نگہت سلطانہ
آج میرے دیس کے کچھ لوگ رات کو نیند کی گولی کھائے بغیر سو جاتے ہیں تو بالیقین وہ وہی ہیں جو1۔ ایمان و کردار میں پختہ ویکسو ہیں _ یا 2۔ احساس سے بالکل عاری ہیں، من موجی ، مجذوب ، مست مست یا 3۔ ان کا دل ، دماغ اور آنکھیں اس قدر کمزور ہیں یا کر دی گئی ہیں کہ وہ باوجود دیکھنے اور باوجود جاننے کے، دیکھنا نہیں چاہتے جاننا نہیں چاہتے۔ باقی جو ہیں پریشان ہیں ، بد دل ہیں یا مایوس ہیں۔
دوسری طرف خواہشات اور خوش امیدیوں کا کنٹینر ہے جس پر کبھی ایک puppit سوار ہوتا ہے کبھی دوسرا، کنٹینر کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور جو puppit ہیں انہیں بس کرسی چاہیے ۔ یہ پتلی تماشہ اس ملک میں جاری ہے۔ جس کی شہ رگ دشمن کے قبضہ میں ہے معاشی پالیسی دشمن کے قبضہ میں ہے دفاعی پالیسی اور جوہری ترقی کی شاہراہ بھی اپنے پاس نہیں۔ محمد علی جناح کے فرمودات کو محض ایک دکھاوے کی مقدس چیز بنا کر رکھ دیا گیا ہے ، سال بھر میں دو تین دن ایسے ہیں جب ٹی وی کی سکرین پر یہ فرمودات ابھرتے ہیں اور پھر غائب کر کر دیے جاتے ہیں __
محمد علی جناح نے کہا تھا ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی بھی قوم اپنی شہ رگ دشمن کے قبضہ میں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔“
ہماری شہ رگ کو دشمن کے قبضہ میں دینے کے مجرمین مہاراجہ ہری سنگھ، لارڈ ماؤنٹ بیٹن، مسٹر ریڈ کلف، نہرو کس کس کی ہم قبر کھودیں اور پوچھیں کہ کیوں تم نے وہ گھٹیا سازش رچائی کہ جس کے باعث آج بھی مقبوضہ وادی کے اندر
• لاک ڈاؤن
• انسانی جان کی بےحرمتی
• انڈین آرمی کا مسلمانوں کو تنگ کرنا
• صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی
• خواتین اور بچوں کی حالت زار
• نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ اورٹارچر سیلوں کے اندر بہیمانہ رویہ
• انٹرنیٹ کی بندش کے ذریعہ کمیونیکیشن کے گوناگوں مسائل
یہ تکلیف دہ مسائل ہیں۔
چشم فلک حیرت سے انگشت بدنداں ہے کی اس قوم کے لیڈرز ، سیاستدان ، بیوروکریسی ، ان دیکھا ہاتھ، ایسٹبلشمنٹ، صحافی ، ادیب ، شعراء ، میڈیاپرسنز ، علمائے کرام ، منبر ومسجد کے مالکان کیسے سکھ کا سانس لے سکتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کیا چھوڑ کر جانے والے ہیں کہ شہ رگ دشمن کے قبضہ میں ہے اور یہ چین کی بنسری بجاتے ہیں، یہ قوم کو دیگر مسائل میں الجھاتے ہیں ، قوم کو طفل تسلیاں دے کر میٹھی راگنی سناتے ہیں اور سلا دیتے ہیں۔
بعض ادارے جو پورے نظام کے اندر روح رواں کا کردار ادا کرتے ہیں ، انتخابات کے نتائج تک ان کی مرضی کے بغیر نہیں فائنل ہوتے ۔ ہم حیران ہیں وہ ادارے ، ان کے اندر بیٹھے افراد کیا سوچتے ہیں اپنی آنے والی نسلوں کے بارے؟ کیا ان کی آنے والی نسلوں کو، ایک ایک بچے کو امریکہ ، انگلینڈ ، کینیڈا والے ”زندگی“ کی گارنٹی دے دیں گے؟؟
شدید حیرت ہے خواہشات سے سجے کنٹینر پر بیٹھے پرانے اور نئے puppits کی بےحمیتی پر۔ کس دیدہ دلیری سے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ کس قدر بےحس ہیں یہ لوگ کہ ہر ادارے کو لوٹ ڈالا ، ہر صنعت کو برباد کر ڈالا پھر بھی عوام کے ”پیارے“ ہیں۔ خواہشات اور لولی پاپس کے ایک ذخیرہ سے سجے کنٹینر پر بیٹھنے والے نئے چہرے بھی کس قدر بے شرم ہیں کہ اپنے پیروؤں کی پالیسیوں کو ہی لے کر چلنا چاہتے ہیں مگر نعرہ تبدیلی کا لگاتے ہیں۔
بات قبروں کے اندر قدرت کے ہاتھوں اپنے انجام سے دوچار مردوں کی ہو یا تاریخ کی ہو یا کنٹینر کی۔ پاکستان سے محبت کرنے والے طالب علم یہ سوال کرتے ہیں کہ شہ رگ دشمن کے قبضہ میں رہے تو آخر ہماری قومی زندگی کی گارنٹی کیا ہے؟
ہمارا جواب ہر طالب علم کے لئے اور ہر جوان کے لئے یہ ہے کہ
قوموں کی پہچان ان کی جدا گانہ نظریہ سے ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ ہر قوم کی تاریخ ہوتی ہے۔ ہر قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی تاریخ کا ہر باب پڑھے ، تجزیہ کرے ، روشنی لے ، سبق لے ، اصول وضع کر کے اپنی شاہراہ زندگی پر اپنی رفتار تیز کرے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہماری تاریخ غار حرا میں نور کی پہلی کرن پھوٹنے سے شروع ہوتی ہے۔ راجہ داہر جیسے ظالم کا محمد بن قاسم کے ہاتھوں ہلاک ہونا ہمارے اس خطے کی تاریخ کا انتہائی روشن باب اور حرف آغاز ہے ۔ پھر جوں جوں ہم آگے بڑھے قوم کی ذہن سازی نظری تربیت میں خلل بھی آیا اور میرجعفر و میرصادق بھی ہماری تاریخ کے کچھ ابواب کو سیاہ کرنے کی خاطر پیدا ہوئے ۔
پھر ہم نے بحیثیت قوم جب اپنا محاسبہ نہیں کیا۔ اپنی تشکیل و تعمیرِ نو کی بنیاد میں ایمان و نظریہ کو نہیں شامل کیا. بنیادی اصول فراموش کر دیے تو کیا ہوا۔ نہرو، ریڈ کلف اور ماؤنٹ بیٹن ہمارے ساتھ بہت بڑا کھیل کھیل گئے۔ بعد میں بھی ہمیں دھوکے دیے گئے مگر وطن عزیز کی بنیاد میں کلمہ طیبہ تھی شاید اس کی برکت تھی کہ قدرت نے ہمیں بار بار سنبھلنے کا موقع دیا۔ سنبھلنا تو خود تھا نا سبق تو خود لینا تھا حوادث و سانحات سے۔
اور پھر انڈیا نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا کہ جس کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ انڈیا کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جائیں۔ سکھوں کو انسان دوست ثابت کیا جائے۔ بلا شبہ راقم کو بھی ”دوستی“ ”محبت“ ”امن“ کے الفاظ میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے مگر ہم زمینی حقائق کو کیسے ٹھکرا سکتے ہیں ؟
ایک فرد یا طبقہ زبان سے آپ کے ساتھ دوستی کے دعوے کرے ، محبت کے نغمے گائے ، امن معاہدے کرے مگر آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔ آپ کے ملک کی بنیادوں میں اس نے خون آشام لاشوں کے ڈھیر بھر رکھے ہوں تو بتائیے کیا کریں گے آپ ؟ آپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ
ء ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
قصہ مختصر ہم چونکہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی( اللہ کی واحدانیت و حاکمیت ) پر یقین رکھتے ہیں لہذا دنیا بھر کے ظالم ، منافق ، بد طنیت ، استعماریت کے علمبردار ، ہندوتوا کے علمبردار ہمارے مخالف ہیں۔ مان جائیے یہ سب آپ سے ہزار معاہدے امن کے کریں گے ، سینکڑوں دعوے محبت کے ، بےشمار معاملات تجارت کے باندھیں گے مگر سب میں اپنا مفاد مقدم رکھیں گے۔ آپ کے بد خواہ ہی ہوں گے خیر خواہ ثابت نہیں ہوں گے ۔ کیا ہمارا میڈیا اور بی بی سی اور سی این این اور وائس آف امریکہ اندھے ہیں، جاہل ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ 27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے کشمیر میں فوجیں اتاریں تھیں اور آج تک کشمیری عوام اس فوج کے ظلم کا شکار ہیں ہر سات کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔
کیا ہمارے مقامی اور عالمی مبصرین نہیں جانتے کہ امریکہ دنیا میں کہیں بھی دو پڑوسی ممالک کو آپس میں خوش گوار تعلقات کی زنجیر میں بندھنے نہیں دینا چاہتا، اور یہ کہ امریکہ کو بس اپنے اسلحہ کے ڈیلر چاہئیں اور یہ کہ جہاں معاملہ ہو مسلمانوں سے غیر مسلموں کی آزادی کا وہاں امریکہ بہادر کس قدر پھر تیلے بن جاتے ہیں مشرقی تیمور کی مثال آپ کے سامنے نہیں کیا؟ اور جہاں معاملہ ہو غیر مسلموں کے ظلم سے مسلمانوں کی نجات کا وہاں امریکہ اس غیر مسلم کی خوب امداد کرے گا۔ یہی معاملہ ہے کشمیر میں۔
اور پھر یہ بھی کہ امریکہ ہمارے خطے میں بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے۔
اس ساری بحث کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ پھر
حل کیا ہو؟؟؟
کچھ مبصرین اور ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میں قدیم سنسکرت کے دور کے شانتی اور سیوا کے امن کے نظریات اور اسلام میں صوفیانہ سوچ کا نظریہ "صلح کل” _ ان دونوں کو عمل میں ڈھالا جائے۔ قطع نظر اس سے کہ اس نام نہاد صوفی ازم کا تعلق اسلام سے ہے بھی کہ نہیں۔
ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ سب بھی ہمارے حکمران، ہمارے آرٹسٹ، ہمارے صنعتی سٹیک ہولڈرز کر چکے ہیں اور نتیجہ ؟؟ 75 سال سے بھارتی فوج کے ہاتھوں نہتے کشمیری ظلم سہہ ہی رہے تھے، مودی سرکار نے 5 اگست 2019 کو اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور 35’اے کو ختم کر کے کشمیر میں آبادی کے تناسب کو اپنی منشاء کے مطابق ڈھالنے کی سازش کا آغاز کر دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اس کے خلاف آواز اٹھائی مگر حقیقت یہ ہے کہ جب آپ نظریہ اور روٹی دال بھی دنیا سے مانگ مانگ کر گزارہ کر رہے ہیں تو کون آپ کی صدا سنے گا کون آپ کو وقعت دے گا
لہذا یہی ہوا ستمبر 2019ء میں جنرل اسمبلی میں عمران خان کی گرج برس ( گزشتہ حکمرانوں کی طرح ) اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بنی اور ستمبر 2019ء ہی سے بھارت مسلسل جبر کی داستانیں رقم کر رہا ہے وادی میں۔ حریت رہنماؤں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور دیگر سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں، مظاہرین پر فائرنگ، نوجوانوں کی شہادت، محاصرہ کے دوران نہتے کشمیریوں کا قتل، خواتین کی عصمت دری ،یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔
آپ سال میں ایک دو بار ٹی۔وی پہ کشمیر بارے ڈرامے دکھا دیں یہ بھی مسئلہ کا حل نہیں۔ حل کیا ہے ؟؟ اکتوبر 1947ء میں ہماری فوج جو تنظیم، اسلحہ، عالمی حمایت سب کچھ سے تہی دامن تھی، نے مردانِ کوہستان کے ہمراہ کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کرا لیا تھا کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے
__ بھینس کے آگے قیامت تک بین بجاتے رہیں اس عقل کی موٹی کے پلے کیا پڑے گا ؟
آج پاک آرمی دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔
اب تو عام آدمی یہ پوچھتا ہے
ہماری فوج انڈیا سے کشمیر نہیں لے سکتی اس کے وجود کا آخر جواز کیا ہے؟
شانتی اور سیوا اور امن امن کی راگنی اور مذاکرات کے ڈھکوسلے اور دنیا سے کٹے ہوئے صوفیوں اور گوشہ نشینوں نے آج تک مسائل و حالات کو حل کیا ہے نہ کر پائیں گے۔
یہ چوں چوں کا مربہ وقت گزاری کی حد تک تو ٹھیک ہے تاہم مسئلہ کشمیر کا حل ہمیں اسی رہنما کتاب سے ملے گا جو آئین پاکستان کا حرف آغاز بھی ہے ۔ اسی کتاب کو رہنما بنا لینے سے کھویا ہوا وقار بحال ہو سکتا ہے۔ چھینے ہوئے علاقے واپس مل سکتے ہیں۔ عملی طور پر 1947ء کے مجاہدینِ آزادی کی اداؤں کو اپنانا ہوگا۔
میڈیا قوم کی سوچ بنانے میں اہم کردار اداکرتاہے۔ میڈیا مالکان سے درخواست ہے کہ ملک کی کشمیرپالیسی کے حق میں ساراسال فضا بنائی جائے ۔ 5فروری توخاص طورپہ ایک تاریخ طے کی گئی کہ جس میں مسلہ کشمیر کو خصوصیت کے ساتھ اجاگرکیاجائے۔
عام آدمی سے ہماری اپیل ہے کہ فکرمعاش زندگی کا مقصد نہیں ہوتا۔وطن ‘ ملت ‘ قومی مقاصد بھی تو زندگی کاحقیقی اثاثہ ہیں۔۔۔
کاش کہ عوام و خواص ہوش کے ناخن لیں اور دنیامیں وقار و اعتمادکے ساتھ جینے کا گر پالیں۔۔۔۔
تو بعید نہیں کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کے نقشے میں شامل ہوجائے ۔