نشانات انگشت، فنگر پرنٹ

نشانات انگشت (Finger Prints) سائنسی اور قرآنی نقطۂ نظر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر کلثوم عبدالرزاق خان

نشانات انگشت ہر انسان کا امتیازی نشان ہیں۔ اس دنیا میں ہر انسان کی انگلیوں کے نشانات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ جب تک کوئی بڑا زخم نہ آجائے انگلیوں کے نشانات ایک شخص کی زندگی میں کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان نشانات کو ایک نہایت اہم شناختی کارڈ تصور کیا جاتا ہے اور یہ دنیا بھر میں اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

تاہم دو سو سال پہلے انگلیوں کے نشانات اس قدر اہم نہ تھے کیونکہ انیسویں صدی کے آخر میں یہ بات دریافت ہوئی تھی کہ انسانوں کی انگلیوں کے نشان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ذاتی شناخت کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ 1880ء میں ایک انگریز سائنسدان Henry Faulds نے اپنے ایک مقالے میں جو “Nature” نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوا، اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ لوگوں کی انگلیوں کے نشان عمر بھر تبدیل نہیں ہوتے اور ایسے مشتبہ لوگ جن کی انگلیوں کے نشان کسی شے پر مثلا شیشے وغیرہ پر رہ جاتے ہیں، ان کی بنیاد پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے…

ہاتھ کی انگلی، قریب ترین تصویر

قرآنی آیت سے استدلال۔۔۔۔۔ سائنسی تعبیر

ارشاد ربانی ہے:(ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ, بلی قادرین علی ان نسوی بنانہ )کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو اکٹھا نہ کر سکیں گے؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنادینے پر قادر ہیں(القیامتہ:75: 3-4)

ھند شبلى “التفسير العلمي للقرآن الكريم بين النظريات والتطبيق ” میں لکھتے ہیں کہ ” نسوي بنانہ” کے الفاظ کاخصوصی ذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نشانات انگشت خاص پہچان کے نشان ہوتے ہیں جس کے ذریعے ایک انسان کو دوسرے سے یقیناً مختلف طور پر پہچانا جاتا ہے۔

آیت کا یہ اشارہ ہزاروں سال مخفی رہا اور بعد میں سائنسی ترقی نے اس حیران کن حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ انسان کی شناخت نشانات انگشت کے ذریعے ہو سکتی ہے جیسے کہ کوئی بھی دو قسم کے انگوٹھوں یا انگلیوں کے نشانات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اگرچہ انسان کا تمام جسم ایک معجزے کی درجہ بندی ہے لیکن اس میں انسانی چہرے، زبان، گلے اور آوازوں کی امتیازی خصوصیات فرق رکھنے کا معیار نہیں بن سکتیں۔

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں قرآن پاک انسانوں کی انفرادی شناخت کی بات کر رہا ہے تو ” انگلیوں کی پوروں ” کا خصوصیت سے تذکرہ کیوں کر رہا ہے؟ ظاہر ہے یہ فنگر پر نٹس کائنات کے سائنسی طریقے کی طرف اشارہ ہے۔ ہر انسان کے نشانات کا نمونہ انفرادیت کا حامل ہوتا ہے جو 1444 سال پہلے ہی قرآن نے اس سائنسی حقیقت کو بیان کر دیا تھا۔

فنگرپرنٹ ، سرکٹ بورڈ

روایتی تعبیر و تشریح

قرآن کا معاملہ یہاں کافروں کے کیےجانے والے بکثرت اعتراضات کے ساتھ ہے کہ مرنے کے بعد جب انسان مٹی ہو گیا، اس کی ہڈیاں بھی ریزہ ریزہ ہو کر منتشر ہو گئیں، انھیں دوبارہ کیسے جمع کر کے زندہ کیا جائے گا؟

یہ آیت ان الفاظ کے ساتھ اس اعتراض کی تردید کرتی ہے کہ اللہ تعالی ہر انسان کی انگلیوں کے پور بنانے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی انسانی وجود کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل سے آگاہ ہے اور اس کے لیے دوبارہ زندہ کرنا آسان ہے۔

ایک انسان جس ہیئت و جسامت اور شکل و صورت پر پہلے پیدا کیا گیا تھا قدرت حق دوبارہ بھی اسی کے وجود میں انہی ساری چیزوں کو بغیر کسی ادنیٰ فرق کے جمع کر دے گی حالانکہ یہ کھربوں انسان ابتدائے دنیا سے قیامت تک پیدا ہوتے اور فناہوتے رہے۔ اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا کہ ہم صرف اس پر قادر نہیں ہیں کہ میت کے سارے بڑے بڑے اجزاء و اعضاء کو دوبارہ اسی طرح بنادیں بلکہ انسانی وجود کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی ہم ٹھیک اسی طرح کر دیں گے جس طرح وہ پہلے تھی اس میں ” بنان ” یعنی انگلیوں کے پوروں کا خاص ذکر فرمایا کہ وہ جسم کے سب سے چھوٹے اجزاء میں سے ہے۔

اگر اللہ ان چھوٹے اجزا کی دوبارہ تخلیق پر قادر ہے تو اس کے لیے انسانی جسم کے بڑے بڑے اجزا کو دوبارہ تخلیق کرنا بہت آسان ہے۔(قرطبی:الجامع لاحکام القرآن)

فنگر پرنٹس کی بطور انسانی شناخت سائنسی دریافت کا آيت (ايحسب الإنسان الَّنْ نَجمَعَ عِظَامَهُ ,بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نسوي بنانہ) سے اخذ کرنے میں سب سے پہلے تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا یہ لفظ “نسوی” انہی معنوں میں آتا ہے یا نہیں؟ لغت کے اعتبار سے کہا گیا کہ مذکورہ لفظ توازن اور یکسانیت کے معنوں میں آتا ہے۔(ابن منظور:لسان العرب)

قرآن پاک میں اسی لفظ کا مادہ انہی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، جب کہا گیا:”الذی خلقک فسواک فعدلک ” (الانفطار:7:82) اس آیت سے ظاہر ہے کہ صرف “نسویہ البنان ” ہی نہیں بنایا گیا بلکہ تمام انسانی جسم نے اس حق کا لطف اٹھایا ہے۔ لہذا یکسانیت یا توازن کے معنی امتیازی نشانات انگشت کے لیے معاون نہیں ہیں۔ تاہم، اگر ہم اسے مذکورہ بالا سائنسی انکشاف کی تائید میں تسلیم کریں تو تب یہ صرف نشانات انگشت تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ تمام جسم کو یہ خصوصیت حاصل ہو گی۔ یہ کیسا منطق ہے؟ کہ حتمی معنوں کو نسویہ البنانہ ” کے ساتھ جوڑا جائے لیکن جب یہی لفظ ” فسؤاك ” تمام انسانی جسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو ہم اس نتیجے کو اخذ نہیں کرتے۔

ایک اور معنی جو “نسویہ ” کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے وہ آرائش جمال کا ہے۔(الزمخشری,الکشاف)منطقی طورپر آرائش جمال نشانات انگشت کے قابل شناخت کی سائنسی دریافت کی علامت نہیں ہو سکتی…

جہاں تک انسانی جدوجہداور فکری ارتقا اور اس کی عجوبہ کاری اور حیرت انگیز انکشافات کامعاملہ ہے، وہ اپنی جگہ درست اور عام نظروں کے اعتبار سے قابل تحسین بھی ہے لیکن موجودہ سائنس کی جدید ترقیات و تحقیقات کو عین منشاء قرآنی سمجھنا بھی درست عمل نہیں ہے جیسا کہ بعض تجدد پسند علماء نے لکھا ہے اور قرآن کو ان کا مخالف کہنا بھی غلط ہے جیسا کہ بعض قدامت پسند علماء نے کہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن نہ ان چیزوں کے بیان کے لیے آیا ہے نہ یہ اس کا موضوع بحث ہے نہ انسان کے لیے ان کا حاصل کرنا آسان ہے نہ انسانی ضروریات سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ قرآن ان معاملات میں ساکت ہے۔ قرآن کی دعوت صرف اسی حد تک ان چیزوں میں غور و فکر کی ہے جو عام شاہدے اور تجربے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔

تجربات و مشاہدات سے کوئی چیز ثابت ہو جائے تو اس کو قرآن کے منافی کہنا بھی صحیح نہیں ہے اور جب تک ثابت نہ ہو خواہ مخواہ اس کے تصورات باندھنا اور اس میں عمر عزیز کے اوقات صرف کرنا بھی کوئی دانش مندی نہیں….


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں