خوبصورت نوجوان لڑکی کرسمس کے موقع پر

کرسمس کی مبارک باد دینا شرک نہیں ، بھلا کیوں ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

سن دو ہزار بائیس میں کرسمس کا تہوار قریب آیا تو ایک نئی بحث سننے کو ملی کہ ” میری کرسمس ” ( Merry Christmas ) کہنا شرک ہے ؟ یعنی کسی عیسائی کو کرسمس کی مبارک دینے سے آپ بھی شرک کے مرتکب ہوں گے ۔

اس بحث کا چھڑنا میرے لئے حیران کن تھا لیکن میں خود کو اس بحث میں کود پڑنے کے قابل نہیں سمجھتا کہ ایک طالب علم ہوں ۔ البتہ ذہن میں کچھ سوالات تھے اور یہ سوالات اب اب بھی موجود ہیں ۔ مثلا اگر مسلمان عیسائیوں سمیت تمام غیر مسلموں کو اپنے سے دور رکھیں گے ، یا خود ان سے ایک فاصلے پر رہیں گے تو انھیں اسلام کی دعوت کیسے پہنچائیں گے ؟؟؟

ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان کے آس پاس ایک عیسائی رہتا ہو ، مسلمان ہر معاملے میں اس سے دور دور رہے ، اور پھر ایک دن اچانک دور سے اسے کہے کہ اے عیسائی ! تم اسلام قبول کرلو !!! سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مسلمان کی بات پر کان دھرے گا جس نے اس کا سماجی مقاطعہ کیا ہوا ہے؟

ہم نے سنا تھا کہ اسلام حسن عمل سے پھیلا ۔ اور حسن عمل کے لئے تو مخاطب کو قریب کرنا اور اس کے قریب ہونا چاہیے ، اسے اپنائیت دینا ہوتی ہے ۔ پھر عیسائیوں کو اپنے سے دور رکھ کر ، ان کا سماجی بائیکاٹ کرکے کیسے حسن عمل سے متاثر کیا جاسکتا ہے؟

اس موضوع پر بادبان ڈاٹ کام پر ایک مضمون جناب عمران عمر کا شائع ہوا اور دوسرا مضمون جناب ڈاکٹر عبیدالرحمن کا شائع ہوا ۔ دونوں مضامین ایک دوسرے سے مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل ہیں ۔ آپ اس صفحہ پر ان کے لنکس ملاحظہ کرسکتے ہیں ، دونوں نقطہ ہائے نظر سے واقف ہوسکتے ہیں۔ آج اسی حوالے سے ایک اور مضمون بھی دیکھنے کو ملا۔

یہ بھی پڑھیے
کیا کرسمس پر مبارک دینا شرک ہے ؟
اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک ، ان کے تہوار اور قرآن و سنت کی تعلیمات

مولانا محمد اقبال بدوی صاحب جیّد عالم دین ہیں ۔ آج کل اولڈم انگلینڈ کی جامعہ مسجد کے امام و خطیب ہیں ۔ صاحبِ بصیرت اور وسیع المطالعہ ہیں ۔ دلیل کی بنیاد پر کسی موضوع سے اتفاق کرتے ہیں اور اختلاف کرنے والوں سے وسعتِ قلبی سے مکالمہ کرتے ہیں۔
کرسمس کے حوالے سے عیسائی دنیا سے کیسے برتاؤ کیا جائے اور ہماری روایتی سوچ دینی نقطہ نظر سے کیا ابہام رکھتی ہے ؟ ان دونوں سوالات پر انھوں نے نہایت مدلل گفتگو کی ہے۔

مولانا محمد اقبال بدوی نے واضح طور پر ان سوالات کے جوابات دیے ہیں کہ کرسمس کے حوالے سے اپنے پڑوسیوں یا ساتھ کام کرنے والوں کو مبارک کہنے سے ان کے مذہب کی تائید ہو جاتی ہے؟ کیا صحابہ کرام کے زمانے میں ایسا ہوتا تھا ؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحبان نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے ، کیوں کہا ہے ؟ یورپ میں رہنے والوں کی کوئی مجبوری ہو گی ، مگر ہماری کیا مجبوری ہے؟

مولانا محمد اقبال بدوی کہتے ہیں کہ ان کی تحریر کا مقصد کسی کو قائل کرنا نہیں ، نہ ہی کسی کو یہ دعوت دینا مقصود ہےکہ وہ عیسائی خاندانوں کے دروازوں پر جا جا کر دستک دیں اور ہر راہ چلتے کو ہیپی کرسمس بولتے رہیں اور ان کی پارٹیز میں شریک ہوتے رہیں ۔ مقصد صرف یہ ہے اگر ساتھ رہنے والے ، ساتھ کام کرنے ، ساتھ پڑھنے اور ساتھ رہنے والے اگر مسلمان کو ہیپی کرسمس کہیں تو ان کے جواب میں مسلمان بھی مبارک باد دے تو کیا اس سے شرک ہو جائے گا ؟

1) کرسمس کا تصور حضرت عیسی کے دنیا سے اُٹھ جانے کے ساڑھے تین سو سال بعد میں آیا ، بائبل میں اس کا کوئی ذکر نشان بھی نہیں ہے ، عیسی کا ابن اللہ ( اللہ کا بیٹا ) ہونے کا عقیدہ چار سو سال بعد گھڑا گیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اور نزول قرآن کے وقت میں موجود عیسائی عیسی کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے اس کے باوجود ، ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ، مگر اس سے ان کے مذہب اور عقیدے کے تائید نہ ہوئی۔

2) عیسائیوں کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانے کی اجازت دی گئی ، مگر اس سے ان کے مذہب اور عقیدے کے تائید نہ ہوئی۔

3) مدینہ کے یہودی قبائل حضرت موسی اور بنی اسرائیل کی آزادی کی خوشی میں دس محرم کا روزہ رکھتے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو حکم دیا اور فرمایا : موسیٰ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے، آپ نے یہ روزہ ان سے لیا لیکن اس سے ان کے مذہب اور عقیدے کے تائید نہ ہوئی۔

4) قرآن نے جب زکوٰۃ کی مدات بیان کیں تو ضرورت مند غیر مسلموں کا خیال فرمایا کہ ان کو بھی زکوٰۃ دے سکتے ہو ( مؤلفہ القلوب )۔ اس سے ان کے مذہب اور عقیدے کے تائید نہ ہوئی ۔
5) آپ نے سوشل ویلفئیر کے لئے کافروں کے بنائے ہوئے پلیٹ فارم کی ممبر شپ لی اور تئیس سال تک ان کے ساتھ کام کیا ۔ اس سے ان کے مذہب اور عقیدے کے تائید نہ ہوئی۔
6) آپ نے عیسائی بادشاہ ( شاہ مصر، مقوقس ) کی طرف سے دیے گئے تحفے خوشی سے قبول کیے حالانکہ وہ عیسی کو اللہ کا بیٹا مانتا تھا۔ اس سے ان کے مذہب اور عقیدے کے تائید نہ ہوئی ۔
7) نجران سے عیسائیوں کا وفد آپ کی نبوت کو چیلنج کرنے آیا , آپ نے ان مشرکوں اور ابن اللہ کا عقیدہ رکھنے والوں کو اپنی مسجد میں عبادت کی اجازت دی۔ اس سے ان کے مذہب اور عقیدے کے تائید نہ ہوئی ۔
• یہ سب ، شادیاں ، ذبیحے، بزنس ، مدد امداد اسی لئے تو تھی کہ ان کے ساتھ ربط ضبط رہے اور بڑھے ، قربت پیدا ہو، وہ ہمیں اور ہمارے دین کو سمجھیں , غلط فہمیاں دور ہوں اور بالآخر وہ اس دین کے سائے میں آ سکیں ۔

سب سے بڑی دلیل ہجرت حبشہ ہے . مسلمان سمندر پار عیسائیوں کے ملک میں پہنچے جو عیسی کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے وہاں پناہ لی ، ان کے پوچھنے پر حضرت عیسی کے بارے میں اپنا عقیدہ بتا دیا کہ ہم انہیں اللہ کا بیٹا نہیں بلکہ اللہ کا کلمہ مانتے ہیں جو اس نے مریم کی طرف القا کیا تھا ، اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے ان کے عقیدے کو چیلنج نہیں کیا، وہاں پندرہ سال رہے ، شادیاں کیں ، بچے ہوئے ، ان کے ساتھ کاروبار کیے

حتیٰ کہ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ حبشہ کے بادشاہ کے خلاف کسی نے بغاوت کر دی تو ہم صبح و شام اس کے لئے دعائیں مانگتے تھے کہ یا اللہ نجاشی کو غلبہ عطا فرما اور اس کے تخت کو محفوظ رکھنا۔ “ فدعونا اللہ تعالی للنجاشی بالظہور علی عدوہ والتمکین لہ فی بلادہ “اس سے بھی ان کے مذہب اور عقیدے کے تائید نہ ہوئی ۔

10) صحابہ کرام کے زمانے میں غیر مسلموں کے قبیلے الگ ، محلے الگ ، بازار الگ ، پروگرامات الگ ، رسومات الگ ہوتی تھیں ، غیر مسلموں کے سارے اجتماعات / رسومات انہی تک محدود تھیں ، انھیں یہ ایشو نہیں ہوتے تھے ۔ تاہم آج کی مخلوط سوسائٹی میں جہاں چالیس کروڑ مسلمان مغرب میں ہیں ، انہیں اپنے دین اور اقدار کی ترویج کے لئے خوشگوار تعلقات کی ضرورت ہے

11) ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود سفر میں تھے . کچھ عیسائی بھی شریک سفر ہوئے تو انہیں “ السلام علیکم “ کہا . ساتھیوں نے کہا آپ عیسائیوں کو سلام کر رہے ہیں ؟ تو فرمایا : میں حقِ صحبت ادا کر رہا ہوں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک یا کسی دوسرے سکالر کے فتوے/ رائے کا نام ” دین ” نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کا نام ” دین ” ہے ، آپ یہ نہ بتائیں کہ ڈاکٹر صاحب نے کرسمس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ “ خدا نے بیٹا جنا “ بلکہ آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس ڈکشنری کا نام بتائیں جس میں کرسمس کے یہ معنی لکھے ہوئے ہیں۔
کرسمس(Christmas) دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ایک کرائسٹ یعنی ” عیسیٰ ” اور دوسرا ماس یعنی "اجتماع ” ، اس میں خدا کا بیٹا ہونا کہاں سے آ گیا؟

قرآن نے بتایا کہ بنی اسرائیل جب شرک میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے جن بتوں کو خدا بنایا ان میں سے ایک خدا کا نام “ بعل “ تھا. لبنان ، شام اور فلسطین کے علاقوں کے لوگ اس کو خدا مانتے تھے ( سورہ صافات میں اس کا ذکر موجود ہے ) لیکن اس لفظ کا اصل مطلب ہے سردار، لیڈر، رہنما سرپرست . لہذا انہی معنوں میں حضرت ابراہیم کی اہلیہ نے یہی لفظ اپنے خاوند کے لئے استعمال کیے “ و ھذا بعلی شیخا” ( سورہ ہود )

اس سے پتا چلا کہ ایک ہی لفظ کے اپنے اپنے مطلب ہو سکتے ہیں کوئی ” بعل ” سے ” خاوند ” مراد لے یا کوئی ” بعل ” سے مراد ” خدا ” لے ، وہ اپنے اپنے مطلب کے لئے جواب دہ ہوں گے، بالکل اسی طرح عیسائی عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مان کر خوش ہوتے رہیں لیکن ہم اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کا نبی مان کر خوش ہو سکتے ہیں . ان کا اپنا مطلب ہے اور ہمارا اپنا۔

مولانا بدوی کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ آج کی اس ملٹی کلچرل سوسائٹی میں اپنے دین کی دعوت کے لئے عین سنت کے مطابق راستے پیدا کیے جائیں ، مسلمانوں کو علماء کے فتووں کی بنیاد پر “اجنبیت” سے بچایا جائے ، لوگوں کو اس آخری اور واحد سچے دین کے قریب کیا جائے ، قرآن و سنت نے جو دین میں وسعت دی ہے اس کا تعارف کروایا جائے۔

بد قسمتی سے اس وسعتِ قلبی کو علماء اپنے ذوق اور فتووں سے تنگ کر رہے ہیں ۔ اسلام الحمد للہ مغرب میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ اسلام کا سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔

مولانا اقبال بدوی نے نہایت عمدگی سے لوگوں کے مخمصے دور کیے ہیں ۔ یقینا اس کے نتیجے میں سخت گیر مسلمان اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے ، ایسے روہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ایسی بلند اور مضبوط دیواریں کھڑی کر رہے ہیں جو دراصل اسلام کی دعوت اور اس کی فروغ و اشاعت کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔ ( بادبان , عبید اللہ عابد )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “کرسمس کی مبارک باد دینا شرک نہیں ، بھلا کیوں ؟” جوابات

  1. Shahid Abbas Avatar
    Shahid Abbas

    اسلام و علیکم عبید بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ کے آپ نے بہت سے کنسیپٹ کلیئر کر دئیے۔ مجھے پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ اس سال میں اپنے مسیحی بھائیوں سے میری کرسمس کے الفاظ ادا نیں کر سکا۔جس کی میں معذرت چاہتا ہوں۔ ہا ں البتہ میں ان کو عید کی مبارک باد ضرور دی ہے۔

  2. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    بہت ہی شاندار، جامع اور تحقیق پر مبنی مضمون ھے۔ جیسا کہ آپ نے تاریخ اسلام سے مسلمانوں کے عیسائیوں کے ساتھ تعلقات اور ان کے عقیدے کی تائید نہ کرنے کے واقعات قلمبند کئے ہیں بالکل اسی طرح آج کل بھی اپنی حدود میں رہتے ہوئے عیسائیوں سے تعلقات رکھے جا سکتے ہیں۔۔ ایک سچے مسلمان کا اسلام سے تعلق اور خدا کی یکتائی پر یقین اتنا ناپائیدار اور نازک نہیں ھوتا کہ ھمسائے یا دفتر کے ساتھی کو اس کی خوشی پر مبارک باد دینے سے وہ دائرہ اسلام سے نکل جائے گا یا گناہ گار ھو جائے گا۔ کاش کہ ھمارے علمائے اکرام عصر حاضر میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کی زندگیوں کو پیش نظر رکھ کر فتوے صادر کیا کریں نہ کہ اپنی چار دیواری میں رہتے ھوئے سہولت کے مطابق ۔۔۔