پچھلے دنوں، چوہدری پرویز الٰہی کے فرزند ارجمند مونس الٰہی نے ایک ٹویٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا:”ہور چوپو”۔ اس پر بڑی بحث ہوئی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ انہوں نے یہ طنز اور طعنہ عمران خان کو دیا ہے۔ تاہم ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار سید طلعت حسین کا خیال ہے کہ چوہدری مونس الٰہی نے بالواسطہ پیغام عمران خان کو دیا لیکن براہ راست پیغام فواد چوہدری جیسے لوگوں کو دیا جنہوں نے بہت تیزی اور تندہی کے ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں تڑوائیں۔
اسمنلیاں توڑتے ہوئے جو خواب دیکھے گئے تھے اور جو امیدیں لگائی گئی تھیں یعنی قبل از وقت انتخابات کی، وہ تمام تر امیدیں دم توڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ اس حوالے سے طویل المدت لیگل آرگومنٹ سپریم کورٹ کے بینچز کی طرح ٹوٹتا پھوٹتا نظر آ رہا ہے۔ اس تناظر میں چوہدری مونس الٰہی کی اس ٹویٹ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
مونس الٰہی نے فواد چوہدری اور ایسے ہی دیگر لوگوں کے بارے میں یہ بات کیوں کہی؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سید طلعت حسین نے کہا: "دراصل یہ لوگ عمران خان کے خیالات کی براہ راست نمائندگی بھی کرتے ہیں اور ان پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس تمام مسئلے کا آغاز اس وقت ہوا جب پنجاب میں ایک اچھی خاصی حکومت چل رہی تھی، جس کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی تھے۔ یہ حکومت بڑی قانونی باریکیوں کے ساتھ بنوائی گئی تھی۔لیکن پھر عمران خان نے ایک جلسے کے اندر یک دم اس حکومت پر پہاڑ توڑ دیا کہ وہ اس حکومت کو چلتا کردیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی خیبر پختون خوا حکومت کو بھی چلتا کرنے کی خبریں گردش کرنے لگیں”۔
” خیبر پختونخوا کے سیاست دانوں نے اسمبلیاں توڑنے کے خلاف آواز بلند کی، وہ دب گئی کیونکہ انہیں کہا گیا کہ آپ نے حکومت میں نو ، ساڑھے نو سال گزارے ہیں، آپ نے جو دشمنوں کو فتح کرنا تھا، وہ کرلیا۔ جو کاروبار میں برکت ڈالنا تھی، وہ ڈال لی۔ اب آپ براہ کرم 6ماہ انتظار کریں، 6ماہ بعد یا اس سے کم عرصہ میں ہم انتخابات کروالیں گے، اور آپ سب لوگ میرے ہاتھ سے دیے گئے ٹکٹس سے واپس اسمبلیوں میں آ جائیں گے” ۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ( پی ٹی آئی کے )خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ پنجاب کے اندر جو نئی نویلی” حکومت بنی تھی، چند مہینوں بعد اسے دھچکا لگا، پھر دوبارہ حکومت بن گئی۔ پرویز الٰہی اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے پر مطمئین نہیں تھے، انہوں نے عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اسمبلیاں توڑ کر آپ یہاں کے معاملات پر کنٹرول نہیں کر پائیں گے”۔
انہوں نے خاصا منت ترلہ کیا، عمران خان کے بعض قریبی ساتھیوں کو استعمال کیا، عمران خان کو قائل کرنے کی” کوشش کی کہ آپ اسمبلیاں نہ توڑیں۔ آپ اسمبلیاں تحلیل کردیں گے تو حالات نہایت مخدوش ہوسکتے ہیں۔ آپ طاقت میں نہیں ہوں گے تو آپ موثر ثابت نہیں ہوسکیں گے۔ پھر آپ سڑکوں پر ہوں گے”۔
عمران خان کے گرد جو گروپ ہے، اس نے چوہدری پرویز الٰہی، مونس الٰہی اور ان کے دوستوں کا ‘توا’ لگانا شروع کردیا۔” انھوں نے عمران خان کو باور کرایا کہ چوہدری بزدل ہیں، انھیں سیاست کا پتہ نہیں ہے۔ آپ ایک عوامی لیڈر ہیں، عوام آپ کے ساتھ ہے، اسٹیبلشمنٹ کی کیا مجال کہ وہ عوام کی بات نہ سنے۔ عدلیہ بھی ہماری بات سنے گی، رہی بات موجودہ حکومت کی، وہ مہنگائی کے دبائو میں دھنس رہی ہے، اس لیے آپ فکر نہ کریں، آپ اسمبلیاں تحلیل کردیں ، پھر جب آپ زمینی حقائق کو تبدیل کردیں گے تو اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی اور چارہ کار نہیں ہوگا کہ وہ دوسری اسمبلیاں بھی تحلیل کرے۔ پھر آپ پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان حتٰی کہ سندھ میں بھی جیت جائیں گے اور مرکز میں بھی آپ دو تہائی اکثریت کے ساتھ جو چاہیں، کرتے رہیں”۔
عمران خان خود بھی ایسی ہی سوچ رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نےفوراً اسمبلیاں تحلیل کردیں۔ پرویز الٰہی، مونس الٰہی” اور دیگر ساتھیوں کا مشورہ نہ مانا گیا کہ آپ اسمبلیاں تحلیل نہ کریں، ایسا کیا گیا تو انتخابات آپ سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ انہوں نے سمجھایا تھا کہ انتخابات اسی وقت ہوں گے جب دوسری اسمبلیاں تحلیل ہوں گی”۔
انھیں یہ بھی سمجھایا گیا تھا کہ قومی اسمبلی میں آپ کے پاس گنجائش موجود نہیں ہے۔ بلوچستان آپ کے ہاتھ میں” نہیں ہے، سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، وہ کیونکر اسمبلیاں تحلیل کریں گے! یہ معاملہ بہت خراب ہوجائے گا۔ تاہم اس وقت عمران خان نے اپنے تمام تر سیاسی انڈے عدلیہ کی باسکٹ میں ڈال دیے”۔
ریٹائرڈ جج صاحبان اور ان کے اہل خانہ عمران خان کے کان میں مسلسل یہ باتیں ڈال رہے تھے کہ عدلیہ کے اندر وہ اس” قدر زیادہ مقبول ہیں کہ 1992 میں بھی اس قدر مقبول نہیں تھے جب وہ کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر آئے تھے۔ یوں عدلیہ کے لیے ایک ایسی بس سروس چلائی چلائے گی جو انہیں زمان پارک سے سوار کرے گی اور آرام سے وزیراعظم ہائوس میں پہنچا دے گی۔ پھر وہ وہاں سے نکلیں گے تو وزیراعلیٰ ہائوس پنجاب پہنچ جائیں گے، پھر وہاں سے نکلیں گے تو وزیراعلیٰ ہائوس خیبرپختونخوا پہنچ جائیں گے۔ یعنی جہاں چاہیں گے، آپ پہنچ جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ آپ کے سامنے تھر تھر کانپ رہی ہوگی۔ میڈیا جو آپ کی مدح سرائی نہیں کرتا، اسے ہم نکال باہر کریں گے۔ بس! آپ عدلیہ پر بھروسہ کیجیے۔ پھر عدلیہ پر بھروسے کی تحریک کا آغاز ہوا، اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں”۔
آج عمران خان اور ان کی سیاست کہاں کھڑی ہے؟
سید طلعت حسین کا کہنا ہے "عدلیہ جس پر وہ تکیہ کر رہے تھے، کے اندر سے اکثریت کی آواز یہ ہے کہ جس طریقے سے عدلیہ کو چلایا جارہا ہے، وہ نہ صرف عدلیہ کی توہین ہے بلکہ اعلیٰ ترین ادارے کا تقدس بھی برے طریقے سے مجروح کر رہا ہے۔ آج عدلیہ کے اندر سے عدلیہ کے چوٹی کے دفتر یعنی چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات کم کرنے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ آج ازخود نوٹس کے معاملے پر عمران خان کی جو تمام "عدالتی مشاورتی کمیٹی” تھی، جس پر انہوں نے بھروسہ کیا ہوا تھا، وہاں پر وہ طاقت کم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جس پر عمران خان تکیہ کیے ہوئے تھے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بل منظور ہوچکا ہے۔ آج عدلیہ کے سینئر ترین ججز بتا رہے ہیں کہ ازخود نوٹس پر چیف جسٹس اپنی مرضی کا بینچ نہیں بنا سکتے، اپنی مرضی کے کیسز نہیں سن سکتے، وہ من مرضی نہیں کرسکتے”۔
عدلیہ کے اندرونی حالات عمران خان کے "مشاورتی گروہ” نے پڑھنے میں بہت بڑی غلطی کی ہے، اس نے پنجاب کے سیاسی” حالات پڑھنے میں بھی بہت بڑی غلطی کی ہے”۔
” پرویز الٰہی اور مونس الٰہی، دونوں پنجاب کی حد بہت دانش مند نظر آتے ہیں۔ آپ ان کی سیاست سے متعلق جو مرضی کہتے رہیں لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ زمینی حقائق سے تعلق نہیں رکھتے”۔
فواد چوہدری نے پرویز الٰہی کو ہانڈی کے ایک مصالحہ کے طور پر بیان کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کوئی عوامی” لیڈر نہیں ہیں، انہیں تو ہم نے ایسے رکھا ہوا ہے جیسے ہانڈی میں مصالحہ ہوتا ہے۔ فواد چودھری کا بیان اسی سوچ کا عکاس ہے جس کے تحت، غلط فہمی کی بنیاد پر، ایک سراب کا پیچھا کرتے ہوئے عمران خان کے عدالتی اور مشاورتی، دونوں گروپوں نے عمران خان کو ایک گڑھے میں لا کر کھڑا کردیا ہے”۔
سپریم کورٹ کے اندر جن لوگوں پر تکیہ کیا جارہا تھا، ان کی بس ڈی ریل ہوگئی ہے۔ اب انتخابات کا معاملہ کھٹائی” میں پڑتا نظر آتا ہے، میں ان انتخابات کی بات کر رہا ہوں جو عمران خان کو چاہئیں۔ ان انتخابات کی بات نہیں کر رہا جو ایک ساتھ ہونے ہیں۔
عدلیہ کے اندر جو تحریک چل رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ باہر سے عدلیہ پر دبائو ڈالا جارہا ہے،” عدلیہ خود اصلاحات چاہتی ہے اور بہت سارے ججز کا صبر جواب دے چکا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں عدلیہ اس انداز میں کام کرتی رہی تو ایک، دو ججز کے گھر کی باندی بن کے رہ جائے گی۔ آپ کو ایک ایسا ماڈل اختیار کرنا چاہیے جس میں تمام ججز اپنا حصہ ڈالیں، اور عدلیہ کی عزت کو بحال کریں۔
” عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان سیاست کو پڑھنے کا مقابلہ ہو تو چوہدری پرویزالٰہی بہت اچھی طرح سے جیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کتنے خفا اور پریشان تھے، جب انہیں پتہ چلا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں اور اس پر فیصلہ اٹل ہے۔ تب وہ کسی شخص سے ٹیلی فون پر بات کر رہے تھے، جن لوگوں نے اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دیا ، ان کے بارے میں وہ کیا کہہ رہے تھے:
” وہ فواد چوہدری کو گالی دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اسے بہت دیر سے گرفتار کیا گیا، اس موٹے کو ایک مہینہ پہلے پکڑ لیتے تو اسمبلیاں نہ ٹوٹتیں۔ ہم پر زور ڈالا ہوا تھا، اسے پکڑ لیتے تو اسمبلیاں بچ جاتی۔”