حمیرا ریاست رندھاوا

برین ڈرین: پاکستانی نوجوان مستقبل سے مایوس، مسئلہ کا حل کیا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمیرا ریاست رندھاوا

گزشتہ دنوں بادبان ڈاٹ کام پر شبانہ ایاز کی لکھی تحریر نے پاکستانی معاشرے پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ کیا پاکستان کے حکمران اور معاشرہ دونوں اپنے نوجوانوں کے مستقبل کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں؟ کیا پاکستانی نوجوان اپنے ملک سے مایوس ہو چکے ہیں جو یورپ اور دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں؟آخر وہ کون سے عوامل اور حقائق ہیں جو انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں؟

یاد رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان نسل کا تناسب پاکستان میں ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے مگر یہی نوجوان جب پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین بنتے ہیں تو باہر چلے جاتے ہیں ، یوں ہماری خوش قسمتی بھی آنسو بہانے لگتی ہے۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو ہر چیز سے نوازا ہے مگر پھر بھی ہمارے نوجوانوں کے لیے یہاں کچھ نہیں۔ کیوں؟

اس کی سب سے پہلی وجہ ہمارے سیاست دان ہیں جو آتے ہی ملک پر قرضے کابوجھ لاد دیتے ہیں اور بیرونی ممالک میں اپنے بینک اکاؤنٹ بھر لیتے ہیں۔ اگر یہی حکمران ان پیسوں سے نئی ٹیکنالوجی خریدیں اور نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کریں تو بے روزگاری ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی سہارا ملے۔ معیشت بہتر ہوگی تو قرضے سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ جب قرضے کے ساتھ سود سے جان چھوٹے گی تو روپے کی قدر میں اضافہ ہو گا مگر افسوس! حکمرانوں کی بے حسی ہمارے نوجوانوں کے مستقبل کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ باہمی لڑائی نے معیشت کو دھچکا لگا دیا، ملکی میں انارکی کی فضا کو بھی جنم دیا ہے، ایسے میں نوجوان باہر نہ بھاگیں تو کیا کریں۔

ملک میں اگر کوئی ملک سرمایہ کاری کرتا ہے تو اسے پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک کے ورکرز لانے کی بجائے ہمارے نوجوانوں کو روزگار دے۔ اس طرح ہم زرمبادلہ سے زیادہ سرمایہ حاصل کر سکتے ہیں اور ہمارے نوجوان تخریب کاروں کے ہاتھوں میں جانے سے بھی محفوظ رہیں گے۔

ملک سے باہر جانا برا نہیں مگر ملک سے سیکھے گئے ہنر سے اپنے ملک اور معاشرے کو فائدہ نہ دینا غلط ہے۔ کسی معاشرے کے ذہین، موثر، مفید اور ہنر مند لوگ اپنے معاشرے سے کسی دوسرے معاشرے میں چلے جائیں تو اسے برین ڈرین کہتے ہیں۔

ہونا یہ چاہیے کہ معاشرے میں اس قدر بڑے پیمانے پر ذہین، موثر، مفیداور ہنرمند افراد پیدا ہوں کہ ان کا ایک حصہ ملک اور معاشرے کی ضروریات پوری کرے جبکہ باقی ماندہ دیگر اقوام کی خدمت پر مامور ہوجائیں اور اس خدمت کے بدلے میں اپنے معاشرے میں زرمبادلہ لے کر آئیں۔ تاہم یہاں جو انتہائی قلیل تعداد میں ہنرمند اور باصلاحیت افراد تیار ہوتے ہیں، وہ ملکی حالات سے مایوس ہوکر دوسرے معاشروں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اور اپنا معاشرہ خالی ہوتا چلا جارہا ہے۔ ایسے خالی معاشرے زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں برین ڈرین کی صورتحال اس سال مزید خراب ہو گئی ہے، کیونکہ 750,000 سے زیادہ پڑھے لکھے نوجوانوں نے ملک میں روزگار کے کم ہوتے مواقع کے ڈر سے، غیر یقینی معاشی اور سیاسی صورتحال کی وجہ سے بیرون ملک ملازمت کا انتخاب کیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں 765,000 افراد پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک گئے، جو 2021 میں 225,000 اور 2020 میں 288,000 تارکین وطن سے تقریباً تین گنا زیادہ تھے۔ بیورو آف امیگریشن کے مطابق، مہاجرین کی بڑی اکثریت مشرق وسطیٰ کے ممالک، خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں گئی۔ "

خراب ہوتی ہوئی معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ سیاسی غیر یقینی صورتحال کے اثرات پاکستان کی افرادی قوت پر پڑنا شروع ہو گئے ہیں، "لاکھوں نوجوان جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں، جو مہنگائی، بے روزگاری اور غیر یقینی معاشی اور سیاسی صورتحال سے پریشان ہیں، روزگار کی تلاش میں ہر سال بیرون ملک جا رہے ہیں۔” بیورو آف ایمیگرنٹس کی سرکاری دستاویزات کے مطابق اس سال 765,000 نوجوان بیرون ملک گئے۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 2019 میں 625,000 افراد کی ہجرت کے بعد مسلسل دو برسوں میں کمی کے بعد اب ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اتنی ہی تعداد میں غیر تربیت یافتہ مزدور بیرون ملک چلے گئے۔ حالیہ سروے کے مطابق ۔ نقل مکانی کرنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں میں 5,534 انجینئرز، 18,000 ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئرز، 2500 ڈاکٹرز، 2000 کمپیوٹر ماہرین، 6500 اکاؤنٹنٹ، 2600 زرعی ماہرین، 900 سے زائد اساتذہ، 12،000 کمپیوٹر سیسرز، 6701 کمپیوٹر آپریٹرز، 6701 ٹیکنک آپریٹرز اور 501 افراد شامل تھے۔

غیر ہنر مند کارکنوں کے گروپ میں 213,000 ڈرائیور شامل تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق 730,000 سے زائد نوجوان خلیجی ریاستوں میں گئے، تقریباً 40,000 یورپی اور دیگر ایشیائی ممالک گئے۔ ملک کے حساب سے اعداد و شمار کے مطابق 470,000 پاکستانی روزگار کے لیے سعودی عرب گئے، 119,000 UAE، 77,000 عمان، 51,634 قطر اور 2,000 کویت گئے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق 2 ہزار پاکستانی عراق، 5 ہزار ملائیشیا، 602 چین، 815 جاپان اور 136 ترکی گئے۔

دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 478 پاکستانی روزگار کی تلاش میں افریقہ کے ملک سوڈان گئے۔ یورپی ملک ہجرت کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد 3,160 نوجوانوں کی تھی جو رومانیہ جا رہے تھے۔ اس کے بعد برطانیہ میں 2500، اسپین کو 677، جرمنی میں 566، یونان میں 497 اور اٹلی میں 292 افراد شامل تھے۔

بیورو آف ایمیگرنٹس نے بھی امریکا جانے والے 700 افراد کو رجسٹر کیا۔ ملک چھوڑنے والوں میں نصف سے زیادہ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال 424,000 مہاجرین پنجاب، 206,000 خیبر پختونخوا کے علاوہ 38,000 نئے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع سے، 54,000 سندھ، 27,000 آزاد کشمیر، 7,000 بلوچستان اور 6,000 اسلام آباد سے تھے۔

کہنا محض یہ ہے کہ برین ڈرین کی یہی صورتحال رہی تو اس ملک اور قوم کا کیا ہوگیا؟ حکومت اور معاشرے کے دولت مند طبقات کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے۔ اگر یہ معاشرہ باقی رہئ گا تو ان کی حکمرانی چلے گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں