فریحہ حسین

ہم موسمیاتی تبدیلی کا عمل کیسے سست کرسکتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فریحہ حسین

ایک مشہور یونانی مفکر نے کہا تھا کہ انسان معاشرتی حیوان ہے کیونکہ وہ اپنی جبلت کی بنا پر نہ اکیلا رہ سکتا ہے اور نہ ہی اکیلے رہ کر ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔

درحقیقت انسان ہمیشہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہا ہے اور یہ تلاش معاشرے اور قدرتی ماحول سے کٹ کر نہیں کی جا سکتی بلکہ انسانی ترقی قدرتی ماحول ہی کی مرہون منت ہے۔ یہ قدرتی ماحول ہی ہے جو انسان کو وہ تمام وسائل مہیا کرتا ہے جو اس سیارے پر زندہ رہنے اور انسانی بقا کے لیے درکار ہیں۔

پوری کائنات میں صرف زمین پر زندگی ہے اور زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ماحول ہے۔ اس ماحول کی عدم موجودگی یا اس کے قدرتی توازن میں تبدیلی کی صورت میں زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

قدرتی ماحول مختلف اقسام کے حیاتیاتی اور غیر حیاتیاتی عوامل کی آپس میں اشتراک سے بنے مختلف قدرتی چکروں کا مجموعہ ہے جو قدرتی توازن برقرار رکھتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی قدرتی چکر ڈسٹرب ہوتا ہے تو ماحولیاتی توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔ یہ بگاڑ کسی بھی علاقے کی عمومی آب و ہوا کو تبدیل کر سکتا ہے۔ یہی تبدیلی ‘ماحولیاتی تبدیلی’ کہلاتی ہے۔

اب وقت ہے کہ انسان اپنی ہی بقا کے لیے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں،

بنی نوع انسان کی طرف سے شہر کاری اور صنعت کاری کی تحریک نے طب، صنعت اور سماجی شعبے کو ترقی دی ہے۔ مگر قدرت کے معاملات میں بلا جواز مداخلت، درختوں کی کٹائی اور قدرتی وسائل کے بے رحم استعمال نے قدرتی تناسب کو خراب کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے۔

یہ بڑھتا درجہ حرارت ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے۔ یہ صورتحال انسانی زندگی کی بقا کو چیلنج کر رہی ہے۔ ماہرین کی رائے میں موسمی تبدیلیوں کی بدولت عالمی حدت میں اضافے کے حیاتیاتی تنوع پر اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان کی بقا خطرات سے دوچار ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ عالمی حدت میں اضافہ ہے اور عالمی حدت میں اضافہ کی بنیادی وجہ خطرناک گیسوں کا اخراج ہے۔

گزشتہ صدی سے تیل، گیس اور کوئلے کے استعمال سے زمین کی حدت میں 1.2 سینٹی گریڈ کا اضا فہ ہوا ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر ماحولیاتی تبدیلی کے عمل کو سست کرنے کے لئے کام کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین بحران سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ مگر کچھ چھوٹے چھوٹے اقدامات کر کے ماحولیاتی تبدیلی کے اس عمل کی رفتار کم کی جا سکتی ہے۔

خطرناک گیسوں کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ ذرائع آمدورفت سے نکلنے والا دھواں ہے کیونکہ ذرائع آمدورفت کی وجہ سے فضا میں کاربنز کا اخراج بڑھ رہا ہے۔ ان خطرناک گیسوں اور کاربنز کا فضا میں اخراج روکنے کے لیے ضروری ہے کہ رفتہ رفتہ ذرائع آمدورفت کو ڈی کاربنائز کیا جائے۔

ایک اندازے کے مطابق بجلی سے چلنے والا سکوٹر پٹرول سے چلنے والی گاڑی کی نسبت 10 گنا کم کاربن فضا میں خارج کرتا ہے۔

لائف سٹائل میں کچھ تبدیلیاں بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہو تو پیدل سفر کو ترجیح دیں۔روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی بجائے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا استعمال کیا جائے۔ ممکن ہو تو ریل کے سفر کو ہوائی سفر پر ترجیح دی جائے۔ پرائیویٹ ذرائع آمدورفت کی بجائے عوامی ذرائع آمدورفت کا استعمال کیا جائے تو فضا میں خارج ہونے والی کاربنز کی مقدار خاطر خواہ کم کی جا سکتی ہے۔

گوشت اور ڈیری مصنوعات کی پیداوار فضا میں 15 فیصد خطرناک گیسوں کے اخراج کی وجہ بنتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سے حیاتیاتی تنوع کا توازن بھی بگاڑ کا شکار ہوتا ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ کے ادارے ‘بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی’ کی تجویز ہے کہ گوشت اور ڈیری مصنوعات کے مقابلے میں سبزیوں کا استعمال بڑھایا جائے۔

خطرناک گیسوں کے اخراج سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کی ایک اور وجہ توانائی کے حصول کے لئے جلایا جانے والا حیاتیاتی ایندھن یا فوسل فیول کا استعمال بھی ہے۔ان کی بجائے اگر قابل تجدید ذرائع مثلا ہوا، پانی اور سورج کی روشنی کے ذریعے توانائی کے حصول پر توجہ دی جائے تو ماحولیاتی تبدیلی کے عمل کی رفتار کم کی جا سکتی ہے۔

بجلی ترقی یافتہ دور کی بنیادی ضرورت ہے مگر اس کے بہتر استعمال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رات کے وقت کم سے کم برقی آلات کا استعمال کیا جائے۔ کمرے سے نکلتے ہوئے تمام برقی آلات بند کر دینے چاہئیں۔ عوامی مقامات پر رات کے وقت کم سے کم برقی قمقموں کا استعمال کیا جائے۔ ان سادہ ترین ہدایات پر عمل کر کے بجلی کی رسد بھی بہتر کی جا سکتی ہے اور عالمی حدت بھی۔

خواتین اور مرد جنگل سے کوڑا کرکٹ جمع کرنے کی مہم میں شریک ہیں

خوراک ہمارے کھانے کی میز تک پہنچنے سے پہلے بہت سے مراحل سے گزرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پیدا ہونے والی خوراک کا ایک تہائی حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ ضائع شدہ خوراک کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کا باعث بنتی ہے۔ اس سے انتہائی خطرناک میتھن گیس خارج ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ خوراک کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ اتنا پکایا جائے جتنا کھایا جا سکے۔ اس سلسلے میں فوڈ چینز پر بھی دبائو ڈالا جائے کہ وہ کھانے کی اشیا کو ضائع کرنے کی بجائے انہیں مستحقین تک پہنچانے کا خاطر خواہ انتظام کریں۔

انسان کی ترقی کی بدولت کنکریٹ کی عمارتوں اور سڑکوں نے قدرتی مناظر کی جگہ لے لی ہے۔ انسانی تعمیرات کے نام پر جنگلات کے کٹائو نے عالمی حدت میں اضافہ کر کے ماحولیاتی توازن بگاڑ دیا ہے۔ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ درخت ماحولیاتی آلودگی کو روکتے ہیں، درجہ حرارت کنٹرول کرتے ہیں اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار جذب کرتے ہیں۔

ایسے میں ضروری ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے اور حیاتیاتی تبدیلی اور تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ اس سے گرمی کے موسم میں درجہ حرارت کم ہوگا، نتیجتاً ائر کنڈیشنز کے استعمال میں کمی آ سکتی ہے۔

لائف سٹائل میں کچھ تبدیلیاں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کو سست کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، اسے سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت بڑھے گا ویسے ویسے آب و ہوا میں بھی تبدیلی آئے گی۔ دنیا میں بعض خطے شدید گرم اور بعض شدید ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ عا لمی حدت میں اضافے سے سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے کچھ علاقے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

 برف اور گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ جنگل کی آگ کے لیے سازگار موسمی حالات میں اضافہ ہو رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ بہت سے جانوروں اور حشرات کی اقسام کے ناپید ہونے کا امکان ہے۔ ان میں سے کچھ جاندار زمین پر حیاتیاتی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔

موسم میں شدت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات مثلاً گرمی کی لہر، بارشیں اور طوفان بار بار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے لیے خطرہ ہو گی۔

غریب ممالک کے شہریوں کے پاس حالات کے مطابق ڈھلنے کا امکان کم ہوتا ہے اس لیے وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔

  اس سب کچھ کے تناظر میں اب وقت ہے کہ انسان اپنی ہی بقا کے لیے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں، اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم شاپنگ بیگ کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہونا چاہیے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں