تفہیم القرآن

فہم قرآن، چند ضروری بنیادی باتیں سمجھنا ضروری ہیں

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر، بارہمولہ

قرآن کریم وہ کتاب ہے جس سے کبھی بھی ہم بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ ابتدائے اسلام ہی سے اس کی افہام و تفہیم اور اس میں غور و فکر کا ایک طویل سلسلہ قائم ہے۔ ہرفرد اور ہر گروہ نے اپنے ظرف اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس صحیفہ ربانی کوسمجھنے کی کوشش کی۔

قرآن فہمی سے بے اعتنائی اور غفلت سنگین قسم کا جرم ہے۔ قرآن کو جب تک خاص اس کی اپنی روح اور اپنے مفہوم کے ساتھ نہ سمجھا جائے، حق و انصاف پر قائم رہنا حددرجہ مشکل ہے۔ قرآن، علم، تفقّہ، تعقّل، تذکر اور تدبر و تفکر پر زور دیتا ہے اور ہم نے ان سب کی راہیں مسدودکر دیں۔ فکری و علمی ارتقاء پر روک لگا دی۔

حق کاسب سے بڑا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے اور اس کی روشنی میں اپنے فکر و عمل کا محاسبہ کیا جائے۔ قرآن فہمی کی راہ میں مختلف قسم کی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے پورا پورا فائدہ اٹھانا آسان نہیں رہا۔

تفسیری روایات و اقوال قرآن کی تفہیم و تفسیر میں بجائے معاون ہونے کے بالعموم ہمیں قرآن کے اصل مطالب و مقاصد سے دور کر دیتے ہیں۔ (قرآنی مباحث از مولانامحمدفاروق خان۔ص91)
تفسیرکے قطعی اصول 4بتائے جاتے ہیں۔ بطور اصول ان کو الگ الگ بیان کیا جاتا ہے لیکن قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے ایک ساتھ استعمال ہوں گے:

پہلااصول یہ ہے کہ تفسیر کا اول ماخذ اس زبان کو بنایا جائے جس زبان میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ اس سے عام عربی زبان مراد نہیں ہے جو فی الوقت عام طور پر لکھی اور بولی جاتی ہے بلکہ امراء القیسؔ، لبیدؔ، زہیرؔ، عمروؔ بن کلثوم اور حارثؔ بن حلذہ اور عرب کے خطبائے جاہلیت کے کلام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس کی طرف حضرت عمرؓ نے بھی ایک دفعہ ’علیکُم باالدّیوان‘کہہ کر اشارہ کیا تھا۔ دریافت کرنے پر امیر المومنینؓ نے فرمایا ’اٗلشّعِرُ الجاھلیۃ‘یعنی قرآن کی تفہیم کے لیے دور جہالت کے کلام (اشعار) سے مدد لو۔

اس کلام کی اتنی مہارت پہنچائے کہ اس کے اسالیب و محاورات کو اچھی طرح سمجھ سکیں، اس کے حسن و قبح کو معین کرسکیں، اس کی تلمیحات و اشارات سے محظوظ ہوسکیں۔

قرآن مجید کو سمجھنے میں دوسری چیز جس کا اہتمام ناگزیز ہے اور صحیح تاویل کے تعین میں ایک فیصلہ کن عامل ہے، وہ کلام کا نظم ہے۔ نظم کامطلب یہ ہے کہ ہر سورہ کاایک خاص عمود یا موضوع ہوتا ہے۔ سورہ کے بار بار مطالعہ سے جب سورہ کا عمود واضح ہوجاتا ہے اور سورہ کی آیات کا تعلق بھی اس عمود کے سامنے آ جاتا ہے تو پوری سورۃ متفرق آیات کا ایک مجموعہ ہونے کے بجائے ایک نہایت حسین و حدت بن جاتی ہے۔

قرآن کا اعجاز اس کے معارف اور حکم ہی پر قائم نہیں ہے بلکہ اپنے ادبی محاسن کے لحاظ سے بھی اسے وہ اعجاز حاصل ہے جو کسی کلام کو میسر نہیں۔ قرآن ایک مربوط و منظم کلام ہے۔ اس کے نظم کلام میں غور و فکر اور تدبر بندے کے لیے ایک بڑی سعادت کی بات ہے۔ قرآن کے منظم و مربوط کلام ہونے سے انکار خود اپنی کوتاہی فکر و فہم اور کم ظرفی کی بات ہوگی۔(قرآنی مباحث۔ص41)

قرآن مجید کوسمجھنے کے لیے اس نظم کو سمجھنا اولین چیز ہے۔ سورہ کی قدر و قیمت، حکمت اور متفرق آیات کی صحیح تاویل تبھی متعین ہوتی ہے لیکن یہ چیز نہایت مشکل ہے، اس وجہ سے مفسرین نے اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے۔ قرآن مجید میں نظم کا دعویٰ کرنے والے اہل علم صرف موجودہ زمانہ میں ظہور میں نہیں آئے ہیں بلکہ سلف میں بھی کچھ علماء نے اس کادعویٰ کیا ہے اور بعض نے نظم قرآن پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ چنانچہ غلام سیوطی ؒ ’الاتقان‘ میں رقمطراز ہیں: ”علامہ ابو جعفر بن زبیر شیخ ابو حیان نے نظم قرآن پر ایک خاص کتاب لکھی اور اس کا نام ’البرہان فی مناسبۃ ترتیب سور القرآن“ رکھا

اور ہمارے ہم عصروں میں سے شیخ برہان الدین بقاعی کی تفسیر”نظم الدّررفی تناسب الآی والسّور‘ بھی اسی اصول پر لکھی گئی ہے“۔(ص 976)

علامہ سیوطی ؒ،امام رازیؒ اور علامہ مخدوم مہائمیؒ وغیرہ نے اپنی کوشش کی حدتک آیات قرآن کانظم بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ثابت ہوا کہ قرآن مجید میں نظم قرآن کے قائل صرف مولانا حمیدالدین فراہیؒ یا ان کے تلامذہ ہی نہیں ہیں بلکہ ان سے قبل دوسرے علماء نے بھی اس چیز کو محسوس کیا ہے اور اس کی شہادت دی ہے۔

تفسیر کا تیسرا قطعی اصول یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جائے۔ تفسیر قرآن کا موزوں ترین طریقہ یہی ہے۔ چنانچہ ہمیں قرآن میں جب کہیں عام مطلق یا مجمل آیت ملتی ہے تو دوسری جگہ اس کی تخصیص یا تفصیل مرکوز ہوتی ہے۔ کوئی بات صرف دعویٰ کی شکل میں آتی ہے، کہیں دلیل کے ساتھ۔ ایک ہی بات کے اتنے گوناگوں پہلوؤں سے آنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک بات اگر ایک جگہ سمجھ میں نہ آئی، تو دوسری یا تیسری جگہ سمجھ میں آ جاتی ہے اور اگر ایک جگہ اس کا پہلو واضح ہونے سے رہ گیا ہو تو دوسری جگہ کسی اور سیاق میں وہ ضرور واضح ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے قرآن کی تفسیر کا سب سے معتبر ماخذ خود قرآن شریف ہے۔ قرآن مجید کا ہر حصہ یکساں طور پر قطعی ہے، اس وجہ سے اس پر کسی بڑے سے بڑے منکر کو بھی حرف رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔

تفسیر کا چوتھا قطعی ماخذ سنت متواترہ و مشہورہ ہے۔ جہاں تک قرآن مجیدکی اصطلاحات کاتعلق ہے مثلاً زکوٰۃ، صلوٰۃ، صوم، حج، عمرہ، قربانی، مسجدحرام، صفا، مروہ، طواف وغیرہ، ان سب کی تفسیر سنت متواترہ کی روشنی میں ہی کرنی چاہیے۔

قرآن مجید و شریعت مطہرہ کی اصطلاحات کے معنی بیان کرنے کا حق آنحضرت ﷺ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان اصطلاحات کا یہ مطلب بیان کیا ہے، اس چیز کی ضمانت یہ ہے کہ ان ساری اصطلاحات کا حقیقی مفہوم بالکل عملی شکل میں سنت متواترہ کے اندر محفوظ کردیا گیاہے اور سنت متواترہ بالکل انہی قطعی ذرائع سے ثابت ہے جن ذرائع سے خود قرآن مجید ثابت ہے۔ امت کے جس تواتر نے قرآن مجید کو ہم تک منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کاعملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے، اس لیے اگر قرآن مجیدکا ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اس شکل کو ماننا بھی واجب ہے جو سلف سے خلف تک منتقل ہوئی ہے۔

نمازپنجگانہ اسی قطعیت کے ساتھ جانتے اور مانتے ہیں جس قطعیت کے ساتھ قرآن مجید کو جانتے اور مانتے ہیں۔ رہی آمین بالجہریا آمین بِاالسّر تو یہ بات اختلافی ہوسکتی ہے اور اس طرح کے اختلاف جزئی کی ہمارے دین میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان میں سے جس شخص کا دل جس پہلو پر مطمئن ہو اس کو اختیار کرے اور ایک دوسرے کی تردید و مخالفت کے درپے نہ ہو۔ البتہ جو باتیں سنت متواترہ سے ثابت و معلوم ہیں، ان کی مخالفت کرنا خود قرآن کی مخالفت کرناہے۔ (مبادی تدبرقرآن۔ص208)

شان نزول

شان نزول کے حوالے سے فی الوقت دو بڑے مکاتب فکر علم تفسیر میں ملتے ہیں۔ ایک گروہ ہر آیت کے ذیل میں کوئی نہ کوئی واقعہ بطور شان نزول کے بیان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض آیات کے تحت متعدد واقعات ہوتے ہیں اور ان میں بسا اوقات باہم دگر اختلاف بلکہ کھلا ہوا تضاد ملتا ہے اور عموماً یہ واقعات ایسے تعجب انگیز اور آیت کے سیاق وسباق سے اس قدر بے تعلق ہوتے ہیں کہ طبیعت ان کو قبول کرنے سے جھجکتی ہے۔ اس کے باوجود اس گروہ کے نزدیک شان نزول کی بڑی اہمیت ہے۔ امام واحدیؒ کاقول ڈاکٹر صبحی صالح اپنی کتاب میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”جب تک کسی آیت کا واقعہ متعلقہ اور اس کا سبب نزول معلوم نہ ہو اس آیت کی تفسیر معلوم نہیں ہوسکتی۔“
(علوم القرآن از صبحی صالح۔ص184)

مذکورہ گروہ اسباب نزول کوعلم تفسیر کے لیے ایک لازمی شرط کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ علامہ زرکشیؒ فرماتے ہیں کہ اسباب نزول جاننے کا پہلافائدہ یہ ہے کہ اس سے احکام کی حکمتیں معلوم ہوتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ نے کن حالات میں اور کیوں نازل فرمایا ؎14۔ ان کے نزدیک آیت کے صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لیے سبب نزول کا علم ضروری ہے۔

دوسرا گروہ شان نزول کی اس تعبیر کو قرآن مجید میں نظم و تسلسل کی تلاش میں سدِ راہ قرار دیتا ہے۔ کیونکہ نظم ٗکلام کے تسلسل کو چاہتا ہے اور ہر آیت کو کسی خاص واقعہ سے متعلق تصور کرنا نظم و تسلسل کے بالکل منافی ہے۔

امام رازیؒ بھی اپنی تفسیر میں ایک جگہ شان نزول کی اس تعبیر پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں۔ اس گروہ کے نزدیک تفسیرکے لیے صحیح اصول یہ ہے کہ روایات سے پہلے نفس آیت کے الفاظ، سیاق وسباق اور ماقبل و مابعد مضمون پر تدبرکرنا چاہیے۔ اگرالفاظ اپنے مفہوم کو پوری وضاحت کے ساتھ ادا کر رہے ہیں، آیت کی صحیح تاویل، بغیر کسی خارجی مدد کے بالکل بے نقاب ہوگئی ہے۔

نظم، عمود اور حسن تاویل کے جملہ شرائط پوری طرح ادا ہوگئے ہیں، تو کچھ ضروری نہیں ہے کہ ایسے واقعات کو آیات پر چسپاں کئے جائیں، جو ان کے نظم و سیاق کو درہم برہم اور حسن تاویل کو مجروح کرنے والے ہوں۔ البتہ اگر شان نزول آیت کی واضح اور صحیح تاویل کی تائید کر رہا ہے تو وہ مزید اطمینان اور شرح صدر کا باعث ہوگا اور اس کو نظرانداز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

علامہ سیوطیؒ اس حوالے سے رقمطراز ہیں:
”زرکشیؒ نے ’برہان‘میں لکھا ہے کہ صحابہؓ و تابعینؓ کا یہ طریقہ عام ہے کہ ان میں سے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ’یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی“ تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس بات کا بھی حکم موجودہے۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ بات بعینہ اس کے نزول کا سبب ہے۔ گویا یہ اس آیت سے اس معاملہ پر ایک استدلال ہوتا ہے نہ کہ نقل واقع۔“(الاتقان۔ص101)

حضرت شاہ ولی اللہ ؒ محدث دہلوی کی تحقیق بھی شان نزول کے حوالے سے یہی ہے۔’الفوزالکبیر‘ میں اس قسم کے شبہات کا انہوں نے تفصیلی جواب دیا ہے۔ تفسیر اور شان نزول کی کتابوں میں بعض اوقات ایک آیت کا سبب نزول کوئی ایسا واقعہ بیان ہوتا ہے جس کا زمانہ اور آیت کے نزول کازمانہ کسی طرح ایک نہیں ہوسکتا۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سورۃ تو مدنی ہوتی ہے اور شان نزول جو بیان کیا جاتا ہے وہ مکی زندگی سے متعلق ہوتا ہے۔بعض شان نزول ایسے ملتے ہیں جن کے زمانہ وقوع اور ان سے متعلق آیت کے نزول کے زمانوں میں مدتوں کا فرق ہے۔

ایسے مواقع پر اگر کسی طالب علم کو یہ بات معلوم نہ ہو کہ صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام کے نزدیک شان نزول کا حقیقی مفہوم کیا ہے، تو اس کو مطالعہ میں سخت زحمتیں پیش آتی ہیں اور کبھی کبھی تو شک و انکار کی حالتوں سے کشمکش کرنی پڑتی ہے۔

قرآنی آیات کاربط و تعلق اس کے فقرات و کلمات اور مشاہد و صُوَر کا اقتران و اتصال ایک عظیم علم ہے جس میں قرآن کریم کے لطائف و عجائبات مضمر ہیں۔ قرآن کے اکثر احکام و شرائع کی تفسیر اس علم کی روشنی میں کی جاتی ہے۔

امام ابوبکر نیسابوریؒ حافظ حدیث و عظیم شافعی فقیہ، علماء بغداد کی اس لیے مذمت کیا کرتے تھے کہ وہ ربط آیات کے فن سے بے بہرہ ہیں۔ جب ان کو کوئی آیت یا سورہ پڑھ کر سنائی جاتی تو وہ اکثر دریافت کرتے”اس آیت کو دوسری آیت کے پہلو میں کس لیے رکھا گیا ہے؟ اور فلاں سورہ کو فلاں کے بعد کس لیے لایا گیا ہے؟“ (علوم القرآن۔ص170)
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں