فروا حسن
روئے زمین پر نوعِ انسانی کی بقا کا سفر تنہا ایک صنف کے لیے نا ممکن ہے۔ اسی لیے عورت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔
عورت خالقِ کائنات کی وہ لطیف تخلیق ہے جس کا وجود اس حبس زدہ دنیا میں نسیمِ بہار کی مانند ہے۔ جو ہر روپ میں محترم ہے۔
وہ ماں ہے تو اس کے درجے کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ خود خالقِ ارض و سما نے اپنی محبت کی مثال کے لئے ماں کی تشبیہ منتخب کی۔
وہ بہن ہے تو اس روپ میں محبت کی عمدہ مثال ہے ۔
وہ بیوی ہے تو وفا اور قربانی کے الفاظ اسی کے وجود سے پھوٹے ہیں ۔
وہ بیٹی ہے تو اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے لازوال رحمت کا باعث ہے۔
آج جدید معاشروں میں عورت کی آزادی پر ، عورت کے حقوق پر سیمینارز منعقد کرائے جاتے ہی، ریلیاں نکالی جاتی ہیں، مختلف فورمز پر تقریریں کی جاتی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عورتوں کے مسائل زیرِبحث لائے جاتے ہیں۔
یہ امر ناقابلِ تردید ہے کہ عورت سبھی معاشروں میں مرد کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے۔ چاہے وہ کھیت کھلیان ہو، کھیل کا میدان ہو، میڈیا ہو یا کاروباری دفاتر، ہر جگہ عورت کی موجودگی مسلم ہے۔
قبل از اسلام عورت عرب اور غیر عرب سبھی معاشروں میں ذلیل تھی۔ اُس وقت کہیں وہ لونڈی اور کنیز تھی ، کہیں اس کی حیثیت پاؤں کی جوتی کے برابر تھی ،کہیں شوہر کے مر جانے پر ستی کر دی جاتی تھی ، اور عرب میں تو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دی جاتی تھی۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد عورتوں کے لیے پیغامِ بہار تھی، ان کے لیے آزادی کا خوبصورت نغمہ تھی سب سے بڑھ کے ان کے لئے عزت کا سندیسہ تھی۔
آپ کی آمد سے ریگزار مزاج عرب ایسی نرم مٹی بن گئے جس پر ہر روز بادل کا ٹکڑا برستا ہو۔ ان کے لیے آپ کا فرمان
“کہ یہ طبقہ عزت اور ہمدردی کے لائق ہے” کافی ہو رہا۔ انہوں نے نہ صرف خود اس کو سمجھا بلکہ اپنے عمل سے اقوامِ عالم کو بھی اس سے روشناس کرایا ۔
آج ہم ہادئِ اسلام کی رہبری کے سہارے اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں۔ وقت کا پہیہ کچھ ایسا گھوما کہ جس نے موجودہ دور میں ترقی کے بھی مفاہیم بدل دئیے۔
سوشل میڈیا کے غبار نے جہاں ہر معاشرتی موضوع کو نئے معانی عطا کئے ، وہیں فی زمانہ عورت کے حقوق اور آزادی کی پکار میں نئے پن کی گونج سنائی دیتی ہے ۔
آج کی عورت کو ذہنی ، روحانی اور جسمانی آزادی درکار ہے۔ وہ مرد کی محکومیت اور غلامی سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔وہ نہ صرف ذہنی طور پر مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے بلکہ لباس، انداز، شخصیت، کردار ہر پہلو سے اس کی برابری کر رہی ہے۔
عورت جہاں کاروباری اور معاشرتی اداروں میں مرد کے ساتھ چل رہی ہے وہیں سوشل میڈیا پر بھی اس کا پلڑا مرد کے برابر ہے بلکہ بھاری ہے۔
میرا سوال بس اتنا ہے کہ کیا عورت اپنے اس مقام کو قبول کر رہی ہے جو ہادئِ اسلام نے اس کو بخشا تھا یا پھر اسلام کے نام پر وہ اپنے لئے کچھ اور مقام متعین کرنے کے درپے ہے؟
کیا عورت مارچ ہادئِ اسلام کی تعلیمات اور ان کے متعین کردہ مقام کے بر عکس نہیں؟ کیا “میرا جسم میری مرضی ” کا نعرہ گالی نہیں؟
کیا مغربی معاشروں میں ایسی آزادی کا مطالبہ تمسخر کا باعث نہ ہو گا؟
بالکل ہو گا۔۔ جب بھی کوئی اسلام کی مقرر کردہ حدود سے متجاوز ہوگا، وہ ذلیل ہوگا۔
عورت آزادی کے نعروں ، مارچ، تقریروں اور بحثوں کے باوجود آج بھی کئی معاشروں میں مظلوم ہے۔ اور زیادہ تر ترقی یافته معاشروں میں بھی اب تک وہ معاشرے کے مردوں کے تابع ہے۔
ایسا اسی لئے ہے کہ آج کی عورت خود اپنے مقام کا تعین کرنا چاہتی ہے وہ بھی جدید تقاضوں کے مطابق۔ لیکن اس تگ و دو میں اسے اپنی ہار تسلیم کرنا ہی پڑتی ہے۔
میں عورت کی آزادی کے خلاف نہیں بلکہ مجھے ‘میرا جسم میری مرضی’ کے نعرے کے پیچھے چھپی حیا کی نفی کرتی ہوئی آزادی سے نفرت ہے۔
عورت باہر نکلے، کام کرے، اپنی قابلیت سے ملک و قوم کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے لیکن آزادی کے پردے میں اپنے وقار کا سودا نہ کرے۔
عورت کو اسلام نے عزت کے قابل بنایا ہے، وہ صنفِ نازک کے طور پر اگر گھروں میں اپنا کردار بخوبی نبھا سکتی ہے تو صنفِ آہن کے طور پر بھی خود کو منوا سکتی ہے۔
مردوں کو بھی چاہیے کہ عورت گھر میں ہو یا باہر اس کی عزت اور احترام میں کمی نہ آنے دیں۔ اس کا جائز مقام دینے میں بخل یا تنگ نظری سے کام نہ لیں اور اس بات کو سمجھیں کہ;
مکالماتِ فلاطون نہ لکھ سکی لیکن
اس کے شعلے سے پھوٹا شرارِ افلاطون
عورت رنگ ہے, خوشبو ہے, شعر ہے اور حسن بھی ہے
اسی کے ساز سے زندگی کا سوزِ دروں ہے
اسی کی زلف کے پیچ و خم میں ہستی کے رموز پوشیدہ ہیں۔
اسی کی مسکراہٹ کی تجلی سے کائنات میں فسوں ہے,
اس کی چال سے ستاروں میں توازن ہے
اسی کے بطن سے اقبال کا مردِ مومن جنم لیتا ہے اور اسی کے دودھ سے پیغمبروں نے زندگی کا ذائقہ چکھا ہے۔
الغرض وجودِ ہستی اس صنف کے بغیر نامکمل ہے۔ بس ! ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچانے اور وہ راستہ اپنائے جس میں سراسر عافیت ہو۔
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکنون
6 پر “عورت رنگ ہے, خوشبو ہے, شعر ہے اور حسن بھی” جوابات
بہت عمدہ تحریر ہے
شکریہ مسز عزمی
وجود زن سے ہے تصویر کائنات کا رنگ ۔۔اسی کے ساز سے ہے زندگی کا ساز دروں
عمدہ کاوش ھے
بہترین کاوش
بہت عمدہ تحریر فروا حسن۔بہت مبارکباد