فروا حسن
فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی نے ایک موقع پر فرانس میں حجاب مخالف مہم کے دوران میں کہا تھا:
"برقع اور حجاب آمرانہ اقدام ،نسل پرستی اور تعصب کا آئینہ دار ہے۔ برقع پوش خاتون کسی قیدی کی طرح نظر آتی ہے ".
ایک مغربی صحافی ‘مارکس کروگر’ نے کہا:
سکارف یا حجاب اس حقیقت کی علامت ہے کہ اسلامی میں خواتین کا مقام دوسرے درجے کی شہری کا ہے۔ ان کا یہ مقام مقدس تحریر, قانونی روایات, اور ورثے کے حوالے سے درج ہے”.
مشہور فیمینسٹ اسرا نعمانی کا کہنا ہے”
"جدید زمانے میں حجاب کی تحریک اسلام کے سیاسی پہلو کو پھیلا رہی ہے”.
مغربی معاشروں میں حجاب اور ان پابندیوں کے خلاف جو اسلام عورت پر اس کے وقار کے تحفظ کی خاطر لگاتاہے، مختلف قسم کا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی کیا جا رہا ہے۔”اسلاموفوبیا”کو بڑھانے کے لیے مسلمان عورت کو قیدی، مظلوم اور دیگر القابات سے پکارا جاتا ہے۔ مغرب کا ایک مخصوص طبقہ عورت کے گھر میں رہنے اور حجاب کی پابندی کو قدیم اور فرسودہ تصور کرتا ہے۔
جدید مغربی معاشروں میں عورت کی آزادی کا تصور یہ ہے کہ وہ محفلوں، اداروں، کاروباری مراکز اور سفر وغیرہ کے لیے کسی مرد یا محرم کی اجازت کی پابند نہیں۔ عورت لباس پہننے، کھانے”پینے” غرض کسی بھی کام میں کسی کی محتاج نہیں۔ وہ آزاد اور خود مختار شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکتی ہے۔
بظاہر یہ باتیں بڑی دلکش اور دلفریب لگتی ہیں لیکن حقوقِ نسواں کے ان دلفریب نعروں اور جملوں کے پیچھے چھپی کہانی کچھ اور ہی ہے۔
مشرقی اور مغربی خاتون میں "چراغِ خانہ ” اور چراغِ محفل کا فرق ہے۔ مغرب عورت کے حقوق کے لیے آواز تو اٹھاتا ہے لیکن اس کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے اس کے عدم تحفظ کے راستے ہموار کرتا ہے۔اس کے برعکس اسلام تحفظِ زن کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواتین پر کسی بھی قسم کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی نہیں لگاتا۔
اسلام کے پیشِ نظر عورت کا وقار ہےجو نہایت قیمتی ہے اسلام ان سیاسی, معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا جہاں مردو زن کا آزادانہ اختلاط ہو اور وہ بے راہ روی کو فروغ دے۔ اور اس کا منطقی نتیجہ عورت کے عدم تحفظ اور اس کے خلاف جرائم کی صورت میں نکلتا ہے۔
مغرب کے چوٹی کے ممالک میں 2021اور 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم کے سلسلے میں اعدادو شمار جمع کرنے کے لیے مختلف سروے کئے گئے۔ آئیے! ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جن معاشروں میں عورت بے حجابی کی زندگی بسر کرتی ہے، وہاں عورت کس قدر محفوظ یا غیر محفوظ ہے؟
2021 اور 22 میں برطانیہ میں 1539 پولیس افسران، خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی ہراسانی، جسمانی تشدد اور بدتمیزی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ۔ ان کے خلاف کارروائی کی شرح صرف ایک فیصد تھی۔
نیشنل پولیس چیف کونسل(NPCC) کی اکتوبر 2021سے اپریل 2022 کی تحقیقاتی رپورٹ میں درج ذیل اعدادو شمار درج ہوئے ۔یہ اعدادو شمار برطانیہ کی 28 ریاستوں کی 42000 خواتین سے انٹرویو کے نتیجے میں سامنے آئے ۔
1-ہر 10 میں سے 1 خاتون 15 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے جنسی ہراسگی کا شکار ہوئی ۔
2-ہر 20 میں سے 1 خاتون کی15 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے عصمت دری ہوئی ۔
3-ہر 5 میں سے 2 خواتین کو شوہر کی طرف سے نفسیاتی تشدد کی شکایت ہوئی ۔
4-ہر 10 میں سے 1 عورت نے ای میل یا میسجز کے ذریعے جنسی تشدد کا سامنا کیا ۔
5-برسر روزگار خواتین کی 75 فیصد تعداد نے جنسی تشدد کا سامنا کیا۔
اسی رپورٹ کے ۔مطابق 2022 میں لڑکیوں اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد ،جسمانی تشدد اور جنسی ہراسانی کے 477431 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ صرف 6فیصد ہی کو سزا مل سکی۔
انگلینڈ اور خاص طور پر لندن کے بارے میں یہ تاثر عام ہےکہ یہ ثقافتی اعتبار سے بہت آزاد خیال، متنوع اور خواتین کے حوالے سے محفوظ شہر ہیں لیکن خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے ان کے اعدادو شمار بھی کافی پریشان کن ہیں۔
لندن میٹرو پولیس کے اعدادو شمار کے مطابق 2022 میں قتل ہونے والے 44 افراد میں سے 14 خواتین تھیں۔ ان واقعات کی وجہ سے خواتین برطانیہ میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔
امریکہ میں ہوئے حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں 68620 خواتین عصمت دری اور جسمانی تشدد کی شکار ہوئیں۔
کینیڈا جسے خواتین کے لیے محفوظ ملک قرار دیا جاتا رہا ہے، میں صرف ایک سال کے اندر 427000 خواتین جن کی عمر 15سال سے زائد تھی، جنسی ہراسانی کا شکار ہوئیں، اور مقدمات درج ہوئے۔
ٹریول ایسوسی ایشن ایجنسی کے مطابق سیاح خواتین کے لیے خطرناک ترین ملک جنوبی افریقہ ہے۔ یہ جنسی تشدد کے حوالے سے بدنام ترین ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق US میں 9فیصد زیادتی کے مجرموں پر مقدمہ چلتا ہے ،3فیصد جیل جاتے ہیں اور 97فیصد آزاد گھومتے ہیں۔
گزشتہ برس افریقہ میں ہر 1لاکھ خواتین میں تقریباً 2.5فیصد اپنے قریبی ساتھی کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ براعظم امریکا میں یہ شرح 1.4،اوشیانا میں 1.2 اور ایشیا میں 0.8 فیصد رہی۔
بھارت اگرچہ ایک ایشیائی ملک ہے لیکن خواتین کے حقوق کی پامالی اور ان کے استحصال اور معاشرتی تفریق میں سب سے آگے ہے۔ یہاں خواتین آبادی کا 49 فیصد ہیں، اس کے باوجود پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی صرف 11فیصد ہے۔
بھارت بے حیائی، عریانی اور فحاشی میں کسی بھی اعتبار سے مغرب سے پیچھے نہیں ہے، کلچر کے نام پہ میڈیا کے تمام نیٹ ورکس پر عورت کو صرف تفریح طبع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بھارت میں شرح خواندگی کی بات کی جائے تو مردوں اور عورتوں کے مابین فرق 20 فیصد تک چلا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کو مردوں کی نسبت 20فیصد کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ سال 2010 سے 2022 کے دوران ملازمت پیشہ خواتین میں 7فیصد کمی ہوئی۔
سال 2022 میں بھارت کے اندر ہونے والے کل 6 لاکھ جرائم کے واقعات میں سے 71فیصد خواتین کے خلاف تھے۔2021 کی نسبت 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم میں 15.3فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق روزانہ سفر کرنے والی خواتین میں سے 80 فیصد کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور روزانہ عصمت دری کے 86 واقعات پیش آتے ہیں جن میں دہلی 6 واقعات کے ساتھ سرِفہرست ہے۔
انڈیا میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ ربیکا رچ مین ٹیورز (Rebecca Richman Taveres) کا کہنا ہے:
"میں انڈیا میں عصمت دری کے نتائج دیکھ کر حیران نہیں ہو ئی کیو نکہ یہ متوقع تھا۔ پچھلے چند برسوں میں انڈیا اور برازیل کے میڈیا نے جنسی طور پر ہراساں کرنے والے واقعات کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔
۔Pew Research Centre کی رپورٹ کے مطابق انڈیا دنیا کے ممالک میں چوتھا بدترین ملک ہے جہاں مذہبی انتہاپسندی، اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور خواتین کے خلاف جرائم کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
دورِ حاضر میں امریکا اور برطانیہ سمیت تمام صنعتی ممالک جو آزادئ نسواں کے نعروں کی آڑ میں عورت کو بالکل عریاں کرنے کے درپے ہیں جو لباس عورت کو ڈھانپ کر اس کے تقدس کو بڑھاتا ہے، اسے فرسودہ خیال کرتے ہیں اور جس میں عورت کا جسم نمایاں ہو اسے فیشن اور پہننے، اوڑھنے کی آزادی کا نام دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا عورت اس ‘مکمل’ آزادی کے ہوتے ہوئے اپنے اس وقار کے ساتھ محفوظ ہے جو صنفِ نازک ہونے کے ناتے اس کا خاصا ہے؟؟؟
یا پھر اس آزادی کے پیچھے عورت کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والوں کی مجرمانہ ذہنیت ہے؟
جو عورت کے وقار اور کردار کے پیچھے اپنے غلیظ افکار کی تلواریں لیے کھڑے ہیں؟
ایک اور نظریہ جسے اہلِ مغرب نے خود گھڑا ہے اور اس نظریے کو مسلسل مشرقی ممالک اور مسلمانوں کے ذہنوں میں انڈیلا جا رہا ہے کہ عورت جب حجاب میں ہوتی ہے یا ڈھکی چھپی ہوتی ہے تو مرد کے اندر اسے دریافت کرنے کی حرص بڑھتی ہے۔ اس تجسس کی وجہ سے مشرقی عورت جنسی زیادتی، تشدد اور ہراسانی جیسے مسائل کا شکار رہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عورت اگر حجاب سے آزاد اور کھلے عام پھرے گی تو مرد کی نگاہیں بھری رہیں گی۔
اگر یہ تصور درست ہوتا تو مغربی معاشرے میں عورت سب سے زیادہ محفوظ ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ وہاں کی عورت سب سے زیادہ غیر محفوظ اور جرائم کا شکار ہے۔
دنیا کے 195 ممالک میں سے 193 ممالک اقوامِ متحدہ کے اراکین ہیں۔ 2 ممالک فلسطین اور ویٹیکن سٹی کو غیر رکن مشاہدین کا درجہ دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک میں 50 مسلم ممالک ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے متعدد بار دنیا کے تمام ممالک میں ہونے والے عصمت دری کے واقعات کی فیصد شرح کی رپورٹ پیش کی جس میں بلند اور کم شرح والے کچھ ممالک کے نام حسبِ ذیل ہیں:
ممالک. ریپ کی شرح
بوٹسوانا. 96.87
لیسوتھو. 89.26
گریناڈا. 88.87
سویڈن. 87.97
سواتی. 82.73
جنوبی افریقہ. 70.22
سینٹ کٹس اینڈ نیوس. 56.4
پانامہ. 53.98
آئس لینڈ. 46.3
سورینام. 43.3
ناروے. 41.21
فرانس. 39.69
امریکہ. 38.2
ڈنمارک. 37.26
کوسٹاریکا. 35.53
کولمبیا. 34.62
نیوزی لینڈ. 33.76
گوئٹے مالا. 33.59
ایل سلواڈور. 30.3
ایکواڈور. 30.26
سب سے کم شرح والے ممالک درج ذیل ہیں:
عمان. 00
برمودا. 00
سعودی عرب. 0.09
مصر. 0.12
آذربائیجان. 0.15
شام. 0.17
فلسطین. 0.25
تاجکستان. 0.36
نائیجیریا. 0.47
انڈونیشیا. 0.48
لبنان. 0.55
بوسنیا. 0.54
ترکمانستان. 0.56
متحدہ عرب امارات. 0.57
آرمینیا. 0.61
ازبکستان. 0.65
یمن. 0.78
جنیوا. 0.97
ایران.1.29
الجزائر. 1.54
یروشلم. 1.69
قطر. 1.73
پاکستان. 3.07
مندرجہ بالا فہرست کے اعدادو شمار کے مطابق جن ممالک میں عصمت دری کی شرح زیادہ ہے ان میں ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں، اور مسلم ممالک میں یہ شرح غیر معمولی طور پر کم ہے۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کن معاشروں میں محفوظ ہے اور کہاں عورت کے خلاف جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ اگرچہ بیشتر مسلمان ممالک میں عورت حجاب کا مکمل اہتمام نہیں کرتی ،تاہم اس کے باوجود یہاں خواتین مغربی معاشروں کی خواتین کی نسبت زیادہ ڈھکی چھپی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح غیر معمولی طور پر کم ہے۔
اب خواتین کے خلاف جرائم کی وجہ بننے چند نظریات کا جائزہ لیتے ہیں جو مغرب میں مروج ہیں اور نہایت غور طلب ہیں:
پہلی بات جبلتوں اور انسانی حاجات کا بغور جائزہ لینے سے ہمیں انسانی فطرت کے متعلق اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عضویاتی حاجات جیسا کہ بھوک پیاس وغیرہ کی صفت یہ ہے کہ یہ کسی بیرونی محرک کی محتاج نہیں ہوتیں۔ پس ایک شخص کو لازماً بھوک لگتی ہے خواہ اس کے سامنے اچھا کھانا موجود ہو یا نہ ہو جبکہ انسانی جبلتوں کی نوعیت یہ ہے کہ یہ اس وقت بھڑکتی اور اپنی تسکین چاہتی ہیں جب کوئی بیرونی محرک انہیں ابھارتا ہے اور اس وقت سرد پڑ جاتی ہیں جب یہ بیرونی محرک موجود نہیں ہوتا،
تاہم جب تک ان جبلتوں کو پورا نہ کیا جائے تو انسان بے چین اور غیر مطمئن رہتا ہے۔ جنسی جبلت سے اٹھنے والے جنسی جذبات کی بھی یہی حقیقت ہے کہ یہ اس وقت بھڑک اٹھتے ہیں جب ایک شخص کو جنسی محرک کا سامنا ہوتا ہے خواہ یہ محرک ایک جنسی تخیل ہی کیوں نہ ہو۔ مغربی معاشرے میں ہر جگہ بلکہ ہر سڑک پر یہ ترغیب موجود ہے۔
دوسرا اہم نکتہ مساوات کے مفہوم سے متعلق ہے۔ مساوات کے یہ معنی لیے گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اخلاقی مرتبہ اور انسانی حقوق میں مساوی ہوں بلکہ تمدنی زندگی میں عورت وہی کام کرے جو مردکرتے ہیں، اور اخلاقی بندشیں عورت کے لیے بھی اسی طرح ڈھیلی کردی جائیں جس طرح مرد کے لیے پہلے سے ڈھیلی ہیں۔
مساوات کے اس غلط تخیل نے عورت کو اس کے ان فطری وظائف سے غافل اور منحرف کردیا، جن کی بجا آوری پر تمدن بلکہ نوعِ انسانی کی بقا کا انحصار ہے۔ مغرب کے اس بنیادی نظریے نے جو تباہی پھیلائی، اور اس کے تناظر میں جن سنگین برائیوں نے جنم لیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔اس نظریے نے سب سے زیادہ نقصان عورت کو پہنچایا اور مرد نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
ایک اور اہم نکتہ عورت اور مرد میں فطری صلاحیتوں کے زبردست نوعی اختلافات ہیں، اس لیے دونوں کو مساوی حیثیت دینا اپنے اندر ایک حیاتیاتی تضاد رکھتا ہے، ڈاکٹر الکس کیرل نے عورت اور مرد کے فعلیاتی (Physiological) فرق کو بتاتے ہوئے لکھتاہے:
”مرد اور عورت کا فرق محض جنسی اعضاء کی خاص شکل، رحم کی موجودگی، حمل یاطریقہ تعلیم ہی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ اختلافات بنیادی قسم کے ہیں، خود نسیجوں کی بناوٹ اور پورے نظام جسمانی کے اندر خاص کیمیائی مادّے جو خصیة الرحم سے مترشح ہوتے ہیں، ان اختلافات کا حقیقی باعث ہیں، صنف نازک کی ترقی کے حامی ان حقیقتوں سے ناواقف ہونے کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں جنسوں کو ایک ہی قسم کی تعلیم، ایک ہی قسم کے اختیارات، اور ایک ہی قسم کی ذمہ داریاں ملنی چاہئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت مرد سے بالکل ہی مختلف ہے، اس کے جسم کے ہر ایک خلیے میں زنانہ پن کا اثر موجود ہوتا ہے، اس کے اعضاء اور سب سے بڑھ کر اس کے اعصابی نظام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے، فعلیاتی قوانین (Physiological laws) اتنے ہی اٹل ہیں، جتنے کہ فلکیات (Sidereal world) کے قوانین اٹل ہیں، انسانی آرزوؤں سے نہیں بدلا جاتا، ہم ان کواسی طرح ماننے پر مجبور ہیں، جس طرح وہ پائے جاتے ہیں، عورتوں کو چاہیے کہ فطرت کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو ترقی دیں اور مردوں کی نقالی کی کوشش نہ کریں۔“
ان نظریات نے مغرب کی عورت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ پھر ایک اہم نکتہ یہ کہ عورت کو مغربی معیشت کی ترقی کا جزوِ لا ینفک بنا دیا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کاروباری مراکز میں مرد پورے جبکہ عورت آدھے لباس میں نظر آتی ہے۔
سرمایہ کاری کی اس دوڑ میں عورت کہیں محفوظ نہیں، عورت کے لیے محفوظ ترین مقام ایک ہی ہے اور وہ اسلام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی خواتین جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہو رہی ہیں۔ انہیں اسلام ماں کی گود جیسا شفیق اور محفوظ معلوم ہوتا ہے۔
مغرب طرزِ فکر اسلام کے بارے ميں يہ ہے کہ اسلام نے مردوں کو عورت پر فوقیت دی ہے ۔
تو کیا مغربی مرد عورت کو اپنے برابر سمجھتا ہے؟
ہر گز نہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو 1539 برطانوی پولیس افسران جو عورتوں کے خلاف جرائم میں ملوث تھے، ان سب کے خلاف کارروائی ہوتی۔ ایک فیصد کا شرمناک عدد میڈیا کی زینت نہ بنتا۔
اسلام نے جہاں عورت کو پردہ کا حکم دیا، وہیں مرد کو بھی نگاہیں نیچی رکھنےکی تاکید کی ہے۔
حجا ب یا پردہ قید نہیں بلکہ ڈھکی چھپی عورت اپنے نسوانی وقار کے ساتھ محفوظ ہے۔ اللہ رب العزت قرآن کریم میں ہم سے سورۃ نور میں یوں مخاطب ہوتا ہے:
"اے نبی! اپنی بیویوں،اپنی بیٹیوں اور مومن عورتوں سے فرما دیجیے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جائے اور وہ ستائی نہ جائیں گی "
اسلام مردو زن ہر دو کے لیے عافیت کا دین ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی کے متعلق نہایت واضح احکام رکھتا ہے
جبکہ اہلِ مغرب کو انسانی روح اور وقار سے کچھ سروکار نہیں، وہ عورت کو شمعِ محفل بنانا چاہتے ہیں تا کہ کاروبار چلتے رہیں۔
عورتوں کے وقار پر کوئی دھبہ آئے تو اس کے لیے بس زبانی مذمت کافی ہے۔
اسلام نے عورت کو چھپائے جانے والی اور حفاظت سے رکھی جانے والی مخلوق قرار دیا اور عورت کو وہ مراتب عطا کیے جو اس سے پہلے کسی ذہن میں موجود تک نہ تھے۔
یہی اس آفاقی پیغام کی کشش ہے جو اہلِ مغرب کو کھینچتی ہے۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے”:
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ میں نے قدسیوں سے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی زرِ کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
8 پر “خواتین کے خلاف جرائم مسلم دنیا میں کم اور غیر مسلم دنیا میں زیادہ کیوں؟” جوابات
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
فرا بہت عمدہ اور مکمل تحریر ہے
بہت شکریہ عظمت
Very impressive
تلخ حقائق ہیں
یہ مضمون اس حوالے سے درست نہیں کیونکہ خواتین کو جس بڑے پیمانے پر ہمارے معاشرے میں مسائل درپیش ہیں ان کا ڈیٹا ہی موجود نہیں ۔یہ مضموں اس تضاد کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک طرف خود اسلام کے حقوق کے حوالے سے سوال پر کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوانہ معاشرہ ہے اور دوسری طرف مغرب سے موازنہ کرتے ہوئے جرائم کم ہونے پر اس کو اسلامی یا مسلم معاشرہ کہا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو بیچا جاتا ہے ۔
جناب میرا مقصد پاکستانی یا اسلامی معاشروں کا دفاع نہیں تھا۔میرا مقصد مغرب کے آزادی نسواں کے نعرے کے پیچھے چھپی سازش کو اعدادوشمار کے ذریعے ظاہر کرنا تھا۔رہی اسلامی معاشرے کی بات تو کوئی عمل کرے یا نہیں اسلام کا ضابطہ مکمل ہے اور میں نے اسی ضابطے کا حوالہ دیا
اور یہ اعدادوشمار کسی مسلمان معاشرے سے اخذ شدہ نہیں ہے بلکہ مغربی اداروں نے خود غیر جانبداری سے پیش کیے ہیں آپ کی رائے کا شکریہ
میڈم مسلم ممالک میں خواتیں کے حوالے سے جرائم کی ڈیٹا موجود ہی نہیں تو غیر مسلم ممالک سے موازنہ کس بنیاد پر ؟
مسلم دنیا میں کم اور مغربی ممالک میں زیادہ ہے یہ دعویٰ کس بنیاد پر کیا کیونکہ مسلم ممالک میں کوئی ڈیٹا موجود ہی نہیں ؟