ڈاکٹر کلثوم عبدالرزاق خان
فرانس میں جاری احتجاج نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ اس احتجاج کی خاصیت یہ ہے کہ انقلاب فرانس کے بعد سب سے بڑا احتجاج ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟
2023 ء کے آغاز میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے پنشن اصلاحات اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے(62سال سے بڑھا کر 64 سال) کابل پیش کیا، جس کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ امسال جنوری میں جب اس قانون کامسودہ سامنے آیا تو حکومت نے کہا کہ 2030ء تک پینشن کے نظام میں تقریبا 13.5 بلین یورو کی ضرورت ہو گی، اس لیے یہ اصلاحات ضروری ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات رواں سال کے آخر تک نافذ کردی جائیں گی۔
عوام کی اکثریت پینشن قانون سازی اور پارلیمانی ووٹ کے بغیر اسے آگے بڑھانے کے فیصلے کی سخت مخالف ہے۔ میکرون جو اپنی دوسری اور آخری صدارتی مدت میں ہیں، کا کہنا ہے کہ موجودہ پینشن نظام میں اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ ملکی معیشت کو کمزور کردے گا۔
دوسری طرف مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر کا یہ اقدام ہمیں بتاتا ہے کہ آپ کو اس وقت تک کام کرنا پڑے گا جب تک آپ لوگ تھک ٹوٹ کر گر نہ جائیں اور قبرستان تک نہ پہنچ جائیں۔
فرانس کا موجودہ پینشن نظام دوسری جنگ عظیم کے بعد سے نافذ ہے۔ یہاں پینشن اصلاحات ہمیشہ سے ہی متنازع رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے حکومتوں کو ان اصلاحات کے خلاف شدید مزاحمت کا سامنا کر ناپڑا جو 2004ء ، 2008ء ، اور 2010ء میں منظور ہوئیں۔
صدر میکرون اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہیں کہ انہوں نے ریاستی محصولات بڑھانے کے لیے متبادل ذرائع کے طور پر دولت مندوں پر ٹیکس میں اضافہ نہ کیا۔ ناقدین پینشن اصلاحات پر اس لیے بھی تنقید کر رہے ہیں کہ مزدوروں اور ان کے والدین پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے، خصوصاً ان لوگوں پر جو بچوں کی پرورش کے لیے مدت ملازمت کی تاریخ تکمیل سے کئی برس قبل ہی ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔
احتجاج کس قدر زوردار ہے؟
فرانس کے اس پر زور احتجاج میں 8 بڑی یونینز یعنی ٹرانسپورٹ، تعلیم، پولیس، ایگزیکٹو اور پبلک سیکٹر کے ملازمین
بھی شامل ہیں۔ لوگوں کا احتجاج پر تشدد تب ہوا جب صدر میکرون کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 49.3 کو استعمال کرتے ہوئے پینشن اصلاحات اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کابل پارلیمنٹ میں بحث اور ووٹنگ کے بغیر ہی منظور کروا لیا۔
ان مظاہروں کی وجہ سے برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم کا دورہ بھی ملتوی ہو چکا ہے۔ دار الحکومت پیرس میں پبلک ٹرانسپورٹ میں خلل پڑا۔ میٹرو اور مضافاتی علاقوں کی طرف جانے والی ٹرینیں بھی متاثر ہوئیں۔ سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے ایفل ٹاور اور لوور میوزیم جیسے اہم اور سیاحتی مقامات کو بند کرنا پڑا۔ آئل ریفائنریز اور بندرگاہوں کو بھی مظاہرین نے بلاک کر دیا ہے۔
دوسری جانب پولیس کی جانب سے بھرپور طاقت کا استعمال اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ” ایمنسٹی انٹرنیشنل” اور دیگر تنظیموں نے احتجاج کا حق سلب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانن کے مطابق احتجاج سے نمٹنے کے لیے 13000 سیکورٹی اہلکار تعینات کئےگئے۔ ان میں سے 5500 صرف پیرس میں ہی تعینات کئے گئے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ احتجاجی مظاہروں میںاب تک 105 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ 201 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
وزیراعظم الزبتھ بورن نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں مظاہروں میں تشدد اور تباہی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
صدر میکرون کا موقف کیا ہے؟
صدر میکرون نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی مقبولیت میں کمی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اصلاحات بہت ضروری ہیں۔ یہ ملک کے مجموعی مفاد میں ہیں۔ انہوں نے یہ کام بجٹ خسارہ کم رکھنے کے لیے کیا ہے۔ واضح رہے کہ رائے عامہ کے حالیہ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ صدر میکرون کی مقبولیت 28 فیصد تک گر گئی ہے۔
عوام کی جانب سے پینشن بل کو معطل اور نظرثانی کرنے کے مطالبے کو حکومت کی طرف سے مسترد کیے جانے کے بعد احتجاجی مظاہروں میں دن بدن شدت آرہی ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطاق پیرس میں 5 لاکھ افراد نے مارچ کر کے گاڑیاں اور کچرے کے ڈبے تک جلا دئیے۔ مختلف شہروں میں جلاؤ گھراؤ کی وجہ سے 50 فی صدپروازیں منسوخ کردی گئی ہیں۔ فرانسیسی ڈیمو کر یٹک کنفیڈریشن آف لیبر(سی ایف ڈی ٹی) نامی اصلاحات پسند یونین کے صدر لارینٹ برجر نے کہا کہ مظاہروں میں شریک افراد 10لاکھ سے تجاوز کرگئے ہیں۔
آگے کیا ہوسکتا ہے؟
اس مسئلے کا حل ٹیکس کے اطلاق کے ذریعے مختلف طریقوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے پینشن کی عمر 62 برس سے بڑھا کر 64 برس نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ نچلے طبقے کی بجائے امیروں پر ٹیکس لگاکربجٹ اصلاحات کرنے پر زور دیا گیا لیکن حکومت نے یہ تجاویز مسترد کر دیں اور اصرار کیا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے حکومتی بل کو سال کے آخر تک بہرصورت نافذ کر دیا جائے گا۔
سیاسی تجربہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے سے داخلی اور خارجی سطح پر میکرون کی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے۔
برونوکو تریس (سیاسی تجزیہ نگار) کہتے ہیں کہ ایمانوئل میکرون دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ ایسی اصلاحات نافذ کر سکتے ہیں جو فرانس میں کوئی دوسرا صدر نہ کر سکا۔ یہ یورپی سطح پر بھی اہم ہے۔ اگر وہ اپنے ملک میں اصلاحات نافذ نہ کرسکے تو وہ ایک مضبوط یورپی رہنما کے طور پر اپنی ساکھ کھو دیں گے۔
دو تہائی عوام پینشن اصلاحات کے مخالف
رائے عامہ کے حالیہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ دو تہائی سے زیادہ فرانسیسی شہری ان اصلاحات کے مخالف ہیں۔ یہ مظاہرین حکومت کے ساتھ اس معاملے میں جیت کے لیے پرعزم ہیں۔
فرانس میں جاری احتجاج آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کرے گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فرانس کی بڑی آئینی عدالت صدر میکرون کے پینشن اصلاحات کے متنازع قانون کے بارے میں فیصلہ 14 اپریل کو کرے گی۔ فرانسیسی عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ فرانس کے مستقبل کا پتہ دے گا۔
پینشن اصلاحات صرف اس وقت قانون بنیں گی جب آئینی عدالت اس کی توثیق کرے گی۔ اس کے پاس آئین سے متصادم کوئی بھی قانون ختم کرنے کا اختیار ہے۔ عدالت کے ارکان ریٹائرمنٹ کی عمر 62 برس سے بڑھا کر 64 برس کرنے کے قانون سے متعلق دو فیصلے دیں گے ۔
پہلا فیصلہ تو اس بات پر ہوگا کہ آیا یہ قانون آئین سے متصادم تو نہیں؟ دوسرا فیصلہ ریفرنڈم سے متعلق ہوگا کہ آیا اس قانون پر ریفرنڈم ہونا چاہیے یا نہیں؟