انگبین عُروج ( کراچی )
کائنات کا تمام تر نظام مقررہ حدود میں چلتا ہے۔ نظامِ شمسی ہو یا فلکیات کا نظام ہو، سورج، چاند، ستارے، سیارے سب اپنے مقرر و متعین کردہ مدار میں گردش کرتے ہیں۔ کوئی بھی اپنی حدود سے ایک انچ تجاوز نہیں کر سکتا۔
کائنات کے نظام پر اگر کوئی اثر انداز ہو رہا ہے اور اس کی مقرر کردہ حدود و قیود سے تجاوز کا باعث بن رہا ہے تو وہ ہیں انسانی دائرۀ اختیار میں آنے والے وسائل، جن کو انسان اپنی ترقی و نسلِ نو کی بقا کے لیے بے دریغ اور بلا سوجھ بوجھ کے زیرِ استعمال لا رہا ہے۔
1750کے بعد جب دنیا نے صنعتی ترقی کے میدان میں جھنڈے گاڑے تب نسلِ انسانی نے ترقی کی منازل طے کیں لیکن اس ترقی و انسانی بہبود کے تیز ترین عمل کے نتیجے میں خطۀ زمین کا درجہ حرارت ڈگمگا گیا۔
سورج کی مخصوص شعاعیں دن کے اوقات میں زمین پر بالواسطہ پڑتی ہیں اور ان اوقات میں زمین کا درجہ حرارت گرم رکھنے کا باعث بنتی ہیں جبکہ رات کے وقت زمین کا درجہ حرارت ایک مخصوص حد تک گِر جاتا ہے جسے زمین کی کولنگ کا فطری عمل کہا جاتا ہے جب زمین سے سورج کی شعاعیں خلا میں واپس چلی جاتی ہیں۔
اس فطری عمل کا اپنے نظامِ اوقات کے مطابق چلنا زمین کے مخصوص درجہ حرارت میں توازن رکھنے کے لیے بے تحاشہ ضروری تھا لیکن گرین ہاؤس گیسوں کا فضا میں غیر ضروری اور غیر معمولی اخراج، زمین کے اس کولنگ کے عمل کو متاثر کرتا جا رہا ہے۔ یہ گرین ہاؤس گیسیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سرِفہرست ہے، زمین پر پڑنے والی سورج کی گرم شعاعوں کو واپس خلا میں جانے سے روکتی ہیں اور اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں جس کے نتیجے میں زمین کا درجہ حرارت معمول کے مطابق کم نہیں ہو پاتا بلکہ بڑھ جاتا ہے اور زمین کا درجہ حرارت قدرت کے وضع کردہ قانون سے ذرہ برابر بھی ڈگمگائے گا تو ظاہر ہے کہ کائنات کے نظام میں تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔۔۔۔۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار فضاء میں کیونکر بڑھ رہی ہے تو انسانی سرگرمیوں اور بڑھتی ہوئی انسانی ترقی کے لیے استعمال کیے جانے والے وسائل اس کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ صنعتوں سے نکلنے والا فُضلہ،صنعتی چمنیوں سے نکلنے والا مضرِ صحت اور ماحول کو آلودہ ترین کرنے والا دھواں،بجلی پیدا کرنے کے لیے قدرتی معدنیات کا استعمال، برقی آلات کا ضرورت سے زیادہ استعمال،ذرائع آمدو رفت کے لیے بڑھتی ہوئی گاڑیوں اور انجنوں کی پیداوار جن میں انرجی کے طور پر استعمال کی جانے والی مائع کاربن کی شکل میں پٹرول اور ڈیزل ،ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو پھنساتی ہیں اور خلا میں واپس جانے سے روکتی ہیں۔
جب سے لوگوں نے تیل،گیس اور کوئلے کا استعمال شروع کیا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے.
فضا میں موجود گرین ہاؤس گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار انیسویں صدی کے بعد سے تقریباً 50٪ اور گذشتہ دو دہائیوں سے اس میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دنیا کے سمندر سنہ 1970سے اب تک لگاتار گرم ہو رہے ہیں، انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حِدّت کا 90 فیصد سمندروں نے جذب کر لیا ہے اور سمندر کا پانی جس رفتار سے گرم ہوا ہے وہ سنہ 1933 سے اب تک دوگنی ہو چکی ہے۔
قطب شمالی اور قطب جنوبی پر جمی برف سنہ 2007سے 2016 کے درمیان اس سے پہلے کے دس سال کے مقابلے میں 3گنا زیادہ تیزی سے پگھلی ہے۔
گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔جب جنگلات کو کاٹا جاتا ہے یا جلایا جاتا ہے تو درختوں میں موجود کاربن کے ذخیرے کا وسیع پیمانے پر اخراج ہوتا ہے۔
زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
کسی ایک علاقے کی آب و ہوا اس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے، ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں۔
سائنس دانوں نے زمین کے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافے کو "گلوبل وارمنگ”کے لیے محفوظ حد مقرر کی ہے، اگر درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو قدرتی ماحول میں نقصان دہ تبدیلیاں انسانی طرزِ زندگی کو تبدیل کر سکتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سائنس دانوں کے ایک پینل کے مطابق سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، برف پگھل رہی ہے اور مستقل طور پر منجمد خطوں کے پگھلنے سے زیادہ مقدار میں میتھین گیس(جو ایک گرین ہاؤس گیس ہے)کے اخراج کا خدشہ ہے جس سے یہ عمل مزید تیز تر ہوتا جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اگر صورتحال اسی تیزی سے خراب ہوتی رہی تو سنہ2100 تک سمندروں کی سطح میں ایک اعشاریہ ایک میٹر تک اضافہ ہو جائے گا۔ اس صورتحال کے ساحلی اور سمندر کے ساتھ نشیبی علاقوں میں بسنے والے کم از کم 70کروڑ افراد کے لیے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں بتدریج اضافے کے سبب رہنے کے قابل نہ رہیں گے۔ موسم میں شدت کی وجہ سے گرمی کی لہر برقرار رہے گی اور بارشیں اور طوفان بار بار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا، نشیبی ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ سمندروں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔
آب و ہوا کے بدلنے کے پیشِ نظر ان علاقوں سے جانوروں کی مختلف اقسام دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہی ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے پیشِ نظر بہت سی اقسام ناپید ہونے کا بھی خطرہ ہے۔۔
آب و ہوا میں تبدیلی انسانی طرزِ زندگی پر اثرانداز ہو گی، اس سے پانی کی قِلت پیدا ہو گی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جاۓ گا۔
اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیر معمولی اخراج کو وقت پر کنٹرول اور اُن وجوہات کا سدِباب نہ کیا گیا جو درجہ حرارت بڑھنے کے عوامل میں کارفرما ہیں تو سائنس دانوں نے اس صدی کے اختتام تک زمین کے درجہ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
کچھ اقدامات جن پر ہم بحیثیت مجموعی کاربند ہو کر اپنی زمین کو ماحولیاتی آلودگی کے تناظر میں موسمیاتی تبدیلی سے درپیش سنگین خطرات سے دوچار ہونے سے کچھ حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں:
سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کر کے گاڑیوں پر انحصار کو کم کریں۔
اپنے گھروں کو انسولیٹ کریں
ہوائی سفر کم کریں
برقی آلات کا استعمال صرف اور صرف بوقتِ ضرورت کریں غیر ضروری اے سی یا ہیٹر نہ چلائیں۔
گوشت اور دودھ کا استعمال کم کریں، پھلوں، سبزیوں پر زیادہ انحصار کریں۔
شجرکاری مہم کو عالمی سطح پر فروغ دینا ہو گا۔ پودے ہوا کو فلٹر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کا بڑا سبب ہے یوں درختوں کی تعداد میں کم از کم 60-70٪ اضافے سے گلوبل وارمنگ کے عمل میں خاطرخواہ کمی آئے گی۔
حرارتی بلب کی جگہ انرجی سیور بلب کا استعمال عام کرنا ہو گا۔
پانی کے ذخیروں کا تحفظ کرنے کے لیے ڈیمز بنانے ہوں گے اور اس ذخیرے سے پانی کے تحفظ کے ساتھ بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ کوئلے اور پٹرول کی کھپت میں کمی واقع ہو گی اور ان کے جلنے سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز سے ہم اپنے ماحول کو محفوظ رکھ سکیں گے۔
ہمیں اپنی نسلوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے موسمی اثرات سے آگاہی اور شعور دینا ہوگا، علاقائی اور ملکی سطح پر سیمینارز اور مباحثوں کی صورت میں ہمیں اپنی موجودہ اور آنے والی نسل کی ذہن سازی کرنی چاہیے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے خطہ زمین کو محفوظ رکھنے کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہیے۔