زاہد گشکوری
جعلی اکائونٹس اسکینڈل‘ جے آئی ٹی رپورٹ اعلیٰ شخصیات کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔جے آئی ٹی نے 620افراد کو طلب کیا ‘جب کہ415افراد اور 172اداروں کیخلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق،جعلی اکائونٹس سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تقریباً415افراد اور 172اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی ہے جو کہ مبینہ طور پر 104جعلی اکائونٹس میں 220ارب روپے منتقل کرنے میں ملوث ہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ کو حتمی شکل دینے والے سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ تحقیقات کاروں نے9ستمبر،2018کے بعد سے جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران تقریباً620افراد کو طلب کیا۔یہ رپورٹ 7ہزار5سو صفحات اور 10والیمز پر مشتمل ہے۔بدھ کے روز مکمل کی جانے والی رپورٹ میں 35سے زائد ملزمان اور ان کے بیرون ممالک اثاثوں کی تفصیلات ہیں۔سربمہر رپورٹ (24دسمبر)پیر کے روز سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی۔
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں جو نتائج اخذ کیے ہیں انہیں 4کیٹگریز میں تقسیم کیا ہے۔ان میں جعلی اکائونٹس کافارینزک تجزیہ ، ایس ای سی پی ، اسٹیٹ بینک ، نیب، ایف بی آر اور خفیہ ایجنسیوں سے لیا گیا اداروں اور افراد کا ریکارڈ، حکومت سندھ سے تمام کانٹریکٹس کا علیحدہ ریکارڈابھی حاصل ہونا باقی ہے، باہمی قانونی معاونت کے تحت جو درخواستیں کی گئی ہیں ان کے جواب موصول ہونا باقی ہیں اور ذرائع رپورٹس کے ذریعے حاصل کردہ معلومات پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔جعلی اکائونٹس اسکینڈل کے سوا زیادہ تر معلومات جے آئی ٹی نے ذرائع کے ذریعے حاصل کی ہے، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کی برسلز اور پیرس میں متعدد جائدادیں ہیں۔ان میں 12-3بلوورڈ ڈی نیوپورٹ،1000،برسلز اور چائوسی ڈی مونس،1670برسلز اور لا مینیور ڈی لا رائن بلانکی اینڈ پراپرٹی، شامل ہیں۔
جے آئی ٹی نے تقریباً620گواہوں کو طلب کیا ، جس میں سے 470گواہوں نے بیانات براہ راست یا پھر اپنے وکلاء کے ذریعے ریکارڈ کرائے ۔70ملزمان نے یا تو جے آئی ٹی نوٹسز کا جواب دینے سے انکار کردیا یا پھر وہ بیرون ملک مقیم ہیں۔ذرائع کا کہنا تھا کہ 210اداروں/کمپنیوں کا ریکارڈ ایف بی آر، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک، حکومت سندھ اور نیب سے حاصل کیا گیا ، جس کی مکمل چھان بین جے آئی ٹی نے اپنے 75اجلاسوں میں 230سے زائد سرکاری افسران کی مدد سے مکمل کی۔جے آئی ٹی نے 20ہزار سے زائد منتقلیوں سے متعلق تحقیقات بھی مکمل کرلی ہیں۔
اسی طرح اہم ملزمان سابق صدر آصف زرداری، ایم پی اے فریال تالپور، پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو، مصطفیٰ میمن، بحریہ ٹائون کے زین ملک، عبدالغنی مجید، اسلم مسعود، انور مجید، کرنل ریٹائرڈ اسد زیدی ، غلام قادر مری اور اشرف ڈی بلوچ کے بیانات جے آئی ٹی نے ریکارڈ کیے، جو کہ رپورٹ کے ساتھ منسلک ہیں۔
زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ، اومنی گروپ، اے ون انٹرنیشنل ، ایم ایس بحریہ ٹائون کراچی، ایم ایس اقبال میٹلز، کنگریٹ پروجیکٹ مینجمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ، لکی انٹرنیشنل لمیٹڈاور سندھ میں فعال دیگر معروف اداروں کے کاروباری والیمز بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک ہیں ، جس میں ایم ایل ایز کی بنیاد پر بھی والیم شامل ہے۔نیب ، ایف آئی اے، نادرا، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور ایف بی آرنے تمام متعلقہ ریکارڈ فراہم کردیا ہے ، تاہم جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے تمام کانٹریکٹس کا مکمل ریکارڈ ابھی موصول ہونا باقی ہے۔
جے آئی ٹی والیم۔IVمیں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 29جون،2015کو جعلی اکائونٹ جس کے مالک ایم ایس لاجسٹک ٹریڈنگ فور فوڈ سپلائیز کی 41لاکھ 40ہزار روپے کی ادائیگی بلاول ہائوس کو ایم ایس دی ڈیلی ، ریسٹوران نے کی۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 15لاکھ 40ہزار روپے کے گھر کے پانی کا بل جو کہ 20 اپریل ،2015کا ہے اور مکان نمبرڈی۔30، بلاک 3، کلفٹن سے متعلق ہے ۔اس بل کی ادائیگی بھی جعلی اکائونٹ ایم ایس رائل انٹرنیشنل سے کی گئی ، جو کہ کراچی کے ایک نجی بینک میں بنایا گیا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کو ایم ایس لکی انٹرنیشنل کے اکائونٹ سے رقم موصول ہوئی ۔یہ اکائونٹ بھی کراچی کے نجی بینک میں کھولا گیا ہے۔
جے آئی ٹی نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ اہم ملزمان جن کے بیرون ممالک اثاثے ہیں ، ان کی تحقیقات کے لیے کچھ دیگر جے آئی ٹی بھی بنائی جائیں۔جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یا تو مزید تحقیقات بینکنگ کورٹس ، نیب، ایف آئی اےسے کرائی جائیں یا پھر جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر یہ فیصلہ اعلیٰ عدالت کرے۔جعلی اکائونٹس کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے گھریلو ملازم نے تقریباً 8 ا عشا ر یہ 1ارب روپے اپنے جعلی اکائو نٹ میں منتقل کیے۔