عاصم نواز
دورِ حاضر میں ترقی اپنی بلندیوں پر ہے، انسان نے اپنی دلچسپی کے نت نئے بہانے تلاش و تراش لیے ہیں اس لیے لکھنے اور پڑھنے کے رحجان میں بہت کمی واقع ہوئ ہے ۔ زوالِ تحریر کے اس دور میں بھی ادب کی ایک صنف ” کہانی ” اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے ۔ چونکہ کہانی میں پڑھنے والے کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی صفت ہوتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ کہانی ایسے تشکیل دی جائے کہ جیسے اک دلہن کے سولہ سنگھار تاکہ پڑھنے والا اس کی رعنائیوں میں کھو جائے ۔
کہانی دراصل کسی بھی واقعے یا قصے کو کہتے ہیں جو اپنے اندر اک پورا درس سموئے ہوتا ہے ۔ یہ کہانی سچی بھی ہو سکتی ہے اور فرضی بھی ۔ بس اسے ناول کی طرح طویل اور افسانے کی طرح مختصر نہیں ہونا چاہیے ۔ کہانی لکھنے میں مہارت کے لیے مطالعے اور مشاہدے کا وسیع ہونا بہت ضروری ہے . پھر اس کے ساتھ دیگر لوازمات اس دلہن کے سنگھار بن کر اسے پڑھے جانے کے قابل بناتے ہیں ۔
💥 مقبول کہانی نویس و لکھاری اشتیاق احمد کہانی لکھنے کے بارے میں کہتے ہیں : "لکھنے کا تعلق مطالعہ سے ہے جو مطالعہ نہیں کرتا وہ لکھ نہیں سکتا”.
ہر انسان کے اپنے رحجانات ہوتے ہیں ۔ وہ جس طرح کا مطالعہ کرتا ہے بالکل اسی رحجان کے مطابق لکھنے کی صلاحیت بھی اس کے اندر پروان چڑھتی ہے ۔ کہانی نویس بھی شروع میں قصے کہانیاں سننے اور پڑھنے کے عمل سے گزر چکے ہوتے ہیں ۔ جب مطالعہ و مشاہدہ ایک خاص حد تک پروان چڑھ جائے تو لکھنے کی صلاحیت کا ادراک ہوتے ہی انسان کو روزانہ کے مشاہدات و تخیلات کی بنیاد پر اک آدھ صفحہ لکھتے رہنے کی عادت اپنانی چاہیے ۔
جب لکھنے میں تھوڑی بہت بہتری آجائے تو پھر زیادہ سے زیادہ محاورات ، ضرب الامثال ، استعارات ، تشبیہات ، تلمیحات ، مصرعے و اشعار یاد کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ کہانی میں موقع کی مناسبت سے ان کا استعمال کر کے اسے چار چاند لگائے جا سکیں ۔
اس سارے عمل کے بعد کسی ماہر استاد سے اپنی تحریر کا معائنہ اور ضروری کانٹ چھانٹ کروا کر اسے ایک بہترین شکل دی جا سکتی ہے ۔ اردو کے بہترین کہانی نویسوں کی تحریروں کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ اس فن میں طاق ہونے کے لیے بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ابن صفی ، مظہر کلیم ، اشتیاق احمد ، کرشن چندر ، امریتا پریتم ، رضیہ بٹ اور حزین قادری وغیرہ نے اس فن میں اپنا لوہا منوایا ہے، ان کی تحریریں نئے لکھنے والوں کیلئے مشعل راہ ہیں ۔ ان لکھاریوں کی تحریروں کا بغور جائزہ لینے سے مندرجہ ذیل خصوصیات عیاں ہوتی ہیں کہ جن کے باعث کسی بھی تحریر کو عوامی پزیرائی مل سکتی ہے۔
🔥کہانی کا تعلق چونکہ ماضی بعید یا قریب سے ہوتا ہے اس لیے اس میں ماضی کے صیغے استعمال کیے جانے چاہییں۔
🔥 کہانی کا خیال مضبوط اور نسبتاََ مختصر ہو کہ وہ ناول نہ لگے۔
🔥 کہانی میں سسپنس ہو تاکہ قاری آخر تک اسے پڑھنے پر مجبور ہو۔
🔥 کہانی ایک ڈھانچے کے مطابق مرتب ہو ۔ نت نئے کرداروں کا اضافہ کرنے کے بجائے اسے بیان کردہ کرداروں کے ذریعے پروان چڑھایا جائے۔
🔥 الفاظ ٹھوس اور محاورے و تراکیب وقت کی مناسبت سے ہوں تاکہ پڑھنے والے کو بوجھل نہ کریں۔
🔥 لکھنے کے بعد اس کا تفصیلی جائزہ ضروری ہے تاکہ اپنے ذہن کے مطابق کہانی کو بہتر انداز میں تشکیل دینے کیلئے جہاں چھان پھٹک کی ضرورت ہو کر دی جائے ۔
🔥 آخر میں کہانی کو کسی ماہر استاد کی نظروں سے گزار کر اسے مزید بہتر کیا جائے۔
کہانی لکھنے والوں کیلئے یہ مثال بہت اہم ہے کہ جس طرح رنگا رنگ مصالحے اک خاص ترتیب سے شامل کرنے پر کھانا لذیذ و مرغوب بنتا ہے یا جس طرح اک دلہن کی خوبصورتی و وقار میں سولہ سنگھار اضافہ کرتے ہیں بالکل اسی طرح کہانی کا پلاٹ ، الفاظ و تراکیب ، کردار ، مرکزی خیال ، چھان پھٹک اور استاد کا ساتھ اسے ہر دل عزیز بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
♨
کہانی لکھنے کا طریقہ
کہانی لکھنا سمجھنے سے پہلے لازم ہے کہ انسان کہانی ، ناول ، فسانہ و ڈرامہ وغیرہ میں فرق جان لے ، یہ چاروں چیزیں واقعات پر ہی مبنی ہوتی ہیں اور ان میں پلاٹ ، کردار ، سسپنس اور الفاظ و تراکیب موجود ہوتی ہیں لیکن طوالت ، اختصار ، کردار اور انداز کے معاملے میں تھوڑا بہت فرق موجود ہوتا ہے ۔
کہانی دراصل کسی سچے یا فرضی واقعے کو کہتے ہیں جبکہ ناول اس کے مقابلے میں طویل اور فرضی واقعہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک کردار کی پوری زندگی کا احاطہ پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح افسانہ بھی اک فرضی مگر مختصر قصہ ہوتا ہے جس میں مرکزی کردار کی زندگی کا کچھ حصہ بیان کیا جاتا ہے اور ڈرامہ مکمل طور پر مکالمہ کے انداز میں ایک کہانی ترتیب دیے جانے کو کہتے ہیں جس میں متفرق کردار ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں کہانی لکھنے کے طریقے کی جانب تو سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ:
🔴 کہانی چونکہ ماضی کا واقعہ ہوتا ہے اس لیے اس میں ہمیشہ ماضی کے صیغے استعمال ہونے چاہییں۔
🔴 کہانی ہمیشہ کسی خاکے اور پلاٹ پر لکھی جاتی ہے اور آخر میں سبق دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ پر اگر ” لالچ “ کے موضوع پر کہانی لکھنا چاہتے ہیں تو اس کہانی کا پلاٹ اور خاکہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی معاملے میں لالچ کرتا ہے جس کا انجام اسے بھاری نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔ جس کہانی کا پلاٹ اور خاکہ جتنا زیادہ مضبوط اور اچھا ہوگا ، وہ کہانی اسی قدر عمدہ شمار ہوگی ۔ جس طرح پوش علاقے کے پلاٹ پر مکان ، ویران علاقے کے پلاٹ پر مکان سے زیادہ قیمتی اور معیاری گردانا جاتا ہے بالکل اسی طرح عمدہ پلاٹ پر تعمیر کی گئی کہانی دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔
🔴 کہانی میں معلومات، تناظر ، اسلوب ، منظر کشی ، ڈائیلاگ، مکالمہ سب ہی کچھ ہوتا ہے مگر اس میں تکرار سے بچنا چاہیے کیونکہ الفاظ کی تکرار پڑھنے والے کو اچھی نہیں لگتی ۔ اس کے لیے مترادف الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔ یعنی پہلی بار نام اور پھر آگے آنے والے جملوں میں نام کی جگہ ” وہ ، اس ، اسے ، اس کی ” وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال نام کی تکرار سے بچاتا ہے۔
🔴 کہانی لکھتے وقت اس میں میں کوئی بھی مبہم ترکیب ، محاورہ یا مقولہ ، شعر اور مصرع لکھنے سے پرہیز ضروری ہے کیونکہ جو چیز لکھنے والے پر واضح نہ ہو وہ قاری پر خاک اثر کرے گی ۔
🔴 کہانی نہ تو اتنی لمبی ہو کہ پوری کتاب بن جائے اور نہ ہی اتنی مختصر ہو کہ ایک پیراگراف لگے اور بات ہی مکمل نہ ہو۔
اک جان دار کہانی میں مندرجہ زیل باتوں کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
💢 نمبر 1: جذبات کی صحیح صحیح ترجمانی.
💢 نمبر 2: منظر کشی اور منظر نگاری۔
💢 نمبر 3: مکالمہ اور ڈائیلاگ۔
💢 نمبر 4: کہانی کا اچھا پلاٹ اور عمدہ خاکہ۔
💎 کہانی میں پیش کیا جانے والا منظر اتنا حقیقی ہو کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اس کا حصہ محسوس کرے یعنی اسے وہ سب اپنے ارد گرد کی فضا کے مطابق لگے۔
💎 کہانی کے کرداروں کی آپس میں بات نقل مطابقِ اصل معلوم ہو رہی ہو ۔ یعنی ڈائیلاگ احساسات ، برجستگی و انداز میں روزمرہ زندگی سے مطابقت رکھتے ہوں تاکہ کہانی حقیقت کے قریب ترین لگے ۔
💎 بعض اوقات ایک کہانی اندر دوسری کہانی بھی چل رہی ہوتی ہے اگر ایسا موقع ہو تو ان میں تسلسل اور ربط ٹوٹنا نہیں چاہیے۔
آغاز میں چھوٹے چھوٹے اخلاقی موضوعات پر کہانیاں لکھنے کی کوشش کرنی چاہیے پھر بتدریج ہر موضوع پر لکھتے چلے جائیں ۔
شروع شروع میں اپنی اختراع کی کہانی لکھنا اور کہانی کا تسلسل برقرار رکھنا کافی مشکل ہوتا ہے، اس لیے سب سے پہلے خاکہ ترتیب دیا جا سکتا ہے ۔ باقی نقطہ کمال تک پہنچنے کیلئے مطالعہ ، محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ کسی ماہر استاد سے اصلاح لینا شرط ہے ۔ اسی طرح منظر کشی ، جذبات نگاری اور کردار نگاری پر قلم رواں ہوتا ہے اور تحریر کے موتی پھوٹتے ہیں۔