سوالیہ نشانات

نئی نسل کے سوالات جو انگشت بدنداں کرتے ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عائشہ حمید

علماء سے پو چھے گئے کچھ سوالات..یہ سوالات ایک عالم کے آفیشل پیج سے نقل کیے گئے ہیں جہاں سوال کرنے والے کی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی۔ کچھ سوالات سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ خواتین نے پوچھے ہیں یا مردوں نے.. بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ سوال پوچھنے والا سوال ایسے پوچھتا ہے جس سے اس کو اپنی مرضی کا جواب ملے..

اکثر سوال سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کس جگہ سے تعلق رکھتا ہے۔ بالخصوص پاکستانیوں کے سوال کے طریقے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ سوال پاکستانی ہے۔ علّامہ صاحب غالباً پاکستانیوں کی فطرت سے واقف نہیں ہیں، اس لیے جس طرح سے وہ سوال سمجھتے ہیں وہ اسی طرح جواب دے دیتے ہیں۔

ان میں سے چند سوالات پیش خدمت ہیں.. سوالات چونکہ انگریزی میں ہیں تو ترجمہ کرتے وقت میں نےاحتیاطا مذکر کا صیغہ استعمال کیا ہے:

1-میں قرآنِ پاک حفظ کر رہا ہوں۔ میں آدھا صفحہ یاد کرنے کے بعد ذہنی طور پر تھک جاتا ہوں پھر میں اپنا ذہن ریلکس کرنے کے لئے مووی دیکھتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے ایسی صورت میں، میں گناہگار نہیں ہوں گا..آپ بتائیں کیا یہ کبیرہ گناہ ہے؟ یا کفر ہے..؟

2.یورینل (urinal) استعمال کر نے کے بعد اگر طہارت نہ کی ہو تو نماز ہو جاتی ہے؟

3-کیا انسان ایک وقت میں دو عورتوں یا دو مردوں سے رشتے کی بات چلا سکتا ہے؟

4-میری امّی چاولوں کا ایک دانہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتی ہیں، کہتی ہیں کہ گناہ ہو تا ہے اور کھانے کا تیل بھی کالا ہونے تک استعمال کرتی رہتی ہیں۔ پھر اس سے ہانڈی بنا لیتی ہیں۔ کیا یہ رویہ درست ہے؟

5-میری دوست کے کپڑے درزی نے خراب کر دیے ہیں۔ اب میری دوست کہتی ہے کہ میں نے اس بار بکرے کی بجائےدرزی کی قربانی کر دینی ہے؟ کیا وہ ایسا کہنے سے گناہ گار ہو گی؟

6-میں میوزک کو برا سمجھتا ہوں مگر کلائنٹس کے لیے میوزک ایونٹس آرگنائز کرواتا ہوں.. اور گلوکاروں کی تعریف بھی کرتا ہوں حالانکہ میں دل میں اسے برا جانتا ہوں۔ کیا میں غلط کر رہا ہوں؟

6-میری دوست بہت خوبصورت ہے، میں اسے تبلیغ کرتا رہتا ہوں کہ پردہ کرو مگر وہ میری بات نہیں سنتی۔ میں کیا کروں؟

7-ایک لڑکے سے میرا افیئر چل رہا ہے۔ اس کے گھر والے شادی پر راضی نہیں ہوتے.. اور وہ اس طر ح کوشش بھی نہیں کرتا جیسے کرنی چاہییے کیا اس کے گھر والے میرا رشتہ نہ کرنے پر گناہ گار ہوں گے؟

یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات جنھیں پڑھ کر میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ہم نے اسلام سے دور کر کے آج کے دور کی جدید تعلیم یافتہ ذہنی طور پر معذور نسل پیدا کی ہے، انھوں نے آنے والے کل ماں باپ بننا ہے۔ پھر جو اگلی نسل ان کے ہاتھوں پرورش پائے گی، اس کا خدا ہی حافظ ہے۔

عالم صاحب نے تو جو بھی جواب دئیے، کچھ جوابات اور کچھ سوالات میرے بھی ہیں۔ قرآن پاک حفظ کرنا عین سعادت ہے لیکن جنت کے درجوں کی سیڑھیاں چڑھنے کے لیے اس کی تعلیمات پر عمل کرنا لازم ہے۔ کتاب یاد کرنا مقصد نہیں ہے، عمل کرنا مقصد ہے۔

طہارت کے مسائل بچپن میں ماں باپ نے سکھانے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی بچہ 7سال کی عمر میں پہنچتا ہے، جہاں اس پر نماز فرض ہو جاتی ہے اس کے ساتھ ہی طہارت کے مسائل بھی سکھا دئیے جاتے ہیں۔ اور نماز کا ایک مقصد بچے کی طہارت کی تربیت بھی ہے۔ اگر نماز کی عادت بچپن سے ہوتی تو شاید یہ مسئلہ پیدا ہی نہ پیدا ہوتا۔

رزق ضائع نہ کرنے کی تربیت بچوں کو بچپن ہی سے دی جاتی تھی تاکہ وہ وسائل اور اخراجات میں توازن سیکھیں اور بلا وجہ اسراف میں مبتلا نہ ہوں، اور دوسروں کا بھی خیال کرنے والے بنیں، صرف اپنا ہی نہ سوچیں۔ مجھے اس سوال میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی نظر آئی۔ اور اگر واقعی بچے نے یہ سوال’امی’ کو نیچا دکھانے کے لیے نہیں بھی کیا.. تو بھی مجھے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچے کی ذہنی جہالت پر حیرت ہے۔

دوست کو تبلیغ کرنے والے صاحب سب سے پہلے تو اللہ نے آپ سے پوچھنا ہے کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ کی دوست خوبصورت ہے؟ پہلے تو آپ گناہگار ہیں کسی نامحرم سے دوستی رکھنے پر.. اور اس چیز پر اللہ کے آگے جوابدہ بھی ہیں، اور آپ سے پردہ نہ کرنے پر بھی وہ اتنی ہی گناہ گار ہے جتنا کسی اور شخص کے سامنے جانے پر ہو گی۔

اور جس لڑکی کو لڑکے کے رشتہ نہ لے جانے پر شکایت ہے، پہلے تو وہ اللہ کے سوالوں کی جوابدہ ہے. کہ کسی نا محرم سے دل لگی کی بات ہی کیوں کی؟

کوئی درزی کو ذبح کرنا چاہتا ہے تو سوال تو یہ ہے کہ یہ سوال کسی عالم سے پوچھنے کی نوبت ہی کیوں آئی؟

ایک وقت میں 2 جگہ رشتہ چلانا صرف آن لائن ہی ممکن ہے۔ یہ اور اس طرح کے مسائل جو آج کی نسل کو درپیش ہیں، انھیں پڑھ ، سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے وہ اسلام کی بے حرمتی کرنا چاہتے ہیں۔ جس نسل پر 5نمازیں بھاری ہیں، وہ پوری رات انٹرنیٹ پر گزارنے کے بعد تہجد میں محبوب کے وصال کی دعائیں کرتے نہیں تھکتی۔

صدقہ اوّل تو دیتے ہی نہیں، دیں بھی تو رشوت سمجھ کر دیتے ہیں کہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ کیا صدقہ اللہ نے اس لیے رکھا تھا کہ آپ جو چاہے مرضی کریں اور بس صدقہ دیتے رہیں تو آپ کو سب معاف ہو جائے گا؟ اللہ کی قسم یہ نہ اسلام کا مزاج ہے اور نہ ہی مطلوب۔

اور ہم وہ لوگ بن چکے ہیں کہ زندگی اپنی مرضی سے گزار کر حرام کا پورا لطف لے کر بس ایک تسبیح سے اپنے سارے گناہ معاف کروانا چاہتے ہیں۔ ہمیں کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے اسلام کی بے حرمتی کے لیے، ہم خود ہی اپنے دین کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

اللہ کے لیے! اسلام کے نام پر اللہ کی حرمتوں سے مذاق بند کریں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے دل ہدایت پر جما دے۔ آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں