وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ مالیاتی خسارہ پورا کرنے کیلئے آئندہ ماہ جنوری میں منی بجٹ لانے اور ٹیکسوں میں اضافے پر غور کیا جارہا ہے ، نئے اقدامات کی بدولت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کے بحران پر قابو پا لیا ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سےمذاکرات پر قوم جلد خوشخبری سنےگی، آئی ایم ایف سے معاشی ریفارمز پر اختلافات ہیں، ہم نے جہاز کو لینڈ کرانا ہے کریش نہیں ، دسمبر 2017ء میں ڈالر 105؍ روپے کا تھا ، آج ڈالر 138؍ روپے کا ہے، دسمبر سے جولائی تک ڈالر 23 روپے مہنگا ہوا، اب روپے کی قدر بڑھنے لگی ہے ، ڈالر کی قیمت میں اضافے کی انکوائری کیلئے تیار ہوں، وزیراعظم نے درست کہا کہ انہیں ڈالر کی قدر میں اضافے کا علم نہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ یکدم روپے کی قدر میں اتنی کمی مارکیٹ کاری ایکشن تھا جس کو دو گھنٹے میں ہی کنٹرول کر لیا گیا، صرف 2؍ ملین ڈالر کی ٹرانزیکشن ہوئی تھی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے سینٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے آئندہ ماہ منی بجٹ لانےکا عندہ دے دیا جو رواں مالی سال کا تیسرا بجٹ ہو گا۔
قائمہ کمیٹی کا اجلاس سینٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت ہو ا جس میں وزیر خزانہ اسد عمر اور گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نےارکان کمیٹی کوآئی ایم ایف سے قرضے کا حصول ، روپے کی قدر میں کمی اور ملکی معاشی صورتحال پر بریفنگ دی۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ روپے کی قدر کے حوالے سے اسٹیٹ بینک وزیر خزانہ کی مشاورت سے فیصلہ کرتا ہے اور مستقبل میں بھی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے گا۔
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب ماہانہ ایک ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے، حکومت نے ملک کو معاشی دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے، سعودی عرب سے 2 ارب ڈالرز مل چکے ہیں، جنوری میں سعودی عرب سے مزید ایک ارب ڈالرز ملیں گے، سعودی عرب سے 3.18 فیصد سود پر قرضہ لیا گیا ہے جب کہ27کروڑ ڈالرز کا تیل ماہانہ ادھار پر دے گا، جنوری میں سعودی عرب سے تیل ادھار ملنا شروع ہوجائے گا، رواں مالی سال ڈیڑھ ارب ڈالرز کا تیل ادھار پر ملے گا۔وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات سے امدادی پیکیج پر بات چیت چل رہی ہے قوم کو جلد خوشخبری ملے گی ، پیکیج کا اعلان چند روز میں ہوجائے گا۔چین سے بھی امدادی پیکیج پر معاہدے طے پا چکے ہیں، چین کے کمرشل بینکوں سے قرضہ ملے گی، رواں مالی سال کے لیے دوست ممالک کی مد د سے مالیاتی فرق( فنانسنگ گیپ) پہلے ہی پورا ہوچکا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف سے اچھا پروگرام ملنے تک قرض نہیں لیں گے، آئی ایم ایف کو فریم ورک بھجوا چکے اور مکمل پروگرام دے چکے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی جلدی نہیں، جب تک اچھا پروگرام نہیں ملتا قرض لینے کا فیصلہ نہیں کریں گے، آئی ایم ایف سے معاشی ریفارمز پر اختلافات ہیں، ہم نے جہاز کو لینڈ کرانا ہے کریش لینڈنگ نہیں کرانی۔ آئی ایم ایف کو تمام پلان جمع کر ادیا ہےاس حوالے سے آج شام کو آئی ایم ایف کے ساتھ ویڈیو کانفرنس بھی ہوگی ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی اصلاحات کا عمل شروع ہوچکاہے، ٹیکس ری فنڈز کا عمل تیز کیا جا رہا ہے، جب عوام کو اعتماد ہوگا تب معاشی اصلاحات کریں گے۔ اسد عمر نے کمیٹی کو بتایا کہ دسمبر 2017 میں ڈالر 105 روپے کا تھا ،آج ڈالر 138 روپے کا ہے، دسمبر سے جولائی تک ڈالر 23 روپے مہنگا ہوا، اب روپے کی بے قدری کم ہونا شروع ہوچکی ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافے کی انکوائری کے لیے تیار ہوں۔ وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ہوسکتا ہے جنوری میں منی بل لائیں تاہم ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا، اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے، منی بل میں ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ 250ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کے لیے میکنزم بنایا جائے گا اسد عمر نے کمیٹی کو بتایاکہ ڈالر کی قدر میں اضافے کا علم تھا ڈالر کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ سٹیٹ بنک نے کیا ،وزیراعظم نے درست کہا کہ انہیں ڈالر کی قدر میں اضافے کا علم نہیں ۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ بے حد پریشانی کی حالت میں ہیں اور جو حالات چل رہے ہیں اس سے لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے ۔
گورنر سٹیٹ بنک نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ روپے کی قدر میں تبدیلی بارے حکومت کو آگاہ کیا جاتا ہے ۔ یک دم روپے کی قدر میں اتنی کمی مارکیٹ کارد عمل تھا جس کو دو گھنٹے میں ہی کنڑول کر لیا گیاتھا اور صرف 2 ملین ڈالر کی ٹرانزکشن ہوئی تھی جو اوسطاً 3 سو ملین ڈالر کی ہوتی ہے ۔
سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں ایک دم اتنا اضافہ تشویشناک تھا مارکیٹ اور عوام پر اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ سینٹر شیری رحمن نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی سے متعلق وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے بیانات میں تضاد ہے ، وزیراعظم اور وزیر خزانہ ایک پیچ پر نہیں ہیں ،
سینیٹر اور نگز یب خان نے کہا کہ ملک قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے پاکستان میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں دو فٹ نیچے گیس نکلتی ہے اور پانی میں کروڈ آئل نکلتا ہے ۔ مگر بد قسمتی کی بات ہے ہماری حکومتوں کو قرض لینے کا نشہ ہے ۔ ملکی وسائل کو بہتر استعمال میں لانے سے قرض لینے کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے آئے دن کی ٹیکسوں کی بھر مار نے بھی سرمایہ کاری کو خاصا نقصان پہنچایا ہے ۔ ملک میں بجلی اور گیس چوری کو کنڑول کیا جانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ میں کوئی موثر منصوبہ بندی نہیں کی گئی
سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے کہا کہ سروے کرایا جائے کہ کون سی کمپنیاں فلائیٹ آف کیپٹل میں ملوث ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون لانے پر ٹیکسز کا نفاذ بھی لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہے جس پر وفاقی وزیر نے نظر ثانی کی یقین دہانی کرائی۔ وزیر خزانہ اسد عمرنے قائمہ کمیٹی خزانہ کوبتایا کہ گورنر سٹیٹ بینک نے چند روز پہلے بتایا تھا کہ روپے کی قدرکم کی جا سکتی ہے تاہم جس روز کرنسی کی قدرگھٹائی گئی مجھے علم نہیں تھا۔