فریحہ حسین
جمہوری معاشروں کی ترقی میں پارلیمان کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی جمہوری نظاموں میں پارلیمان کے ممبران نہ صرف اپنے حلقے کے مسائل کی کی بات کرتے ہیں بلکہ ملک کے لیے قانون سازی اور ریاستی پالیسی کو بنانے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان کی پارلیمانی بحثوں سے ملکی مسائل پر رائے عامہ بھی ہموار ہوتی ہے اور لوگوں کو بنیادی مسائل سے متعلق آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔ برطانوی پارلیمان اور امریکی کانگریس کے مثبت کردار نے ان کے معاشروں میں تعمیری سیاسی روایات کو پروان چڑھایا ہے۔
پاکستان میں پارلیمان کا کردار صرف وزیر اعظم اور وزراء اعلی کے انتخاب تک محدود نظر آتا ہے ۔ قانون سازی میں حصہ لینا ، انتظامیہ کی کارکردگی پر نظر رکھنا ، بجٹ کی پڑتال کرنا ، ریاستی پالیسی سازی اور پارلیمانی بحث جیسی بنیادی ذمہ داریوں کی بجائے پاکستانی پارلیمان کے ممبران کی توجہ غیر متعلقہ تقاریر پر مرکوز رہتی ہے ۔ وہ اہم بلوں کی رائے شماری کے دوران میں غیر حاضر رہتے ہیں ۔ اس صورت حال میں اپوزیشن کے مثبت اور تعمیری کردار پر کیا بحث کی جائے حالانکہ اپوزیشن کا کردار پارلیمانی سیاست کا بنیادی جزو ہے۔
ہر جمہوری ملک کی مجلس قانون ساز میں مختلف سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جن میں سے ایک یا ایک سے زیادہ جماعتیں آپس میں مل کے حکومت قائم کر لیتی ہیں۔ باقی جو جماعتیں مجلس قانون ساز میں رہ جاتی ہیں انہیں قدرتی طور پر برسر اقتدار جماعت سے اصولی اختلاف ہوتے ہیں جن کی بنا پر وہ بالعموم حکومت وقت کی پالیسیوں پر معترض رہتی ہیں ۔ ایسی جماعتوں کو حزب اختلاف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مغربی جمہوری معاشروں میں پارلیمان کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کا بھی بہت مثبت کردار نظر آتا ہے ۔ پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سینئر وزیر کے برابر ہوتی ہے۔ حزب اختلاف حکومتی بلوں کی جانچ کرتی ہے ، ان پر بحث کرتی ہے ، بل کی کمزوریوں کو واضح کرتی ہے ، حکومت کو عوام کے سامنے جواب دہ بناتی ہے اور حکومتی پالیسیوں پر تنقیدی جائزہ پیش کرکے عوام کو آگاہی مہیا کرتی ہے ۔ شیڈو کیبنٹ کی موجودگی بھی حزب اختلاف کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ بوقت ضرورت عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے حکومت بھی سنبھال سکتی ہے ۔
معاشرے کے عمومی مفاد کے لئے حکومت اور حزب اختلاف کا ازخود اپنا اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ درحقیقت اچھی حکمرانی کا تصور مضبوط اور منظم حزب اختلاف کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ اگر حزب اختلاف مضبوط اور منظم ہوگی تو حکومت کی سمت بھی کسی حد تک درست رہے گی ۔
برطانوی سیاست میں حزب مخالف کو بھی اتنا ہی ذمے دار جماعت خیال کیا جاتا ہے جتنا برسر اقتدار جماعت کو ۔تاہم افسوس کہ پاکستان میں حزب اختلاف کا کردار صرف احتجاج ، واک آوٹ ، اسمبلی میں کاغذات پھاڑنے اور پارلیمانی ساتھیوں پر چیخنے چلانے تک محدود ہوتا ہے ۔ جہاں لوگ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے مایوس ہیں ، وہیں وہ حزب اختلاف کی جماعتوں سے بھی نالاں ہیں ۔ ہماری پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن میں ملکی مسائل کے حوالے سے سنجیدگی کم ہی دیکھنے کو ملی ہے ۔ یہ بات موجودہ حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ پاکستانی پارلیمانی تاریخ کی تمام اپوزیشن جماعتوں پر صادق آتی ہے۔
2008 اور 2013 کے انتخابات کے بعد فرینڈلی اپوزیشن کی سیاست کو تقویت ملی مگر مفاہمت پر قائم کچھ لو اور کچھ دو کی پا لیسی بھی کسی منڈیر چڑھتی نظر نہ آئی۔ ن لیگ کی 2008 کے انتخابات کے بعد اور 2013 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی بحیثیت حزب اختلاف کارکردگی پر کوئی مثبت رائے نہیں دی جا سکتی۔ اس دور میں تحریک انصاف کا کرپشن کا بیانیہ مقبول رہا مگر یہ بیانیہ بھی مجموعی طور پارلیمانی سیاست میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کا سبب نہ بن سکا۔
11 اپریل 2022 کو شہباز شریف کے نئے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد تحریک انصاف نے حزب اختلاف کے طور پر امریکی سازش اور نیوٹرلز کا نعرہ بلند کیا اور پارلیمان سے استعفوں کا اعلان کرتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ استعفے دینے کا ایسا ہی اعلان 2014 میں بھی تحریک انصاف کر چکی ہے مگر سات ماہ سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد اسے عقل آگئی کہ پارلیمان کے فیصلے پارلیمان ہی میں کیے جائیں اور وہ قومی اسمبلی میں لوٹ آئی۔ مگر اس بار پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑنے اور قومی اسمبلی سے ان کے استعفوں کی منظوری کے بعد تحریک انصاف نے پی ڈی ایم حکومت کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے دیا ہے۔
اس وقت پاکستان کی پارلیمان میں حکومتی من مانیوں کو چیلنج کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں سوائے ان چند لوگوں کے جنہوں نے عمران خان کے کہنے پر استعفے دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ اتنے کارڈ کھیلنے کے بعد بھی تحریک انصاف کے پاس عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے اور سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔ تمام قانونی آپشن بھی تحریک انصاف اپنے ہاتھ سے گنوا چکی ہے۔
سیاسی طور پر بالغ معاشروں میں تعمیری کردار کے ذریعے حزب اختلاف حکومتی پالیسیوں پر معترض ہو کر اس کی جائزیت پر سوال اٹھاتی ہے مگر ہمارے یہاں حزب اختلاف امید کا مرکز بننے کی بجائے سیاسی گٹھ جوڑ میں مصروف رہتی ہے ۔ گزشتہ چند ماہ میں حزب اختلاف کا سارا زور مسند اقتدار میں آنے کے لیے رہا نہ کہ حکومت کو اس کی عوام دشمن پالیسیوں پر جواب دہ بنانے کے لیے۔
ترقی یافتہ ممالک میں حزب اختلاف عوامی مسائل کے لئے آواز کو بلند سے بلند تر کرتی ہے۔ مگر مقام افسوس ہے پاکستان میں جو فکری اور اخلاقی بحران ہمیں حکومت میں دیکھنے کو ملتا ہے وہی فکری اور اخلاقی بحران حزب اختلاف میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
مہنگائی ، آئی ایم ایف کی سخت شرائط ، پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ، قانون سازی کے معاملات ، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے امور، سرکاری اور ریاستی اداروں کی نج کاری اور گردشی قرضوں جیسے بہت سے ایشوز ہیں جہاں حکومت ناکام نظر آ رہی ہے۔ عمران خان ایک جاندار اپوزیشن کا کردار ادا کر کے پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں ایک نیا موڑ لا سکتے تھے۔
حزب اختلاف ان تمام مسائل کو آن بورڈ لینے کی بجائے سوشل میڈیا اور بیان بازی تک محدود ہے ۔ پاکستان پپپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی فرینڈلی اپوزیشن کی مفاہمتی پالیسی سے لے کر تحریک انصاف کی ” نو اپوزیشن ” کی پالیسی تک ، ملک شدید بحران سے دوچار ہوا ۔ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن مفاہمت کرلیں اور دونوں ایک دوسرے کے سیاسی مفادات ہی کا تحفظ کریں اور عوام جائیں بھاڑ میں۔ اور عمران خان کی طرح پارلیمان خالی کردینا بھی ایک طرح سے حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ اس میں بھی نقصان عوام ہی کا ہوتا ہے۔ حکومت بلا روک ٹوک مشکل فیصلوں کے عنوان سے عوام دشمن پالیسیاں نافذ کرتی رہتی ہے، اسے کوئی روکنے والا نہیں ہوتا ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
سیاسی جماعتوں کو اب سوچنا ہو گا کہ محض احتجاجی سیاست سے پارلیمانی سیاست میں حزب اختلاف کے کردار کو نوشتہ دیوار بننے سے نہیں روکا جا سکتا۔