عائشہ حمید
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
” جب اللہ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرائیل بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ تمام آسمان والوں میں آواز دیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد وہ زمین میں بھی (اللہ کے بندوں کا) مقبول اور محبوب بن جاتا ہے۔” (صحیح بخاری:6040)
اللہ اپنے نیک بندوں کی محبّت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ آپ انبیاء کی مثال لیں۔ ہم میں سے کسی نے حضرت ابراہیم، موسیٰ، یوسف، عیسی اور محمّد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا ہے؟ نہیں نا!
،تو پھر ان کی محبّت کیسے ہم سب کے دلوں میں موجود ہے؟ کیونکہ اللہ نے ڈالی ہے یہ محبّت ہمارے دلوں میں..
ایسے ہی صحابہ ہیں۔ کون ابو بکر، عمر، عثمان، علی، عبدالرحمن بن عوف، ابو ہریرہ، موسیٰ اشعری کو پہچانتا ہے.. مگر اتنے سو سال گزرنے کے بعد بھی سب ان کو جانتے ہیں اور نہ صرف جانتے ہیں بلکہ محبت بھی رکھتے ہیں۔
ایسے ہی اللہ کے کئی بندے موجود ہیں جنہوں نے اسلام کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ ان میں امام بخاری، امام مسلم، امام ابن القیم، امام ابنِ تیمیہ، امام ابنِ جوزی، علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی، فواد عبدالباقی جیسے بڑے نام شامل ہیں. ہر دین کا علم حاصل کرنے والا نہ صرف ان کو جانتا ہے بلکہ ان کی خدمات کے بارے میں پڑھ کر ان سے بے تحاشا محبت بھی رکھتے ہیں۔
اب آجائیں آج کل کی محبت پر..
آج کل لوگ کس سے محبت کرتے ہیں؟
جو بھی میڈیا میں انٹرٹینمنٹ کے نام پر فحاشی پھیلانے میں سب سےآگے ہے وہ اتنا ہی بڑا سٹار ہے.. اس کے لاکھوں چاہنے والے ہیں.. قرآن کی رو سے مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے والا اللہ کے شدید ترین عذاب کا مستحق ہے..
کیا یہ لوگ اللہ کے پسندیدہ ہو سکتے ہیں؟ کیا ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں اللہ ہی ڈال رہا ہے؟ ہر گز نہیں..
بلکہ یہ تو شیطان کے ساتھی ہیں.. جو لوگوں کے لیے دنیا کو مزین کر کے دکھا رہے ہیں.. دنیا کی محبّت لوگوں کے دلوں میں ڈال رہے.. اور ان کو آخرت سے بے پرواہ کر رہے ہیں..
ان کو دیکھنے والے ، ان سے محبت کرنے والے ، ان کی تقلید کرنے والے سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں..اور دوسری محبت وہ جو اس تفریح کے نام پر عام ہوئی.. یعنی لڑکے اور لڑکی کی محبت..
پچھلی کئی دہائیوں سےانٹرٹینمنٹ کے نام پر بننے والی تفریح نے جو اخلاقی تباہی مچائی ہے اس نے ذہنی طور پر ہماری نسلیں معذور کر دی ہیں.
جہاں نظر ڈالنا ہی اللہ نے مرد و عورت دونوں کے لیے حرام کیا تھا، وہاں نظر اور گفتگو تو کیا کسی چیز کی بھی کوئی حدود و قیود نہیں ہیں.. اور معاذ اللہ! اللہ کے نام کو اس محبت سے جوڑا جاتا ہے کہ دلوں میں محبّت اللہ ڈالتا ہے..
کیا واقعی یہ محبت اللہ نے آپ کے دلوں میں ڈالی ہے؟نظر کے غلط استعمال سے تو صرف فتنہ پھیلتا ہے۔ انسان بے راہ رو ہوتا ہے۔ اس فتنے سے بچنے کا طریقہ تو اللہ نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ جب اللہ کے راستے سے ہٹ کر چلیں گے اور انسانوں کو خدا بنائیں گے تو اخلاقی تباہی اور ذہنی انتشار کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا..
یاد رہے کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، ہم اسے جنت بنانے نہیں آئے.. اور نہ ہی ہم اسے جنت بنا سکتے ہیں۔ جو آزمائش اللہ نے لکھی ہے وہ آکر ہی رہنی ہے، سو بہتر ہے کہ صبر کریں۔ یہاں جتنا بھی وقت ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے گزاریں.. اور یقین رکھیں کہ جنت صبر کے بدلے ہی ملنی ہے.. اللہ سے دعا ہے کہ وہ اپنی رحمت سےہمارے لیے جنت کا راستہ آسان کر دے.. آمین..