فریحہ حسین
بجلی کی ترسیل کا ناقص نظام، لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ پاکستان کے لاکھوں گھرانوں اور ڈی کاروباری حلقوں کو درپیش بہت سے چیلنجز میں سے چند چیلنجز ہیں۔
جرمن ادارے ‘ ڈی ڈبلیو” کا نمائندہ جب لوگوں کے تاثرات لینے کے لیے عام لوگوں کے درمیان پہنچا تو ایک نوجوان نے بتایا کہ دن میں 9 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، ایک خاتون کہنے لگی کہ بجلی کے بلوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے گھر کا بل پہلے اوسطاً 400 روپے آتا تھا لیکن اب اوسطاً 2000 آتا ہے۔ ایک نوجوان نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ہم کمائیں کیا اور کھائیں کیا۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون نے بھی طویل لوڈشیڈنگ اور بھاری بھرکم بلوں کا شکوہ کیا۔
پاکستان میں توانائی کے شعبے کا زیادہ انحصار معدنی ایندھن پر ہے۔ پاکستان میں 64 فیصد توانائی درآمد شدہ تیل، قدرتی گیس اور کوئلے سے حاصل کی جا تی ہے لیکن یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی مارکیٹ میں ان تینوں چیزوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے پاکستان جیسے ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
بجلی کی بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین پر سارا بوجھ ڈالا جا رہا ہے جس سے صارفین معاشی اور سماجی طور پر بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ روایتی ایندھن کی بجائے قابل تجدید ذرائع توانائی کو اپنایا جائے۔
ڈی۔ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سولر اور ونڈ پاور کے حوالے سے بہت پو ٹینشل ہے۔ پاکستان میں سارا سال سورج کی روشنی دستیاب ہوتی ہے مگر اب تک سولر پاور سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی۔ ماہرین اس کی وجہ حکومتی سطح پر پالیسی میں عدم تسلسل کو قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کے ایک اندازے کے مطابق اگر پاکستان میں سولر پاور کے پو ٹینشل کا صرف 0.07 فیصد قابل استعمال بنا لیا جائے تو ملک توانائی کے بحران سے نکل سکتا ہے۔ ابھی ملکی ضرورت کی صرف 2فیصد بجلی سولر انرجی سے حاصل کی جا رہی یے۔ یعنی سولر انرجی سے صرف 450 میگا واٹ یونٹ نیشنل گرڈ میں شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان نے 2030 تک قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کے حصول کو 60 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے جو بظاہر بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔
سندھ سولر انرجی کے سربراہ محفوظ احمد قاضی کے مطابق ورلڈ بنک کے تعاون سے سندھ کے 35 سرکاری ہسپتال اس وقت سولر انرجی سے مستفید ہو رہے ہیں، جن میں سے 12 ہسپتال صرف کراچی میں ہیں۔ اس پراجیکٹ سے اب تک 6.67 ملین یونٹ پیدا کیے گئے ہیں جس سے 120ملین کاربن کے اخراج سے فضا کو آلودہ ہونے سے بچایا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایسے ہی ہے جیسے 13 ہزار درخت لگا کر فضا سے کاربن جذب اور آکسیجن کا اخراج کیا جائے۔
پاکستان میں پیک سیزن میں 27000 میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ملک کی بجلی کی مجموعی پیداوار 19000میگا واٹ ہے۔ طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے بجلی کے زیادہ بل ادا کر کے بھی صارفین کو لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس مسئلے کا آسان حل سولر انرجی سے بجلی کا حصول ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گھروں اور کاروباری مراکز میں سولر سلوشن کا انتخاب بڑھ رہا ہے مگر یہ صنعت اب بھی معیشت، افراط زر، حکومتی عدم توجہی ،فوٹو ورٹک سسٹم کی بڑھتی مانگ اور اس پر ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے خاطرخواہ ترقی نہیں کر پائی۔
دوسری جانب ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گھٹتی قدر بھی اس صنعت کو متاثر کر رہی ہے ۔اس کے علاوہ ریگولیٹری اور بیوروکریٹک رکاوٹیں بھی اس صنعت کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے خوفناک اثرات حالیہ سیلاب میں بھی دیکھے گئے جس سے ملک کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا۔
انرجی سپلائی کے حوالے سے ماحول دوست توانائی کا حصول وقت کی ضرورت ہے مگر یہ ملک کے لیے چیلنج بھی ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو اس سلسلے میں درآمدات پر انحصار کم کرنے کے لیے مقامی انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا۔ قومی سطح پر سولر انرجی کو فروغ دینے کے لیے اس کی فناننسگ کو آسان بنانا ہو گا۔ سولر پینل، انورٹر اور بیٹریوں کی مقامی پیداوار کی کوشش کرنی ہو گی۔ یوں ہم سپلائی چین کی ممکنہ رکاوٹوں کو بھی دور کر سکتے ہیں۔
سولر انرجی پالیسی کو عام کر کے پاکستان اپنے توانائی کے بحران سے نکل سکتا ہے مگر اس سلسلے میں عالمی برادری کی معاشی اور تکنیکی مدد درکار ہو گی۔
3 پر “بجلی کا بحران: کیسے چلے گا پاکستان؟؟” جوابات
آپ نے بہت اہم موضوع پر قلم اٹھایا ھے۔ پاکستان جیسے غریب ملک کو سولر انرجی ہی اس بحران سے نکال سکتی ھے۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے امیر ممالک جہاں بجلی کی بہتات ھے وہ تو ہر نئی بلڈنگ میں اور حتی کے سڑکوں پر بھی سولر پینلز سے بجلی پیدا کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں ابھی تک یہ شعور آٹے میں نمک کے برابر ھے۔
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر جتنی جلدی ممکن ہو منتقل ہو جائیں۔ ورنہ فیول ایڈجسٹمنٹ دینے کے بعد بھی قوم کو لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں حکومت کو سنجیدگی سے کوشش کرنا ہو گی۔
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر جتنی جلدی ممکن ہو منتقل ہو جائیں۔ ورنہ فیول ایڈجسٹمنٹ دینے کے بعد بھی قوم کو لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں حکومت کو سنجیدگی سے کوشش کرنا ہو گی۔