شبانہ ایاز
گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے کوئی قانونی راہ نہیں ہے
اسلامی اصول و ضوابط اور قانون پر عملداری نہ ہو تو عورت کہیں بھی محفوظ نہیں۔
عورت کہیں بھی محفوظ نہیں ۔۔۔۔۔۔ اپنے گھر میں بھی نہیں ۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ قبر میں بھی نہیں ۔۔۔۔۔
خاندان میں اگر وہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتی ہو جہاں چچا ، ماموں ، تایا ، پھوپھو ، خالہ وغیرہ کے بیٹوں کا آزادانہ گھروں میں آنا جانا ہو یا پھر مخلوط تعلیمی ادارے ہوں یا نوکری و کاروبار کی جگہیں۔۔۔۔ عورت کہیں بھی محفوظ نہیں۔کیونکہ عورت کمزور ہے اور کمزور جان سے پیدا کی گئی ہے ۔۔۔۔ اسے اگر کوئی تحفظ دے سکتا ہے تو وہ مرد ( باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹا ) ہے۔
جو اسلامی تعلیمات پر عمل کرتا ہو اور وہ معاشرہ جہاں اسلامی قوانین و اصول نافذ ہوں اور قانون کی عملداری ہو ، بصورت دیگر تو وہ ایک جنسی کھلونا ہے چاہے وہ تین سال کی بچی ہو یا ساٹھ سالہ عورت۔
اسی مسئلے کی بنیاد پر پچھلے چند برسوں سے 8 مارچ کو منایا جانے والا ‘ یوم خواتین’ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، عین اسی دن عورتوں کے حقوق پر زور و شور سے گرما گرم بحث کی جاتی ہے، ٹاک شوز ہوتے ہیں ۔ مظاہرے ، ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں اور خواتین اپنے حقوق کے لیے بھرپور آواز بلند کرتی ہیں اور انہیں آواز بلند کرنی بھی چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا پاکستانی معاشرہ قطعاً اسلامی معاشرہ نہیں ہے ۔ ہمارا معاشرہ ہندووانہ کلچر اور مغربی ذہنی غلامی کے تحت زندگی بسر کر رہا ہے۔ اسی لیے اس میں عورت محض مرد کی جاگیر سمجھی جاتی ہے یا ہوس پورا کرنے کا ذریعہ ۔۔۔
بلاشبہ پاکستان میں ایسے طبقات موجود ہیں جو لڑکیوں کی شادی قرآن پاک سے کر دیتے ہیں تاکہ جائیداد گھر میں ہی رہے۔ اسی طرح پسند کی شادی کرنے پر کاروکاری جیسا ظلم کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ان تمام رسومات کا اور ظلم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اور ایسے طبقات بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کو ایسی آزادی ملنی چاہیے جیسی آزادی مردوں کو حاصل ہے ۔ یہ طبقہ مرد کو عورت کا دشمن سمجھتا ہے۔
یہ دونوں طبقات افراط و تفریط کا شکار ہیں۔
حقوق لینے کی یہ جدوجہد اب جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب حقوق کی بجائے مردوں پر سبقت لے جانے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے ۔
اس سارے گھن چکر میں خاندانی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
مغربی معاشرے میں بالخصوص اور ہمارے معاشرے میں بالعموم اس حقوق کی جنگ کی وجہ سے خاندانی نظام شکست و ریخت کا شکار ہے۔ پاکستان میں موجودہ اعداد وشمار دیکھیں تو طلاق کی شرح میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے ۔ ماں باپ جب ایک فیملی کے طور پر سسٹم نہ چلا پا رہے ہوں تو ان کی نوجوان اولاد جرائم اور نشے کی طرف چلی جاتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال 2022 میں صرف لاہور میں طلاق و خلع کے ایک لاکھ سے زائد مقدمات درج ہوئے۔ اسی طرح ‘گیلپ اینڈ گیلانی پاکستان’ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق صرف پنجاب میں 2021 میں طلاق اور خلع کے ایک لاکھ مقدمات درج ہوئے ، 10 ہزار سے زائد خواتین کو خلع کی ڈگریاں جاری کی گئیں ۔ اس رجحان میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 100 سے زائد کیس فائل کیے جا رہے ہیں اور یہ کیس خواتین کی طرف سے فائل کئے جاتے ہیں۔
ترکی جیسے سیکولر ملک میں رہتے ہوئے میں نے عورتوں میں تحفظ اور آزادی محسوس کی۔ مغربی اور سیکولر معاشروں میں دیکھا جائے تو عورت کو کافی آزادیاں حاصل ہیں ۔ مغربی معاشرے میں خواتین اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکتی ہیں ۔ وہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر میرٹ کی بنیاد پر تعینات ہوتی ہیں۔ فیصلے خود کرنے میں آزاد ہوتی ہیں۔ وہاں مرد خواتین کو اپنا ماتحت نہیں کرتے ۔تاہم مغرب میں بھی عورت محفوظ نہیں ہے، اگر چہ اسے کافی حقوق حاصل ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران میں پچیس لوگ جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں جبکہ ہر پانچ میں سے ایک عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے ۔ امریکی فوجی اداروں میں بھی ہر سطح پر جنسی ہراسانی اور تشدد پایا جاتا ہے۔
2018 سے لے کر اب تک امریکی دفاعی اداروں کے حوالے سے شائع شدہ معلومات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ صرف امریکی فوج میں کام کرنے والی چالیس فیصد خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔
برطانیہ میں بھی 2018 میں جب نیشنل یونین آف اسٹوڈنٹس نے تعلیمی اداروں میں جنسی تشدد کا جائزہ لیا تو 41 فیصد طالبات نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا انکشاف کیا ۔
برطانوی یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسانی نہ صرف کم عمر بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے ساتھ بھی کی گئی۔ جائزہ کے مطابق 35 فیصد طالبات جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی تھیں ، نے اس بات کا اقرار کیا کہ ان کی مرضی کے خلاف عملے کے افراد نے ان سے جنسی تعلق قائم کیا۔
ادھر مشرقی معاشروں میں بھی خواتین کو ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنا معمول میں شامل ہے۔ سندھ کے پسماندہ علاقوں میں خواتین کو وڈیروں ، قبائلی سرداروں ، جاگیرداروں کے زیر اثر رہنا پڑتا ہے ۔ عورتوں کو ونی ، سٹا ، سوارا جیسی رسموں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بالکل جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے یعنی جو بنیادی انسانی حقوق ہیں ان سے بھی انہیں محروم رکھا جاتا ہے ۔
خواتین پر گھریلو تشدد پاکستان میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انتہائی معمولی بات پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر یہ تشدد اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس کا نتیجہ خاتون کی ہلاکت کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال گھریلو تشدد سے اندازاً پانچ ہزار خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں، ہزاروں شدید زخمی یا معذور کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے کوئی قانونی راہ نہیں ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے گھریلو تشدد کو جرم کے طور پر نہیں دیکھتے اور اس قسم کے کیسز کا اندراج بھی نہیں کیا جاتا ۔
2022 میں صرف کراچی میں ہی 513 خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔ 500 سے زائد خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا 3650 خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔
یہ اعداد و شمار کراچی کے تین بڑے ہسپتالوں کے میڈیکو لیگل آفیسر کی جانب سے دیے گئے ہیں۔ یہ تین ہسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال اور عباسی شہید ہسپتال ہیں۔
کراچی ہی میں سیلاب سے متاثرہ بچی کا اغوا اور گینگ ریپ کا واقعہ بھی شرمناک ہے ۔ اصل اعداد و شمار رپورٹ کردہ اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہیں جبکہ ان جرائم پر دی جانے والی سزاؤں کا تناسب صرف 11 فیصد ہے۔
پاکستان بھر میں 2022 میں خواتین کے خلاف 63 ہزار 367 جرائم رپورٹ ہوئے ۔
پنجاب پولیس کی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق یکم جنوری 2020 تا 30 اپریل 2020 کے دوران صرف پنجاب میں ریپ کے 1185 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ انہی مہینوں کے دوران گینگ ریپ کے 75 کیس الگ سے رجسٹرڈ ہوئے۔
2021 میں ایک رپورٹ کے مطابق 2275 بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جن میں سے 92 کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا ۔ گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیشتر قوانین بنائے گئے لیکن پھر بھی خواتین کے خلاف جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
ہماری خواتین کو غیرت کے نام پر قتل ، تیزاب پھینکنے ، ونی جسمانی ہراسگی ، زنا بالجبر ، گینگ ریپ ، حراستی تشدد اور اغوا سمیت متعدد جرائم کا سامنا ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم کی وجہ یہ ہے کہ قتل و زیادتی کرنے والے عدالتوں سے بہ آسانی چھوٹ جاتے ہیں جبکہ خواتین پر ہونے والے جرائم کا فیصلہ پنچایت یا جرگے میں کیا جاتا ہے جو عموماً مردوں کے حق میں ہی ہوتا ہے ۔ اسی طرح دیہاتوں ، گوٹھوں کے تھانوں میں وڈیروں جاگیرداروں اور خانوں کا راج ہوتا ہے۔ کوئی ایس ایچ او ان کی مرضی کے بغیر کام نہیں کرتا۔
خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے ان بااثر افراد کی پناہ حاصل کر لیتے ہیں ۔اکثر کیسز میں انہی با اثر افراد کی مجرم کو پشت پناہی حاصل ہوتی ہے لہذا پولیس ، عدالت اور قانون مظلوم کو انصاف دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
صرف اسی صورت میں شنوائی ہوتی ہے جب سوشل میڈیا یا میڈیا پر لوگ اپنا غم وغصہ ظاہر کرنے اور اسے نمایاں کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
جس اسلام کے ہم سب ماننے والے ہیں اسی نے عورت کو مرد سے زیادہ حقوق عطا کیے ہیں۔ ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ ہے اور جنت کو عورت کے قدموں تلے رکھا گیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کے حق میں ارشاد فرمایا تھا “عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو , تمہارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے” ۔
ہمارے ملک میں اسلام میں عورتوں کے لئے مقرر کردہ حقوق کو ہی قابل نفاذ بنادیا جائے تو خواتین کو اتنی زیادہ تحریکیں چلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
عورتوں کے حقوق کے حوالے سے تنگ نظر افراد / گروہ بھی ہیں اور ضرورت سے زیادہ روشن خیال بھی۔
بہتر ہوگا کہ درمیانی راستہ نکالا جائے جو کہ اسلام کے نظریہ کے مطابق ہو ۔ اسی کے ذریعے ویمن امپاورمنٹ ممکن ہے۔
آج حقوق نسواں اور عورت کی بیداری کی جو تحریکیں آپ دیکھ رہےہیں یہ سب اسی انقلاب کی بازگشت ہیں جو آج سے 14 سو سال پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو دے کر گئے تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ ، تعلیمی نظام ، والدین اور میڈیا مرد و خواتین کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں تاکہ سب اپنے اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوں اور اپنے حقوق و فرائض کو نبھائیں۔
ویمن پروٹیکشن کے حوالے سے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر مکمل عملدرآمد کروانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔
۔