سمیرا انور
امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق فاسٹ فوڈ کا زیادہ استعمال بچوں کی ذہنی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق فاسٹ فاسٹ فوڈ میں آئرن کی کمی کے باعث دماغ کے مخصوص حصوں کی نشوونما سست پڑ جاتی ہے جس سے بچے تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ میں شامل ٹرانس فیٹ سے امراض قلب، دماغی انتشار، ذیابیطس ، کینسر اور مٹاپے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے یونیسف نے غذا اور غذائیت کے عنوان سے اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیاہے کہ غیر صحت مندانہ غذاؤں اور کھانے کی عادات کے سبب ایک تشویشناک تعداد میں بچے بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے 5سال سے کم عمر بچوں میں سے ہر 3میں سے کم از کم ایک بچہ یعنی20کروڑ بچوں کی صحیح نشوونما نہیں ہو رہی ہے یا وہ مطلوبہ وزن سے زیادہ ہیں۔ وہ وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔
اسی طرح6ماہ تا 2 سال عمر کے 3 میں سے 2بچوں کو وہ مقوی غذائیں نہیں مل رہی ہیں جو جسم اور دماغ کی تیزی سے نشوونما کرتی ہیں ۔ فوری دستیابی اور کم قیمت ہونا فاسٹ فوڈ کو لوگوں میں مقبول بناتا ہے مگر طویل المعیاد بنیادوں پر بھاری قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔ بازار ، گلیاں اور مارکیٹ میں جگہ جگہ فاسٹ فوڈ کے پوائنٹس بنے ہیں۔بچے ، بزرگ سبھی جمگھٹا بنائے انھی کے اردگرد نظر آتے ہیں۔
آئیے ! جانتے ہیں کہ فاسٹ فوڈ انسانی صحت کے لیے کیوں اور کیسے نقصان دہ ہے ؟ برگرز ، فرنچ فرائیز اور دیگر میں چکنائی ، کیلوریز اور کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بہت تیزی سے جسمانی وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے بچوں میں کمزور دماغی حالت، کمزور تعلیم رجحان، کمزور مدافعت اور متعدی بیماریوں کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
ٹورنٹو یونیورسٹی کے ایک تحقیقی جریدے کے مطابق فاسٹ فوڈ کے لئے استعمال ہونے والے کھانوں میں ایک خاص قسم کا کیمیکل استعمال ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہوتا ہے اور یہ کیمیکل انسانی خون میں آسانی سے منتقل ہو کر مختلف بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے ۔
فاسٹ فوڈ نہ صرف کھانے کو ہضم کرنے بلکہ چڑچڑا پن آنتوں والے سنڈروم کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ہضم کے دیگر مسائل کا باعث بن سکتے ہیں جن میں تیزابیت ، گیس ، اپھارا وغیره شامل ہیں۔ یہ اشیاء کھانے کی وجہ سے ہمارے پیٹ میں سوڈیم کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے جو پیٹ میں پانی کی مقدار کو برقرار رکھنے کی وجہ بنتا ہے جس کی وجہ سے آپ اپنے پیٹ کو پھولا ہوا محساس کرتے ہیں۔
فاسٹ فوڈ تیز مرچوں والا ہو تو ہمارے جگر کے لیے نہایت خطرناک اور زہریلا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں چربی ، چکنائی اور شوگر زیادہ ہوتا ہے۔ چربی زیادہ کھائی جائے تو وہ جگر میں اکھٹا ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں غیر الکحل فیٹی جگر کی بیماری میں اضافہ کرتے ہیں۔
تلی ہوئی اور پروسیسڈ کھانا کھانے کی وجہ سے چہرے پر مختلف طرح کے مسائل پیش آتے ہیں جیسے کہ کیل مہاسے جھائیاں وغیرہ ۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ بتایا گیا کہ جو بچے اور نو عمر افراد ہفتے میں تین بار سے زیادہ روز فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں انھیں شدید قسم کی ایگزیمیا کی بیماری ہوتی ہے۔۔
کاربوہائیڈریٹس اور شکر کی زیادہ مقدار کی وجہ فاسٹ فوڈ بشمول سافٹ ڈرنکس سے منہ میں ایسڈ کی مقدار بڑھتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ایسڈ کی یہ مقدار دانتوں کی سطح کو نقصان پہنچاتی ہے جبکہ کیوٹیز، دانتوں کی فرسودگی اور مسوڑوں کے امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے۔
بچوں کو ابتدائی عمر سے کھانے کی جو عادت ڈالی جائے بچے وہی کھانا پسند کرتے ہیں۔ بچوں اور بڑوں کو فاسٹ فوڈ سے روکنے کے لیے گھر پر کچھ ایسے انتطامات کریں کہ خود بخود ہی فاسٹ فوڈ کھانے کا رجحان کم ہو جائے اور بچے بڑے سبھی گھر کے کھانے پسند کرنا شروع کر دیں۔
ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کو ناشتے میں آملیٹ کی جگہ بریڈ کے مختلف قسم کے سینڈوچ بنا دیں۔ ان کی پسند کے مطابق سینڈوچ میں چکن اور سبزی استعمال کریں ۔ بچوں کو ساتھ ساتھ فاسٹ فوڈ کے نقصانات سے آگاہ کرتے رہیں ، انھیں سمجھائیں کہ خراب اور باسی اشیاء بھی فاسٹ فوڈ کے کھانوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
طبی ماہرین کا خیال ہے کہ فاسٹ فوڈ میں موجود ٹرانس فیٹس اور دیگر چکنائی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق برگر کھانے والے بچوں میں موٹاپے اور پیٹ کی بیماریوں کے علاوہ سانس کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جو بچے ہفتے میں تین یا اس سے زیادہ برگر کھاتے ہیں ان میں دمہ کا خطرہ 64 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
جرمنی ، برطانیہ اور سپین میں ہونے والی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق 50 ہزار بچوں کے تجزیے کے بعد بچوں کے برگر کے استعمال اور بچوں کے دمہ کے درمیان تعلق دیکھا گیا ہے۔ ماہرین طب نے کہا ہے کہ برگر میں استعمال ہونے والے غذائی مواد بچوں کے پھیپھڑوں میں سوزش کا باعث بنتے ہیں جس سے دمے کی علامات کا آغاز ہوتا ہے۔ اس طرح ڈیمینشیا اور الزائمر امراض کا خطرہ ان غذاؤں سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ایسے بچوں کو برگر کی جگہ تازہ پھلوں کی عادت ڈال کر خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ انھیں فاسٹ فوڈ سے روکنے کے لیے تعلیمی ادارے بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ فاسٹ فوڈ کا بہت زیادہ استعمال کرنے والے طلبہ کے لیے سیمینار منعقد کریں جس میں فاسٹ فوڈ کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے بچاؤ کی مہم بھی چلائی جائے ۔
چھوٹے بچے اساتذہ کی بات بہت توجہ سے سنتے اور مانتے ہیں اس لیے چھوٹے بچوں کو فاسٹ فوڈ سے بچایا جائے ، ان کی ایسی ذہنی تربیت کی جائے کہ وہ اپنے والدین سے ہر وقت فاسٹ فوڈ کے پوائنٹس پر جانے کی ضد نہ کریں ۔ بچوں کو ایسی ویڈیوز دکھائی جائیں جس سے جنک فوڈ کے نقصانات جبکہ پھلوں اور سبزیوں کی افادیت ان پر واضح ہو۔
آج کل چھوٹے بچے بھی ہر وقت موبائل فون اور ٹیلی ویژن سے چپکے ہوتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی مصروفیات کے باعث ان پر زیادہ توجہ نہیں دیتے اور مائیں خاص طور پر بچوں کے لیے اپنے ہاتھ سے کوکنگ نہیں کرتیں۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ریستوران سے کھانا منگوا لیں اور گھر میں کچھ پکانا نہ پڑے ۔ کبھی کبھار تو بچوں کو کسی سیرگاہ میں لے جا سکتے ہیں اور فاسٹ فوڈ کے مزے کرا سکتے ہیں لیکن کوشش کریں کہ اس میں اعتدال کا دامن تھام کے رکھا جائے۔