بے گھر امریکی نوجوان

امریکا میں بے گھر افراد میں مسلسل اضافہ : کیسے گزارتے ہیں یہ زندگی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار

رات کے تقریبا دو بج چکے تھے اور بارش ہورہی تھی ۔ ایک خاتون آئی اس نے کچھ سامان خریدا اور کہنے لگی کہ میرا منگیتر ساتھ والے قصبے سے آرہا ہے ، وہ تقریبا آدھے پونے گھنٹے میں پہنچ جائے گا ، تب تک میں سٹور میں انتظار کرلوں؟

میں نے اجازت دے دی اور اسے دودھ والا ایک خالی کریٹ بھی دے دیا کہ اس پر بیٹھ جائے ۔ کافی بنا کر دی ۔ اس کا منگیتر تقریبا ساڑھے تین بجے آیا۔ وہ کافی شکر گزار تھا کہ رات کے اس پہر اس کی منگیتر کو سٹور میں رکنے دیا ورنہ باہر بارش اور غیرمحفوظ ماحول کی وجہ سے وہ پریشان رہتا۔

یہ ایک عام سی بات تھی کہ ایک عورت کو رات کو محفوظ جگہ پر رکنے کی اجازت دینا مگر وہ بندہ اور عورت بار بار شکریہ ادا کرتے رہے۔

رات گئی بات گئی ۔ کچھ عرصہ بعد ، شاید دو ماہ بعد وہی عورت اپنے منگیتر کے ساتھ صبح صبح آئی۔ ان کے پاس کپڑوں کے بیگ اور دیگر کچھ سامان بھی تھا۔ ہیلو ہائے کے بعد اس نے پوچھا کہ مجھے پہچانا؟ میں نے کہا: نہیں۔
اس نے یاد دلایا کہ ایک بارش والی رات تم نے مجھے سٹور میں رکنے دیا تھا ۔ مجھے یاد آگیا۔ میں نے حال احوال پوچھا اور ملازمت کا پوچھا کہ کیسی چل رہی تمہاری جاب؟

اس نے انکشاف کیا کہ وہ کئی دنوں سے بے گھر ہیں۔ میں چونک گیا کہ اس رات انہوں نے سو ڈالر سے زیادہ کے تو صرف چپس، سوڈا اور دیگر کچھ سامان خریدا تھا ، اس کا مطلب ہے کہ وہ مناسب زندگی گزار رہے تھے۔

اس نے بتایا کہ ہم کرایہ نہیں دے سکے تو مالک مکان نے گھر سے نکال دیا ہے ۔ ان کی حالت پر افسوس کے اظہار کے سوا میں کیا کرسکتا تھا۔

دسمبر دوہزار بائیس میں امریکی کانگریس میں بے گھر افراد کی تعداد پانچ لاکھ بیاسی ہزار سے کچھ زیادہ بتائی گئی ہے ۔ لوگوں کے بے گھر ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں بنیادی وجوہات نشے کے عادی ہونا ، ملازمت سے فارغ ہونا اور ذہنی صحت خراب ہونا ہے ۔ فوج میں خدمات دینے والے وہ فوجی جو جنگوں میں حصہ لینے کا اعزاز رکھتے ہیں وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں بے گھر ہیں۔

ہر ریاست میں بے گھر افراد کو رات گزارنے کے لیے شیلٹر بنے ہوئے ہیں۔ پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر شام کو یہ شیلٹر جلدی بھر جاتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو رات باہر گزارنی پڑتی ہے۔

ساری رات یہ گھوم پھر کا یا کسی پل کے نیچے رات گزارتے ہیں۔ ظاہر ہے پاپی پیٹ کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں تو چوری چکاری ، چھینا جھپٹی عام عادت ہوتی ہے۔

سردیوں میں رات گزارنا مشکل ہوتا ہے تو لامحالہ نشہ کر کے سردی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر کے لوگ اپنی معاشی سرگرمیوں کو متوازن نہ رکھنے کی وجہ سے بے گھر ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاندانی نظام کی بربادی کی وجہ سے جوان ہوتے لڑکے لڑکیاں بے گھر ہوجاتے ہیں۔

ملازمت نہ ہونا، ملازمت سے نکال دیا جانا، نشے کی لت لگنا اور بری صحبت میں رہنے کی وجہ سے ذہنی خرابی ہوجاتی ہے جس کے بعد گھر والے بھی خود گھر سے نکال دیتے ہیں۔

ان بے گھر افراد کے لیے شہروں میں ایسے مراکز ہوتے ہیں جہاں کھانا پینا، دوا دارو کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ مراکز عوام کے تعاون سے چلتے ہیں۔ لوگ خود ہی تازہ خوراک خرید کر ان مراکز میں پہنچا دیتے ہیں۔

روز روز طلاق، شادی کے معاہدے سے گریز اور ازدواجی زندگی میں خرابی کی وجہ سے مائیں خود بھی اپنے بچوں کو دور کردیتی ہیں یا گھر سے نکال دیتی ہیں۔

امریکہ کی امیر ریاستوں میں سے ایک کیلیفورنیا ہے جہاں جنوری دوہزار تئیس کے اعداد و شمار کے مطابق بارہ ہزار نوجوان بے گھر ہیں اور گیارہ ہزار کے قریب وہ فوجی جنہیں غازی ہونے کا اعزاز ہے ، بے گھر ہیں۔

نیویارک میں بانوے ( 92 ) ہزار کے قریب افراد بے گھر ہیں اور کیلیفورنیا میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہیں ۔ بے گھر ہونے والے افراد کی زیادہ تعداد پچیس سے پینتیس سال کے افراد پر مبنی ہے۔ ہر سال ہزاروں بچے بھی بے گھر ہوتے ہیں ۔

بےگھر افراد کی دو نمایاں اقسام ہیں، سرکاری یا نیم سرکاری شیلٹر میں رہنے والے بے گھر یا وہ جو کسی شیلٹر سے محروم ہیں ۔ ان میں سے وہ لوگ جو غازی ہیں وہ جنگ کے ہولناک ماحول سے ذہنی دباؤ اور پریشانی کا تحفہ ساتھ لاتے ہیں تو وہ عموما رات کو اگر سونے کی جگہ نہ ملے تو کسی عوامی جگہ یا کسی سٹور وغیرہ پر جا کر طبیعت خرابی کا بہانہ بنا کر ایمرجنسی کا ماحول بنا کے ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال چلے جاتے ہیں۔

ایسے بے گھر افراد اور غرباء کے لیے سرکاری اور نیم سرکاری مفت انشورنس ہوتی ہے جس سے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔

کنگسٹن ہسپتال میں ایک شعبہ نشے کے عادی افراد کی بحالی کے پروگرام کا تھا ، وہاں میں نے مسلسل دیکھا کہ بے گھر افراد نشے کی بحالی کے لیے آ کر ہفتہ دو وہاں گزارتے اور جب انھیں ڈسچارج کیا جاتا تو پانچ سات دن بعد وہ پھر واپس آ چکے ہوتے تھے۔

جو لوگ پہلے کوئی ملازمت کرتے تھے یا فوج سے آئے تھے تو انھیں پینشن اور دیگر امدادی الاؤنس ملتا ہے۔ اس میں سے تقریبا زیادہ تر وہ نشے پر لگادیتے ہیں۔ کھانا پینا کہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتا ہے اور شراب کا انتطام بھی ہوجاتا ہے مگر نشے کا انتظام کرنے کے لیے بہرحال پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بعض نیک دل افراد اگر کسی بے گھر خاندان کو دیکھیں تو بعض اوقات حسب توفیق انھیں ہفتے یا تین چار دن کے لیے ہوٹل میں کمرہ لے دیتے ہیں تاکہ وہ چند دن آرام سے سو سکیں۔ بعض لوگ بےگھر افراد کو نہلا دھلا کر ، صاف ستھرا کر کے کوشش کرتے ہیں کہ انھیں واپس معاشرے کا مفید فرد بنایا جائے۔

ایسا نہیں ہے کہ بے گھر افراد کو سدھارا نہیں جاسکتا ۔ بے گھر افراد میں کئی لوگ بہت ذہین اور سمجھدار بھی ہوتے ہیں بس وہ حالات کے مارے ہوتے ہیں۔

بے گھر افراد بڑے جرائم کم ہی کرتے ہیں جبکہ عموما لڑائی جھگڑا یا چھوٹی موٹی چوری وغیرہ کی وجہ سے سال میں پندرہ بیس بار ایک یا دو رات کے لیے گرفتار ہوتے ہیں۔

اگر بے گھر افراد کی دردناک زندگی کے کچھ مناظر خود دیکھنے ہوں تو یوٹیوب پر ایس بی سی نیوز چینل پر کچھ وڈیوز دیکھ سکتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں