رمضان المبارک، جامع مسجد دہلی

رمضان المبارک: تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ، اور ہمارا عمومی رویہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

انگبین عُروج، کراچی

قرآنِ کریم میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا ہے، ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔(سورة البقرہ آیت 183)

یعنی تقوٰی اور بندگی کے لیے رب العالمین کے نزدیک صرف پانچ وقت کی نماز کافی نہیں درحالانکہ نماز انسان کے نفس کی پاکیزگی اور رب کی بندگی کے لیے خالص ترین عبادت ہے لیکن پروردگار نے ابنِ آدم بالخصوص اُمّتِ محمدیﷺ کے لیے سال میں ایک ماہ ایسا رکھا کہ جس میں رب کا بندہ خلوصِ نیت سے صرف اور صرف اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کھانے پینے اور شہوت سے بچا رہے اور یہی اللہ کی بتائی ہوئی حدود ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہونے کے بعد رب اپنے بندوں کو مُتّقین میں شمار فرماتا ہے اور اس کا اجر بھی خود اپنے ذمّے لیتا ہے۔

ارشادِ ربّانی ہے کہ ابنِ آدم کا ہر نیک عمل کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر حتٰی کہ سات سو گُنا بڑھا دی جاتی ہے،سوائے روزے کے جو صرف میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا کیونکہ وہ صرف میرے لیے اپنی شہوت اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔(مسلم،حدیث1151)

گیارہ مہینے رب العالمین نے اپنے بندوں کو اپنی عطا کردہ تمام تر نعمتوں سے مکمل استفادہ حاصل کرنے کا اختیار دیا ہے یہاں تک کہ گُناہ و ثواب کا راستہ بتا کر اختیار بندے کو دے دیا کہ اب تم پر کوئی زبردستی نہیں کہ تم گناہ کا راستہ اختیار کرو یا ہدایت و فلاح کا لیکن روزوں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ جب اللہ اپنے بندوں کو اس خاص ماہِ مبارکہ سے نوازتا ہے تو بندوں پر لازم ہے کہ پھر روزے کی حالت میں اللہ کی عطا کردہ حلال نعمتوں(کھانے پینے اور جماع) سے بھی خود کو روکنے اور دور رکھنا فرض ہے۔ یہ کیسی اطاعت ہے، اپنے خالق کی کیسی مُحبت ہے کہ بظاہر ایک نظر نہ آنے والی نیکی یعنی ‘روزہ’ رکھ کر بندہ محض خوفِ خدا اور خوشنودی پروردگار کی خاطر حلال نعمتوں سے بھی خود کو روکے رکھے۔

”رمضان“ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”جھُلسادینے والا“ اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے ہیں اور معاف فرمادیتے ہیں، اس لیے اس مہینے کو ”رمضان“ کہتے ہیں۔ (شرح ابی داؤد للعینی 5/273)

رسول اللہﷺ نے ماہِ رمضان کو "نیکیوں کا موسمِ بہار” کہہ کر اپنی اُمّت کو اس ماہِ مبارکہ کے فضائل و برکات سے آگاہ کیا ہے کہ میری امُت کے لوگو! تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے کہ اس ماہ میں تم نیکیوں کی جو فصل لگاؤ گے اللہ تبارک و تعالٰی اُس کے بدلے تمہاری نیکیوں کو کئی گُنا بڑھا کر تمہیں اس کا اجر عطا فرمائے گا۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ، (شعب الایمان3/375، تخصیص شہر رجب بالذکر)
ترجمہ: اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے، یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔

یعنی ماہِ رمضان المبارک ایسا فیوض و برکات والا مہینہ ہے کہ رسول اللہﷺ دو ماہ پہلے سے ہی اس کی ماہِ مبارکہ کی تیاری کے لئے سر بستہ ہو جایا کرتے تھے اور اُمّت کے سردار محبوبِ خدائے بزرگ و برتر رحمۃ اللعالمین بذاتِ خود اس ماہِ مبارکہ کو پا لینے کے لیے رب تعالٰی کے حضور دست بستہ ہو جایا کرتے تھے کہ یہ ایسی رحمتیں اور برکتیں لے کر آتا ہے،جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ اس ماہِ مبارکہ کا انتظار ہم سال بھر محض اس لیے کرتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی کی ہوئی چیزوں پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کر سکیں۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک معمر خاتون حضرت نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ حضرت میری اولاد کے لیے درازی عمر کی دعا فرما دیجیے کہ میری جو بھی اولاد ہوتی ہے وہ تین سو سال سے زیادہ عمر تک نہیں پہنچ پاتی، اس قلیل مدت میں تو میری اولاد کے حِصّے میں بہت کم نیکیاں آئیں گی۔

حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ ایک اُمّت ایسی بھی آئے گی جس کی اوسط عمر سو سال سے بھی کم ہو گی لیکن اس دور میں بلند و بالا عمارتیں ہوں گی اور وہ لوگ دنیا کا نقشہ بدل دیں گے اور نیکیوں میں ہم سے کہیں زیادہ ہوں گے کیونکہ پروردگار انہیں ایک ایسا مہینہ عطا فرمائے گا کہ جس کی ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہو گی۔

یہ رب العالمین کا اُمّتِ محمدیہ پر خاص فضل ہے کہ ہمیں اس ماہِ مبارکہ میں نہ صرف تقوٰی و پرہیزگاری عطا فرماتا ہے بلکہ ہمیں رمضان المبارک کی طاق راتوں میں ‘لیلۃ القدر’ کی بشارت پھی دیتا ہے کہ جس رات رب کی رحمتوں کا ایسا نزول ہوتا ہے کہ بندوں کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی زیادہ بڑھا کر عطا کیا جاتا ہے۔ گویا جس نے اس مہینے کو پا لیا اس کے لیے بخشش و مغفرت کا سامان تیار ہے پس اُسے حاصل کرنے کے لیے اُسے رب کی متعین کردہ حدود میں رہنا ہو گا اور رب سے بخشش و مغفرت مانگنا ہو گی۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(صحیح بخاری1/255) ترجمہ: جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

فی زمانہ اگر ہم روزہ رکھ کر اپنے احوال پر نظر ثانی کریں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انفرادی و اجتماعی طور پر ہم روزے کے مقصد سے قطعی نابلد ہیں۔ روزہ سے ہوتے ہوئے بھی رب کو ناراض کرنے کے کون سے اعمال ہیں جو ہم دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سر انجام نہیں دے رہے ہوتے۔ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، فحش گوئی، بدزبانی، طعنہ زنی، لڑائی جھگڑے اور کم تولنا، ناجائز منافع خوری کرنا، کاروبار میں سودی لین دین کرنا یہ سب کچھ ناپسندیدہ، رب کو ناراض کرنے والے اور ماہِ رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے محروم رہ جانے والے اعمال ہیں جو ہمارے باطن میں غیر محسوس طریقے سے شامل ہو چکے ہیں اور جنہیں ہم گناہ کے زمرے میں ہی نہیں لاتے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن ماجہ ص125) ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے اور بدن کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ”روزہ“ ہے۔

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کی جسم کی زکٰوة ادا کرتی ہے یعنی روزہ رکھنے سے ہمیں "تزکیہ نفس ” حاصل ہوتا ہے۔

کھانا پینا چھوڑ کر اور حلال کاموں سے اپنے نفس کو روک کر ہمارے اندر روحانیت و بزرگی پیدا ہوتی ہے۔روزہ ہمیں صبر، تشکر اور اللہ کی بندگی و کبریائی بیان کرنا سکھاتا ہے۔ شہوت اور گناہ کے کاموں کی طرف ہم اسی صورت مائل ہوتے ہیں جب ہمارے پیٹ بھرے ہوئے ہوں، ہم میں گناہ اختیار کرنے کی طاقت موجود ہو جبکہ بھوکا پیاسا رہنے سے ہم میں تقوٰی و پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے اور ہم میں گناہ اختیار کرنے کی ہمت مجتمع کرنے کی صلاحیت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔

انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام، صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین کی مثالیں عملی نمونہ کے طور پر موجود ہیں جو کئی کئی دن روزے رکھ کر پروردگار کی عبادات میں مشغول رہتے تھے بلکہ تقوٰی و پرہیزگاری اور خوشنودی الٰہی حاصل کرنے کا ایسا جذبہ تھا کہ انہیں کھانے پینے کی یا دنیاوی لذتوں کے حصول کی حاجت ہی نہیں ہوتی تھی۔

لیکن رب العالمین کا ہم پر یہ خاص کرم ہے کہ رمضان المبارک کی شکل میں پروردگار نے ہمارے لیے پورے سال کی Special Training کا اہتمام فرما دیا کہ اس ماہِ مبارکہ میں صبر و تشکر اور تقوٰی و پرہیزگاری جو ہم میں پیدا ہوتی ہے وہ باقی گیارہ مہینوں میں ہمیں نعمتوں اور نیکی و گناہ پر مکمل اختیار ہوتے ہوئے گناہوں سے روکے رکھنے اور اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور ہدایت یافتہ بندوں میں شامل رہنے کی توفیق دیتی ہے۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج نہ تو امتِ محمدیﷺ ماہِ رمضان کے تقدس کا خیال کرتی ہے نہ ہی اس ماہِ مبارکہ میں تزکیہ نفس کا اہتمام کرتی ہے۔ روزے رکھتے ہوئے بھی ہماری اوّلین ترجیح سحر و افطار میں شکم سیر ہو کر کھانا پینا ہوتی ہے۔ ماہِ رمضان ہمیں صبر کرنے کا درس دیتا ہے، بھوکا پیاسا رہنے کی ٹریننگ دیتا ہے لیکن اس کے برعکس ہم ماہِ رمضان میں ایسی شاندار ضیافتوں کا اہتمام کرتے ہیں جیسا شاید پورے سال نہ کرتے ہوں۔

رمضان المبارک کا چاند نظر انے کے بعد مساجد میں جو گہما گہمی،رونقیں اور عبادات کے سحر انگیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں وہ عید کا چاند نکلتے ہی مساجد میں ویرانی، صَفیں کم ہونے، مساجد کی رونق معدوم اور بازاروں کی رونقیں بڑھنے کی شکل میں اختتام پذیر ہوتی ہیں۔

لبِ لباب یہ کہ اس ماہِ مبارکہ سے ہم کیا ٹریننگ حاصل کر پاتے ہیں، تزکیہ نفس کا پورا لائحہ عمل جو رب نے ہمیں اس ماہِ مبارکہ کی صورت میں عطا فرمایا، ہم تو رمضان ختم ہونے سے پہلے ہی اس سسٹم سے اور رمضان کریم کی رحمتوں اور برکتوں سے خود کو محروم کر دیتے ہیں۔ کیا اس طرح ہم روزوں کے اصل مقاصد یعنی تقوٰی، پرہیزگاری اور تزکیہ نفس حاصل کر سکتے ہیں؟؟؟

کیا اس ماہِ مبارکہ سے سال پھر کے لیے کچھ کمائی حاصل کر پاتے ہیں؟؟
نیکیوں کی فصل بو پاتے ہیں؟؟
اس حدیث شریف پر غور و فکر کیجیے کہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(سنن ابن ماجہ حدیث 1690۔ سنن نسائی حدیث 3333)

ترجمہ: بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم بحیثیتِ مجموعی ماہِ رمضان المبارک کی تربیت، اس ماہِ مقدسہ کے فیوض و برکات سے کتنا اور کہاں تک استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔

رب العالمین ہمیں توفیق و سعادت عطا فرمائے کہ ہم ماہِ رمضان کا صحیح معنوں میں حق ادا کرنے والے پروردگار کے نیک، متقی و پرہیزگار بندے بن جائیں۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں