بھٹو خاندان کی محبت میں گندھے ہوئے لوگوں کا احوال جن کے پاس زندگی کے علاوہ کچھ نہیں بچا
عائشہ غازی
بلاول بھٹو نے پاکستان کے لئے سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلی کا مقدمہ عالمی سطح پرتو بہت اچھا لڑا لیکن افسوس کہ مجھے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے میں بلاول کے اس جوش و خروش کا کوئی عکس نظر نہیں آیا۔ کوئی ایک دو فیصد بھی نہیں ۔
میرے دورہِ سندھ کے دوران میں اگرچہ میرے میزبانوں کو میری گڑھی خدا بخش جانے کی خواہش اور بھٹو کے مزار پر حاضری نے میرے بارے میں ( حیرت انگیز طور پر) کافی بدگمان کیا لیکن اپنے حلیم الطبع میزبانوں سے نوڈیرو اور گڑھی خدابخش تک لے جانے کی درخواست میں نے “ اس لئے بھی ” کی تھی کہ میرا گمان تھا وہاں حالات باقی سندھ سے بہتر ہوں گے کیونکہ یہ علاقے تو بھٹو خاندان کے بہت ہی اپنے ہیں اور یہاں کے لوگ بھٹو خاندان کی محبت میں گندھے ہوئے ہیں ۔
وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہاں بھی باقی سندھ کی طرح آفت زدہ لوگوں کی ایک دنیا آباد تھی جو مدد کی موہوم سی امید دیکھ کر لپکتی تھی ۔ جہاں بدحالی فاقوں تک پہنچ چکی ہو، وہاں لوگ قطاروں میں لگ کر قسمت پر جوا نہیں کھیلتے ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے پاس زندگی کے علاوہ کچھ نہیں بچا ۔ بھوک، بیماری اور افلاس ۔۔۔ اور بکھری ہوئی اینٹیں جنہیں دوبارہ کمرہ بنانے کی استطاعت شاید انہیں کبھی عمر بھر نہ مل سکے ۔۔ جن فصلوں میں کام کرتے تھے وہ تباہ ہو گئیں۔ اب نہ مزدوری ملتی تھی، نہ ادھارپر راشن ۔۔۔
ایک طرف یہ ہیں اور دوسری طرف ان کے آقا ہیں ۔۔ یا تو ان کی زمینیں بچا کر پانی غریبوں کی فصلوں تک محدود کر دیا گیا یا سیلاب کی وجہ سے اگلے سال دوہری فصل کی خوشخبری ہے . مطلب جسے انگریزی میں وِن وِن سیچوئیشن کہتے ہیں ، ہر صورت میں صرف جیت ۔۔۔ آفت تو غریب پر پڑی ہے ۔
سوچتی ہوں اس قدر بے سروسامانی کے عالم میں سردی کیسے گزررہی ہو گی ۔ سیلاب کی تباہ کاری نے پہلے سے غربت کی لکیر سے نیچے پڑے لوگوں کو اس عالم غربت میں دھکیل دیا ہے جس نے میرے شعور کو کرب میں مبتلا کر رکھا ہے ، مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ زندگی کیوں ضروری ہے؟
سوال یہ ہے کہ کروڑوں روپے کی امداد جو ستمبر تک جمع ہو چکی تھی ، اس کا ہوا کیا؟ اس کا تو شاید دس فیصد بھی لوگوں تک نہیں پہنچا ۔ ہم نے جگہ جگہ رک کر لوگوں سے بات چیت کی ۔ ہر جگہ مقامی لوگ یہی بتاتے رہے کہ اپنے کرائے کا انتظام کر کے خود امداد لینے بھی چلے جائیں تو دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے اور صاحب لوگوں نے گودام بھر لئے ہیں ۔
حکومت اور رفاہی اداروں کی بے حسی کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ نوڈیرو کی بستی ” غریب آباد ” کے لوگ گواہ ہیں ستمبر کے آخر تک انہیں امداد کے نام پر دو چائے کی پتی اورایک کلو چینی دی گئی . اور یہ وہ گوٹھ تھا جس کی ہر دوسری چارپائی پر کوئی بیمار بچہ سسک رہا تھا اور اردگرد کے علاقے میں سیلاب اور سیوریج کا پانی تعفن زدہ ہو چکا تھا۔
اور ان کے جوان مرد مزدوری ملنے کی بھیک مانگ رہے تھے جبکہ اس سے چند میل کے فاصلے پر گڑھی خدا بخش کے عمارتی حسن پر آنچ نہیں آئی تھی ۔ یہ بھی حیرت ہے کہ سیلاب گڑھی خدا بخش کی تاج محل جیسی متاثر کن عمارت کی ایک اینٹ بھی نہیں ہلا پایا جبکہ مزار کی موٹر سائیکلوں کی پارکنگ اور اس سے متصل غریبوں کی چند دکانوں تک پانی نے سب کچھ تباہ کر دیا۔
یہ سب اتنا تکلیف دہ تھا کہ ان لوگوں سے مل کر واپس آئی تو اپنی خاموشی کو توڑنے میں مجھے ایک مدت لگ گئی ۔ میں نوڈیرو کے اس نوجوان کا چہرہ کبھی نہیں بھول سکوں گی جس کا دکھ غصے میں گُھل کر اس کے چہرے سے جھلک رہا تھا اور وہ مقامی سیاسی اور سرکاری لوگوں کی بات کرتے بار بار خود پر ضبط کر رہا تھا کیونکہ زبان بندی زندگی کے لئے شرط ہے ۔ سب جانتے ہیں ناظم جوکھیو کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کس نے کیا تھا۔
یہ چند تصویریں گڑھی خدابخش اور نوڈیرو کی ہیں۔۔۔ زندگی اور آفاتِ زندگی کی تلخیاں ایک طرف ۔۔۔ اور دوسری طرف سندھ کے ان مقامی لوگوں کی مٹھاس اور بے لوث مہمان نوازی ہے ۔۔۔ میں نے اب تک جتنا بھی سفر کیا ہے، ان جیسے بے لوث محبت کرنے والے میٹھے لوگ نہیں دیکھے ۔ شاید ان کی اسی مٹھاس نے آقائوں کے لئے ان پر بادشاہت کو آسان کر دیا ہے ۔۔۔
ایک طرف سندھ ان میٹھے لوگوں کی دھرتی ہے اور دوسری طرف سکھر میں "کچے” کے سخت اور پراسرار لوگوں کی ( وہاں کے “روح فرسا” دورے اور گنڈاسہ بردار لوگوں سے ملاقات کا قصہ پھر کبھی لکھوں گی ) ۔۔
لیکن آخری بات یہ ہے کہ سندھ ایسی محبت ہے جو ملاقات سے اور بڑھ جاتی ہے ۔۔۔ میں سندھ سے اگلی ملاقات کی منتظر ہوں ۔