نبیلہ شہزاد
5 فروری کا دن کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دن منانے کا سلسلہ گزشتہ 32 سال سے بلا تعطل جاری ہے ۔ اس کا آغاز پانچ فروری 1990ء کو یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے ہوا ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پانچ فروری کا جو دن ہم مناتے ہیں اس کا مقصد کیا ہے؟ اور تاریخ میں اس کی اہمیت کیا ہے؟ نظیر اکبر آبادی کا شعر ہے کہ
مضمون سردمہری جاناں رقم کروں
گر ہاتھ آئے کاغذ کشمیر کا ورق
لا الہ کی بنیاد پر پاکستانیوں کے دلوں سے جڑے کشمیری مسلمان ، بھارتی ہندو کے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے سالوں پہ سال بیت رہے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں نے آزادی کشمیر اور اپنے حق خودارادیت کے حصول کے لیے لاتعداد قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔
کشمیر، تیرا حسن ہوا درد کی تصویر
آنسو ہے تیری آنکھ میں ، پیروں میں ہے زنجیر
ریاست جموں و کشمیر کا کل رقبہ 84000 مربع میل ہے جس کے 70 فیصد پر انڈیا 1947ء سے قابض ہے جبکہ باقی تیس فیصد کا علاقہ ریاست آزاد کشمیر ہے۔
1846ء میں انگریز نے اپنی مکاری سے کام لیتے ہوئے کشمیر کو غدار ڈوگرہ راجہ کو اس وقت کے 75 ہزار کے عوض بیچ دیا تھا۔ تقسیم ہند میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان کے ساتھ اور ہندو اکثریت والے علاقے ہندوستان سے ملحق ہوں گے مگر 26 اکتوبر 1947ء کو اس وقت کے کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی رائے، جموں و کشمیر اور معاہدہ تقسیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا اعلان کر دیا۔
یہ فیصلہ کشمیری مسلمانوں نے قبول نہ کیا اور وہ اس فیصلے کے خلاف سیخ پا ہو گئے کیونکہ وہ بھی برصغیر کے دوسرے مسلمانوں کی طرح شروع سے ہی کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا رہے تھے ۔ کشمیری مسلمانوں نے بھی قیام پاکستان کے لیے ایسی بے شمار قربانیاں دیں جو تاریخ میں سنہری حروف کے ساتھ رقم ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کا راجہ کے اس ظلم کے خلاف غصہ بڑھتا گیا حتی کہ انہوں نے راجہ کے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کر دی اور اپنی آزادی کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کو پکارا۔
دوسری طرف بھارت نے بھی اپنی فوج کشمیر میں داخل کر دی۔ پاکستانی قبائلی مجاہدین ، دوسرے مجاہدین اور فوج، کشمیریوں کی مدد کے لیے پہنچ گئی۔ اس طرح قیام پاکستان کے تھوڑے عرصہ بعد ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ گئی جو اکتوبر 1947ء سے جنوری 1949ء تک لڑی گئی۔ اس جنگ میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔
پاکستانی مجاہدین ، پاکستانی فوج اور کشمیریوں کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجہ میں ریاست آزاد کشمیر کا قیام عمل میں آیا جو کہ پورے کشمیر کا صرف 30 فیصد علاقہ ہے ۔ اب یہ ایک آزاد ریاست ہے اس کا دارالحکومت مظفرآباد ہے۔ اس کی اپنی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہے۔ اس کا اپنا علیحدہ صدر اور وزیراعظم ہے۔
جب بھارت نے دیکھا کہ کشمیر میں چھڑنے والی اس جنگ میں کشمیر کے علاقے ہمارے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ اسلام کے نام لیوا سر فروشوں کا جذبہ جہاد دن بدن پروان چڑھ رہا ہے۔ اگر اسی طرح رہا تو یہ نہ صرف سارا کشمیر آزاد کروا لیں گے بلکہ بھارت بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے ، تب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو جنگ بندی کروانے کے لیے سلامتی کونسل جا پہنچا اور جنگ بندی کے لیے ان کی منت سماجت کی۔
1948ء میں،بھارت کے عالمی سطح پر واویلا کرنے پر اقوام متحدہ نے جنگ بندی اس وعدے پر کروائی کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کروائی جائے گی تا کہ کشمیری عوام کو موقع دیا جائے۔ وہ فیصلہ کرلیں کہ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ؟ مگر افسوس یہ کفار کا پٹھو ادارہ ستر سال گزرنے کے باوجود اپنے اس وعدے پر بھارت سے عمل درآمد نہیں کروا سکا۔ بلکہ اب تو بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور کشمیریوں پر ظلم و ستم میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ دنیا کا طویل ترین لاک ڈاؤن بھی کشمیریوں پر مسلط کیا گیا ہے۔
وہاں کوئی مسلمان خاندان ایسا نہیں ہے جس نے آزادی کے لیے اپنے جوان بچے کا خون نہیں بہایا ۔ وہ صرف اپنی جانوں کی قربانیاں ہی نہیں دے رہے بلکہ بھارتی درندے ان کی عصمتوں پر ڈاکے بھی ڈال رہے ہیں۔ عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ مائیں کبھی تو اپنے جوان جگر گوشوں کے لاپتہ ہونے پر غم سے نڈھال ہو جاتی ہیں اور کبھی ان کی شہادتوں پر صبر کے تمغے سینوں پر سجا لیتی ہیں۔
کشمیر کی حالت زار ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن عالمی امن اداروں میں بیٹھے انسان نما جانور گونگے، اندھے، بہرے اور بے حسی کا نمونہ بن چکے ہیں۔
5 فروری کا دن پوری دنیا میں یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھارت پر دباؤ ڈال کر کشمیریوں کو ان کا حق رائے شماری دیں لیکن دنیا یہ بات بھی جانتی ہے کہ اب تک بھارت کے ظلم و جبر کے سخت پہرے کے باوجود کشمیری ایک ہی نعرہ لگارہے ہیں "کشمیر بنے گا پاکستان” تیرا میرا رشتہ کیا٫ لا الہ الا اللہ۔ اور اسی نعرہ پر ہی عمل پیرا ہیں۔
کشمیر کے شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں دفن کیا جاتا ہے ۔ پانچ فروری کو کشمیری ، بھارتی اجارہ داری کے باوجود اپنی ہر عمارت پر پاکستانی پرچم لہراتے ہیں ۔ بھارت اور سلامتی کونسل کی وعدہ خلافی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
کشمیر کے معاملات و حالات سب کے سامنے ہونے کے باوجود ، دکھ اس امر کا ہے کہ کفار تو اپنی اسلام دشمنی نکال رہے ہیں لیکن مسلم حکمران بھی کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہے ۔ چند ایک مسلم حکمران کے علاوہ کشمیر کے معاملے میں سب منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے سوائے تھوڑی بہت صرف کاغذات تک محدود رسمی کارروائی کے علاوہ کیا ہی کیا ہے؟ جو وہ بھی اب نہیں رہی۔ مذاکرات کی زبان بھارت نہیں مانتا اور کبھی بھی کشمیر کو طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کرے گا۔ مسلمان جسد واحد ہیں۔ اگر کشمیری غم، دکھ و تکلیف میں ہیں تو ہم کیسے سکون سے بیٹھ سکتے ہیں؟
کشمیر تو جغرافیائی اعتبار سے بھی ہمارے پاکستان کا حصہ ہے اور یہی کشمیریوں کی اپنی خواہش بھی۔ لہذا مختصر یہ کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل یہی نظر آتا ہے کہ پاکستانی فوج اور مجاہدین 1948ء والی تاریخ دوہرائیں۔ لیکن یاد رکھا جائے اس بار سلامتی کونسل کے جھانسے میں نہ آیا جائے۔ اب اظہار یکجہتی کشمیر منانے کی بجائے آزادی کشمیر منانے کا عزم پیدا کیا جائے۔ ان شاءاللہ۔