فریحہ حسین
اپریل سن دو ہزار بائیس میں ، اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے تک ، ان کی مقبولیت آسمان سے زمین پر آ چکی تھی۔ تب مسلم لیگ ن ( اس وقت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ) کی مقبولیت بلندیوں پر تھی ۔ تاہم اب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف حکومت کے آٹھ ، نو ماہ گزرنے پر مسلم لیگ ن کو بدترین عدم مقبولیت کا سامنا ہے۔
سبب کیا ہے ؟ جواب بہت مشکل نہیں۔ عمران خان نے اپنی حکومت چلانے کےلئے عوام دشمن فیصلے کیے ، شہباز شریف نے اپنی حکومت میں مزید شدت کے ساتھ عوام دشمن فیصلے کئے۔ حکمران لوگ ان عوام دشمن فیصلوں کو ” مشکل فیصلوں” کا نام دیتے ہیں ۔ انھیں مشکل فیصلوں کے بجائے عوام دشمن فیصلوں کا نام اس لئے دیا جائے گا کہ اس کے نتیجے میں صرف اور صرف عوام کی زندگی مشکل ہوتی ہے ، وہی کچلے جاتے ہیں ، انہی کا خون ، پسینہ نچوڑا جاتا ہے۔ مافیاز دندناتے ہیں ، اشرافیہ خوب عیاشی کرتا ہے ۔ ان کی عیاشیوں اور لوٹ مار کا سارا بوجھ عوام ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ خیر ! یہ تو ایک طویل جملہ معترضہ ہو گیا۔
رائے عامہ کے یہ جائزے پاکستانی قوم کی ذہنیت کے عکاس ہیں۔ وہ ایک گروہ سے تنگ آکر دوسرے گروہ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں ۔ پھر دوسرے سے تنگ آکر پہلے گروہ کے حق میں ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بعد پہلے گروہ سے تنگ آتے ہیں تو دوسرا گروہ سمجھتا ہے کہ عوام کے پاس اس کی حمایت کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستانی قوم کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ؟میرا خیال ہے کہ پاکستانی قوم کے پاس آپشنز ختم نہیں ہوئے۔ اس وقت جماعت اسلامی ایک اہم ترین آپشن ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ عوام اب تک خود چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے ۔ پہلے چکی کے یہ دو پاٹ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تھے ۔ اب مسلم لیگ ن یا پی ڈی ایم اور تحریک انصاف ہیں لیکن اب انھیں آزمائے ہوئے گروہوں سے منہ موڑ کر کسی نئے آپشن کی طرف رخ کرنا ہوگا۔ کیوں؟ اس کا جواب آنے والی سطور میں دینے کی کوشش کرتی ہوں۔
جماعت اسلامی کو مذہبی و سیاسی جماعت کہا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں میں سب سے منظم جماعت ، جماعت اسلامی کو سمجھا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی بنیاد چھبیس اگست 1941 کو مولانا ابو الاعلی مودودی نے لاہور میں رکھی ۔ اپنے آغاز سے ہی یہ ایک ایسی تحریک ثابت ہوئی جس نے نظریہ پاکستان کی حمایت میں ایسا لشکر تیار کیا جس نے تحریک پاکستان کو فکری بنیاد مہیا کی۔
اس جماعت کا بنیادی وصف رہا ہے کہ یہ دین کا نفاذ عام زندگی میں صالحین اور مومنین کے ذریعے کرنا چاہتی ہے مگر بنیاد پرستی کی قا ئل نہیں ہے ۔ یہ بندوں پر بندوں کی حکمرانی کے خلاف ہے بلکہ یہ ریاستی اختیار کو اللہ کے ہاتھ میں دینے کے حق میں ہے ۔
مولانا مودودی کے زمانے میں جماعت کے کارکن کم ہونے کے باوجود اطاعت امیر، نظم و نسق اور تنظیم میں یہ دیگر کئی جماعتوں سے ممتاز تھی۔ آج بھی نظم و نسق اور تنظیم میں جماعت اسلامی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ جو نظام مولانا مودودی نے رائج کیا آج بھی قائم ہے۔ ان کے بعد میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد تک جماعت کی درخشاں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک مذہبی سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک بھرپور تحریک ہے۔
تاریخی تناظر میں اگر جماعت اسلامی کا کردار دیکھا جائے تو یہ معاشرے میں تعمیری اور مثبت تبدیلی کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہی ہے۔ قیام پاکستان کا سوال ہو یا اس کے بعد دستور سازی کے سلسلے میں پاکستان کو نظریاتی مملکت قرار دینے کے لیے قرارداد مقاصد کی منظوری ہو یا پھر قادیانیوں کو کافر قرار دئیے جانے کی تحریک ہو جماعت اسلامی نے ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کیا۔
جماعت آمریت کے خلاف مادرملت کی حمایت اور سوشلزم و سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہی۔1973 کے آئین میں اسلامی دفعات ہوں یا تحریک نظام مصطفی جماعت اسلامی نے کبھی قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ افغانستان کا جہاد ہو ، کشمیر کی آزادی کی بات ہو، مشرف کی آمریت کی مخالفت ہو، عدلیہ بحالی کی تحریک ہو یا کرپشن فری اسلامی اور خوشحال پاکستان کی ملک گیر مہم ہو جماعت اسلامی کا کردار کسی سے چھپا ہوا نہیں۔
غربت کے خاتمے سے لے کر خدمت خلق کے میدان تک جماعت کا مقابلہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔ تعلیم ، صحت ، قرضہ حسنہ کی فراہمی ، دستکاری سکول ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، قدرتی آفات میں متاثرین کی مدد سے ان کی بحالی تک کوئی دوسری سیاسی جماعت اس کے قریب بھی نہیں آ سکتی . اگر کہا جائے کہ جماعت اسلامی کی فکر مقامی و قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے تو یہ کسی طور غلط نہیں ہو گا۔
سیاسی نقطہ نظر سے جماعت اسلامی کی جدوجہد دیکھی جائے تو یہ کئی سیاسی جماعتوں سے زیادہ جمہوری نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی نے تحریک پاکستان کے لیے فکر و فلسفہ فراہم کر کے پا کستان کے اسلامی تشخص کو اجاگر کیا۔ جمہوریت کی خاطر محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ اس وقت دیا جب آج کی بہت سی جمہوریت کی چمپئن جماعتیں آمر کی گود میں بیٹھی تھیں۔
1970کے انتخابات کے وقت جماعت اسلامی وہ واحد جماعت تھی جس نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں بیک وقت اپنے نمائندے کھڑے کر کے ثابت کیا کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں قوم کے ساتھ کھڑی ہے ۔ انتخابات میں اگرچہ جماعت کے صرف چار افراد کامیاب ہوئے مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان چار افراد کی کارکردگی پوری اسمبلی کی کارکردگی پر بھاری تھی۔
پروفیسر غفور احمد جیسے معتدل مزاج اور کھرے آدمی اس کے پارلیمانی لیڈر رہے ۔1993 میں اسلامک فرنٹ بنا تو اس میں بھی اپنا حصہ ڈالا مگر یہ اتحاد زیادہ نشستیں حاصل نہ کر پایا ۔1999 میں مشرف کی آمریت کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز قاضی حسین احمد کی تھی ۔
جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 2002 میں متحدہ مجلس عمل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا جس نے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں ۔ عدلیہ بحالی تحریک میں جماعت کے امیر قاضی حسین احمد نے کارکنان سمیت ڈنڈے تک کھائے۔ جماعت اسلامی کے کسی رکن نے این آر او سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ پانامہ لیکس ، دبئی لیکس ، اقامہ سکینڈل اور نیب سکینڈل کسی میں جماعت اسلامی کی قیادت یا ان کے کسی بھی درجے کے قائدین کے شامل ہونے کا کوئی شائبہ تک نہیں جبکہ دوسری طرف دیگر جماعتوں کے بڑے بڑے برج گرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے کسی رکن پارلیمنٹ نے کک بیکس لیے نہ کبھی کسٹم ڈیوٹیاں معاف کروائیں مگر اس سب کے باوجود جماعت اسلامی قومی سطح پر حکومت بنانا تو دور کی بات ہے انتخابات میں کبھی قابل ذکر کامیابی نہیں حاصل کر پائی۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
سید منور حسن کے بعد سراج الحق جماعت کے امیر منتخب ہوئے جن کی کارکردگی نے جماعت کے قومی و سیاسی کردار پر کئی سوالات اٹھادیئے ہیں جس سے ان کی اپنی پوزیشن بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان کی قیادت میں 2018 میں دیگر مذہبی جماعتوں کے اتحاد میں شامل ہو کر بھی جماعت صرف ایک نشت حاصل کر سکی ۔ ایسا کڑا وقت جماعت پر اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قومی سطح پر سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔ اس عرصے کے دوران جماعت کا واضح رجحان تحریک انصاف کی طرف رہا۔ سوال یہ ہے کہ اتنی عظیم فکری اور نظریاتی تحریک کو تحریک انصاف کے اس قدر تابع کیوں کر دیا گیا کہ جماعت اسلامی کا اپنا وجود گہنا گیا۔
سراج الحق ایک درویش صفت لیڈر ہیں۔ ان کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہے مگر شاید جماعت اسلامی جیسی فکر انگیز تحریک کو جس بصیرت اور فہم و فراست کی ضرورت ہے وہ موجودہ قیادت میں ابھی نہیں ہے۔ اس کا خمیازہ جماعت اسلامی کو انتخابات میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
خیبر پختون خوا میں گزشتہ ضمنی انتخابات میں جماعت کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ جماعت کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے بیٹے آصف لقمان قاضی نے بروکنگ میں شائع شدہ مضمون میں جماعت کی پارلیمانی سیاست پر نظر ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ انتخابات میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرنے کی وجہ جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ ہو سکتا ہے جس سے انقلابی کامیابی تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر اس ڈھانچہ کے ساتھ پارلیمانی سیاست میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔ مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی کی سیاست ایک خاص اسلوب لئے ہوئے ہے۔
معروف پاکستانی تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی ( پلڈاٹ ) کی ایک رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت کہیں زیادہ جمہوری مذہبی سیاسی جماعت ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی متحرک خواتین کارکنان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جس میں موروثی سیاست پنپنے کی گنجائش دیگر پاکستانی سیاسی جماعتوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور فرقوں اور مسلکوں کی لڑائی میں یہ اتحاد ویکجہتی کی سب سے توانا آواز ہے۔
یہ درحقیقت غریبوں اور عام لوگوں کی جماعت ہے جو غربت کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب پچھلے کچھ عرصے سے جماعت اسلامی کے حق میں” حل صرف جماعت اسلامی "کی طرح کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔
ایسے نعروں کے مقابلے میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا مذہبی جماعتوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے ؟ اس میں شک نہیں کہ مذہبی جماعتوں کا اصل کام دین کی تبلیغ ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اقتدار اور اختلاف میں موجود سیاسی جماعتوں کی حلیف یا حریف بنے بغیر دعوت کا سلسلہ یکساں طور پر پہنچایا جائے مگر اللہ تعالٰی کا یہ بھی فرمان ہے کہ "نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ کے کاموں پر تعاون نہ کرو ” .
اس لحاظ سے جماعت اسلامی ہی کیوں کوئی بھی مذہبی جماعت ہو اس کے وہ امید واران جو دیانت دار ہوں، تقوی ، پرہیز گاڑی اور فہم و فراست سے مسا ئل کو حل کرنا جانتے ہوں اور ملکی سیاست سے آگاہ ہوں اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ انھیں پالیسی ساز اداروں اور حکومت میں شامل کیا جائے۔ یا پھر حکومت ان کے حوالے کی جائے۔
جماعت اسلامی کو حکومت کیوں دی جائے ؟
جماعت اسلامی نے بحیثیت مجموعی دیانت داری میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اسے جب بھی کوئی حکومتی عہدہ سونپا گیا اس کے اراکین نے دیانت داری سے کام لیتے ہوئے حکومتی خزانہ کو فہم و فراست سے استعمال کیا ۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تین بار جماعت اسلامی کے میئر منتخب ہوئے۔ کراچی کے دو بار مئیر منتخب ہونے والے مئیر عبدالستار افغانی جب مئیر شپ چھوڑ تے ہیں تو ان کا وہی چھوٹا سا فلیٹ ان کی پہچان بنتا ہے جو مئیر شپ لینے سے پہلے ان کے پاس تھا۔
کراچی کے بجٹ کو چار ارب سے 44 ارب تک پہنچانے والے جماعت اسلامی کے ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں کمیشن سے پاک کلچر فروغ پاتا ہے ۔ اس وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کی لاگت کروڑوں سے لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے۔ نعمت اللہ خان کی خدمات کا اعتراف ان کے بدترین مخالف بھی کرتے ہیں۔ مثلا جنرل پرویز مشرف اور ایم کیو ایم وغیرہ۔ نہ صرف یہ بلکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں بھی جماعت کے وزراء کی کارکردگی مثالی رہی۔ان سب کے دامن کرپشن سے پاک رہے اور سرکاری خزانے کو امانت سمجھ کر استعمال کیا گیا۔ سراج الحق کی بحیثیت وزیر خزانہ ( خیبر پختون خوا ) کارکردگی ایسی رہی کہ ان کی امانت اور دیانت داری کا ہر کوئی قا ئل ہوا۔
جماعت اسلامی محض ایک سیاسی مذہبی جماعت نہیں بلکہ تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ دیگر عوامی تحریکوں کے برعکس ایک نظریاتی تحریک ہے ۔ عوامی تحریکیں محض نعروں تک محدود ہوتی ہیں جو لوگوں کا ہجوم تو اکٹھا کر لیتی ہیں مگر نظریاتی اساس نہ ہونے کی وجہ سے دائمی اثر سے محروم ہوتی ہیں۔ ان کے خوش نما نعرے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی بلا سود معاشی نظام کے لیے کوشاں ہے۔
ان حقائق کی موجودگی میں جماعت اسلامی کے اہل افراد کو ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔ خاص طور پر تب جب دیگر سیاسی جماعتوں کے سرٹیفایڈ کرپٹ افراد کو بار بار آزما لیا گیا ہو۔ بات اگر یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس کوئی انتظامی تجربہ ہے یا نہیں تو اس شک کو دور کرنے کے لیے الخدمت فاونڈیشن کے نظم و نسق کو دیکھا جا سکتا ہے جس کا مظاہرہ حالیہ سیلاب کے دنوں میں کیا گیا۔
ملک کو اس وقت دیانتدار اور کرپشن سے پاک قیادت کی ضرورت آج سے زیادہ کبھی نہ تھی۔ سپریم کورٹ کے مطابق اگر آرٹیکل 62 اور 63 پارلیمنٹرینز پر لاگو کیا جائے تو سراج الحق کے علاوہ کوئی نہیں بچے گا۔ ایسے میں جو لوگ جماعت اسلامی کو اپنا اگلا آپشن بنانے کے لئے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں ، انھیں اپنی جھجھک اور ہچکچاہٹ دور کر لینی چاہیے۔ ایک ایسی جماعت کو آزمانا چاہیے ، جس کے افراد کو جہاں بھی ذمہ داری دی گئی ، انھوں نے اہلیت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ کوئی دوسری جماعت ایسی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ اس لئے اب واضح طور پر جماعت اسلامی کا یہ دعویٰ درست معلوم ہوتا ہے کہ
حل صرف جماعت اسلامی۔
( محترمہ فریحہ حسین لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں پالیٹیکل سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور بادبان ڈاٹ کام پر وقتا فوقتا لکھتی ہیں۔)
6 پر “جماعت اسلامی ، پاکستانی قوم کے لئے اگلا آپشن ؟” جوابات
یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی ہی متبادل قیادت فراہم کرسکتی ہے ۔۔۔جب کہ تینوں بڑی پارٹیاں ہر طرح کے کرپشن میں ملوث ہے ۔۔۔اچھا تجزیہ پیش کیا ہے مصنف نے
ماشاءاللہ ۔۔۔بہت خوب
شکریہ
بہت زبردست تجزیاتی تحریر ہے محترمہ نے عوام کو صحیح رخ پہ رہنمائی دی ہے جماعت اسلامی کو جس میدان میں موقع ملا ہے انھوں نے کام کر کے دکھایا ہے حالیہ سیلاب کی صورتحال میں ان کے شعبہ الخدمت نے جس طرح کام کیا انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے بہت اچھی تحریر ہےاپنی تحریر سے ایک محب وطن پاکستانی نظر آتی ہیں جو کہ حالات سے پریشان بھی ہے لیکن حل بھی جانتا ہے
مجھے تو ان پر حیرت ہوتی ہے جو سوچتے ہیں کہ ملک چلانے اور الخدمت فاونڈیشن چلانے میں فرق ہے۔ بلکل ہے مگر کیا جن کو موقع دیا جاتا رہا ان کے پاس ایسا کونسا تجربہ تھا ۔ تھا بھی تو حالیہ سیلاب میں کہاں گیا وہ تجربہ۔ آزمائے ہووں کو آزمانے کی بجائے ان کو موقع دیں جو درد دل رکھتے ہیں۔
شکریہ۔ نہ صرف تینوں بڑی جماعتیں کرپشن میں ملوث ہیں۔یہ عوام کو کسی بھی طرح کا ریلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ تو عوام کو اب سنجیدہ ہو کر جماعت اسلامی کے بارے میں سوچنا چاہیے