اس کی تحریر خواص اور عوام دونوں کے لیے پرکشش ہے‘۔
انویسٹی گیٹو رپورٹر، اینکر پرسن اور کالم نگار رؤف کلاسرا کا خیال ہے اور درست خیال ہے کہ عامر خاکوانی کے پاس لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ایسی روانی اور لاجک بہت کم لکھاریوں کی قسمت میں ہے……کتابوں کے بے پناہ مطالعے نے انھیں بہت کچھ دے دیا ہے۔انھوں نے اپنے کالموں میں جتنے تراجم اور کتابوں کے ریویوز لکھے ہیں، وہ کسی اور کالم نگار کی قسمت میں نہ تھے۔
کتاب کی ابتدا میں، قریباً ساڑھے سات صفحات پر مشتمل، مصنف نے لڑکپن سے لمحہ موجود تک اپنی زندگی کی کہانی لکھی۔ آباؤ اجداد کا ذکر کیا، ان کے افغانستان کے ننگرہار سے پاکستان کے احمد پور شرقیہ میں آنے کا قصہ بیان کیا، اور پھر اپنے کیرئیر تفصیل لکھی۔ اور مستقبل کے عزائم کی طرف بھی اشارہ کیا۔ زندگی کی اس کہانی میں بھی سیکھنے والوں کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔
کتاب مجموعی طور پر گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔’عسکریت پسند/ گوریلا تنظیمیں‘،’عربی ادب/حکایات‘،’تصوف‘،’عمل خیر‘،’سبق آموز‘،’زندگی کے رنگ‘،’سیاسی تاریخ/ان کہی کہانیاں‘،’معلومات‘،’کتابیں /مطالعہ‘،’فلموں کی دنیا‘ اور’نقطہ نظر‘۔ قریباً تمام عنوانات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس باب میں کس نوع کی تحاریر ہوں گی۔
جناب عامر خاکوانی کے بعض کالمز پڑھتے ہوئے اختلافِ نظر ممکن ہے۔ تاہم وہ جس خلوص اور دردمندی سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، اس سے سرِ مو اختلاف ممکن نہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ زیر نظر مجموعہ میں زیادہ تر کالم ایسے ہیں جن پر کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا، وہ انسانی زندگی میں بڑی تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔ مثبت سوچ اور امید کی نئی توانائی بھر دیتے ہیں۔ مشکل دور سے نکلنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ بہت سے کالم زندگی کو گدگداتے ہیں، عجب سرشاری عطا کرتے ہیں۔
اس اعتبار سے میرا نہایت پختہ خیال ہے کہ یہ کتاب ہر گھر کی لائبریری میں ضرور ہونی چاہیے۔
بھلے وقتوں میں، جب انٹرنیٹ کی دنیا وجود میں نہیں آئی تھی، اورکتب بینی عام تھی، بعض کتابیں ایسی ہوتی تھیں جو نسل در نسل پڑھی جاتی تھیں۔’وازوان‘ انھی کتابوں جیسی کتاب ہے۔اسے نسل در نسل آگے بڑھانے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ تبصرہ نگار: عبید اللہ عابد