مسلمان باحجاب ماں اور بیٹا

حُقوق و فرائض کی جنگ اور معاشرتی توازن!!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

انگبین عُروج،کراچی

فرانس کے مشہور سپہ سالار نپولین بونا پارٹ کا اِک تاریخی جملہ “تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں بہترین قوم دوں گا”،تاریخ کے اوراق میں آج بھی کنندہ ہے۔

گویا اس ایک جملے میں پورے معاشرے کی تعمیر و ترقی کا راز مضمر ہے۔ دنیا میں آنے والے ہر بچے کی پہلی درسگاہ، مکتب و مدرسہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔ یہ وہ واحد تربیت گاہ ہے کہ جو نسلوں کو سنوار بھی سکتی ہے اور ان کے بگاڑ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

بلاشبہ ایک اچھی ماں وہ بہترین تربیت گاہ ہے جو اصلاحِ معاشرہ میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایک متوازن معاشرہ تبھی وجود میں آ سکتا ہے جب اس میں رہنے والے فریق اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہوں اور بحسن و خوبی اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوں۔

معاشرے میں ایک عورت کا کردار بحیثیت بیٹی، بہن، بیوی اور پھر ماں کے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ ایک مکمل معاشرہ مرد و زَن کے کرداروں سے وجود میں آتا ہے، مرد فقط ایک گھر کے سربراہ کی حیثیت سے فقط اس ایک خاندان کی کفالت و نشو و نما کا ذمہ دار ہے جبکہ عورت کے ذمے ایک پوری نسل تیار کرنا ہے جو مستقبل میں نہ صرف معاشرہ بلکہ پوری قوم کے لیے بہترین سرمایہ ثابت ہو سکے۔

اصلاحِ معاشرہ میں مرد سے کہیں زیادہ مضبوط کردار ایک عورت ادا کر سکتی ہے کیونکہ معاشرے میں آنے والا ہر مرد خواہ وہ حاکم ہو یا محکوم، شاہ ہو یا گَدا، اسی کی گود سے تربیت پا کر نکلتا ہے۔ عورت کی گود کو تقدس اس لیے دیا گیا کہ اسی گود سے مقدس ہستیوں نے جنم لیا۔

یہاں اگر بات کر لی جائے اصلاحِ معاشرہ میں مرد و زن کے کردار کی تو اسلام واحد مذہب ہے جس نے عورت اور مرد کو یکساں حقوق عطا کیے ہیں۔ عورت جب اک بیوی ہے تو مرد اس کا حاکم ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کوئی گھٹیا یا نیچ مخلوق ہو گئی۔

جو غلط تصور آج کی عورت کے پراگندہ ذہنوں میں بویا جا رہا ہے بلکہ یہ عورت کے مقام کی خوبصورتی ہے کہ وہ نازک ہے اس کے جذبات و احساسات سے لے کر اس کی ہر طرح کی ضروریات کی کفالت کا ذمہ مرد کو سونپا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ دینِ اسلام میں نہ صرف عورت کو معاشرے میں “عُضوِ معطّل” تصور کیا جانا ممنوع ہے بلکہ اسلام تو عورت کو اس کی حیا و عفت کی حدود و قیود کا پابند رہتے ہوئے ہر طرح کی آزادی دیتا ہے۔

تاریخ کے ادوار میں ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔اُمّ المومنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہا،ایک مالدار تاجر کہ جن کا سامانِ تجارت خود نبی کریمﷺ لے کر جاتے تھے۔ وہ خاتون کہ جنہوں نے بذاتِ خود نکاح کا پیغام آپﷺ کو پہنچایا اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون کا شرف بھی آپ ہی کو حاصل ہوا۔ نبوت کے 10سے 12 سال آپ ہی کے مال سے اسلام کی تبلیغ و ترویج کی گئی۔

اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک بہترین معلِّمہ تھیں۔ اللہ نے انہیں بہترین علم و حافظے کا مالک بنایا تھا، ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین نے احادیث کا علم آپ ہی سے سیکھا اور آپ کے شاگرد ہوئے۔

اسلام کی دعوت و تبلیغ سے لے کر غزوات میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مردوں کی بھرپور معاونت کی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج عورت کو اس کے اصل مقام سے گِرا دیا گیا ہے، اُسے لاحاصل حقوق کی ‘لایعنی’ جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جہاں آج کہیں “میرا جِسم میری مرضی” جیسے بھونڈے نعرے سننے کو ملتے ہیں، وہیں عورت خود کو مرد کا محکوم ماننے سے گریزاں نظر آتی ہے۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا نے زمیں پر آسماں سے ہم کو دے مارا

مغرب کی اس اندھی تقلید نے عورت کو آج سڑکوں کی زینت بنا رکھا ہے، وہ اپنے فرائض سے نالاں و بیزار نظر آتی ہے۔جس نسل کی تربیت کر کے مستقبل کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں سونپنی تھی وہ نسل آج “ڈے کئیر سنٹرز” اور “بورڈنگ اسکولز” کے سپرد کر کے عورت اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر “مارچ” کرتی نظر آتی ہے۔

دوسری طرف مرد اپنی معاشی و معاشرتی ذمہ داریوں سے کتراتے ہوۓ نظر آتے ہیں،بعض مرد حاکمیت کے زُعم میں عورت کو نیچ اور محض اپنی نسل بڑھانے کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔ عورت کو اس کا مقام و رتبہ دینا تو دور، نان و نفقے اور رہن سہن کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھتے ہیں، اُسے معاشرے میں ایک بوجھ گردانتے ہیں۔پھر کیونکر ایسی پسماندہ ذہنیت اور اخلاقی گِراوٹ کا شکار مرد معاشرے کی اصلاح میں کماحقہ کردار ادا کر سکتے ہیں؟؟

حقوق کی اس جنگ میں فرائض کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے پھر چاہے وہ مرد ہوں یا عورت،جب اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیں گے تو حقوق کی لڑائی ازخود ختم ہو جائے گی کیونکہ اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کر کے ہم کبھی اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے۔بہترین اصلاحی معاشرہ تبھی وجود میں آ سکتا ہے جب معاشرے کے دونوں کردار اپنے ذمے واجب الادا فرائض پورے کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں