عاصمہ شیرازی
گزشتہ رات ایک اور طیارہ کراچی اُترا ہے، اس طیارے میں پاکستان کے ایک نامور جنرل کی میت تھی، جنرل بھی وہ جس نے پاکستان کے آئین کو ایک بار نہیں دو بار توڑا تھا۔
ایسا جنرل جس پر تاریخ میں پہلی بار آرٹیکل چھ یعنی آئین توڑنے کی سزا غداری کا مقدمہ چلا اور پھر ایک ایسا جنرل جسے بچانے کے لیے ادارے نے اپنے تمام اختیارات کا بھرپور استعمال کیا۔ عدالت کا راستہ ہسپتال کی طرف اور قانون کا اختیار کی طرف موڑ دیا گیا اور یوں بظاہر جنرل مشرف جیت گئے اور آئین ہار گیا۔
ایک طیارہ 12 اکتوبر 1999 کو بھی کراچی کے ہوائی اڈے پر اُترا تھا مگر اُس طیارے میں سوار جنرل صاحب طاقتور تھے، با اختیار تھے اور سیاہ و سفید کے مالک بھی۔
اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کارگل جنگ کے بعد اپنے سپہ سالار کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ فیصلے کے اچھے بُرے ہونے پر تحفظات ہو سکتے ہیں تاہم وزیراعظم کے اختیار کے آئینی استعمال پر کوئی قدغن نہیں۔
وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ آرمی چیف کو لگائے یا ہٹائے ۔ کسی بھی مہذب ملک میں سپہ سالار منتخب وزیراعظم کے ایسے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرتا اور گھر کی راہ لیتا یا زیادہ سے زیادہ عدالت چلا جاتا مگر چونکہ مملکت پاکستان کا قاعدہ الگ ہے لہذا سپہ سالار نے وزیراعظم کو ہی ہٹا دیا، گھر میں محصور کیا، بندوق کی نوک پر استعفے کی کوشش کی اور پھر بکتر بند گاڑی میں ڈال کر جیل کی طرف روانہ کر دیا۔
ریاست آئین کے سُتون پر کھڑی ہوتی ہے اور آئین ریاست کے نظریے کی بُنیاد بنتا ہے۔ آئین قومی دانش کا وہ مینار ہے جو دور ساحلوں پر لائٹ ہاؤس کا کام دیتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہر دس سال کے بعد ہمارے لائٹ ہاؤس کا چراغ گُل کر دیا جاتا ہے اور مملکت اجتماعی دانش کی بجائے فرد واحد کی خواہش کی نذر ہو جاتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور آئین میں ایل ایف او کے ذریعے من مانی ترامیم کر کے تہتر کے متفقہ آئین کا حُلیہ بھی بگاڑ دیا جس کی سہولت کاری اُس وقت کی عدلیہ نے کی۔ آئین محض کاغذ کا ٹکڑا بنا اور ردی کی ٹوکری کی نذر ہوا۔ آئین کی میت تابوت کے حوالے ہوئی اور آرٹیکل چھ سپرد خاک۔
جنرل مشرف کے لگ بھگ نو سالہ دور اقتدار میں دہشت گردی کے خلاف جنگ دہشت گردوں کو کتنا دہشت زدہ کر سکی یہ تو نہیں معلوم البتہ عوام دہشت زدہ ضرور ہوئے۔
اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو دیے جانے والے سات نکات پر کیا عمل ہونا تھا عوام کے بنیادی حقوق آمریت کے شکنجے میں جکڑے گئے۔
کشمیر سے کراچی اور پھر بلوچستان سے خیبر تک اندرونی خلفشار نے زور پکڑا اور انتہا پسندی نے پنجے گاڑے۔ سوات اور مالاکنڈ جیسے سیٹلڈ علاقوں میں انتہا پسند طالبان نے قدم جمائے، میڈیا پر پابندیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں الگ۔۔۔ کاسمیٹک جمہوری لبادے میں ملبوس آمریت جلوے دکھاتی رہی۔
نواب اکبر بُگٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اسی دورِ پُر آشوب کی یادگار ہے۔ کراچی میں بے امنی نے سیاسی روپ دھارا اور بظاہر دہشت گردی کے خلاف معاونت کے لئے دھڑا دھڑ بہتے ڈالرز معیشت کے غبارے میں وقتی ہوا تو بھر پائے مگر پھر معیشت اپنے قدموں پر کبھی کھڑی نہ ہو پائی۔ گھر جاتے وقت جنرل صاحب نے بھی ملک کو خود اللہ کے حوالے ہی کیا۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب نواب اکبر بُگٹی کو ڈیرہ بُگٹی چھوڑ کر پہاڑوں پر جانا پڑا اور اگست دو ہزار چھ کی وہ رات بھی جب اُن پر حملے، قتل اور خفیہ تدفین کی خبر ڈرتے ڈرتے چینلز پر نشر ہوئی۔
بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی، دھماکے سے استقبال اور پھر شہادت اور اُس سے قبل دھمکیاں اب کوئی راز نہیں رہا۔
معاشی اور سیاسی مشکلات میں گھرے پاکستان میں جنرل مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو بہت کچھ ڈوب چکا تھا مگر تب بھی سیاست دانوں نے اجتماعی دانش اور سیاسی فکر سے آئین کے ذریعے ریاست کو بچایا۔ آج بھی چیلنجز ویسے ہی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اب آمریت نے فسطائیت کا روپ دھار لیا ہے۔
اقتدار اور طاقت کے کھیل میں خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھنے والے بھی قانون قدرت کا شکار ہوتے ہیں، خود کو ناقابل شکست تسلیم کرنے والے بھی زندگی کے سامنے ہار جاتے ہیں۔
کاش! طاقت کے بھی کچھ اصول طے پا جائیں کہ اقتدار کسی کا نہیں اور عروج زوال کے ساتھ ملزوم ہے۔ ( بشکریہ بی بی سی اردو )