انتھونی پوزو / انگریزی سے اُردو ترجمہ : رؤف کلاسرا
پچاس سال قبل میرے والد ماریو پوزو کو ناول ”دی گاڈ فادر“ لکھنے کا خیال آیا۔ میرے والد کی معاشی حالت خراب تھی۔ جہاں وہ خود مایوس تھے وہیں قرض میں ان کا بال بال جکڑا ہوا تھا۔ انھوں نے اسی وقت ہی ایک شاہکار ناول لکھنے کی ٹھان لی۔
شروع میں ان کے دو ناولز پر تبصرے تو بہت اچھے آئے لیکن ان کی فروخت سے انھیں مالی فائدہ کچھ نہیں ہوا۔ انھیں اس وقت احساس ہوا کہ اب کچھ بڑا کرنے کا وقت تھا، ورنہ جیسے ان کی فیملی، دوست اور قرض خواہ کہتے تھے کہ یا تو کچھ کر کے دکھاؤ یا اب بس کر دو۔
میرے والد کے پبلشر چاہتے تھے کہ وہ انھیں کوئی کتاب مافیا پر لکھ کر دیں لیکن اس میں ایک مسئلہ تھا۔
میرے والد اکثر کہا کرتے تھے کہ انھیں یہ سوچ کر ہی پشیمانی ہوتی تھی کہ عمر بھر ان کی کسی اچھی نسل کے اچھے بدمعاش یا غنڈے سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ( اگرچہ ایک مافیا بدمعاش نے بعد میں کہا تھا کہ پوزو کو ہماری مافیا کی زندگیوں کا مکمّل علم تھا۔ اسے ہمارے ماحول کا سب اندازہ تھا کہ ہم کیسے باتیں کرتے ہیں۔ یا تو وہ کسی مافیا کے بندے سے مدد لے رہا تھا یا پھر وہ کوئی بہت بڑا جینئس تھا۔)
تاہم جب میرے والد بڑے ہو رہے تھے تو انھوں نے اس وقت سے کئی کہانیاں سُن رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس موضوع پر کئی کتابیں بھی پڑھ رکھی تھیں۔ انھیں لگا کہ اب وہ مافیا کو نئی شکل میں سامنے لا سکتے تھے۔
انھوں نے خود کو گھر کی بیسمینٹ کے ایک کمرے میں بند کر لیا اور لکھنا شروع ہوگئے۔ وہ اکثر اپنے بچوں کو زور سے ڈانٹتے کہ شور مت کرو ، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ ہم بچّے ان کی اس بات پر ہنستے اور الٹا مزید شور کرتے۔
دراصل اس ناول ’دی گاڈ فادر‘ کی بہت بڑی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنے ناول کو خاندانی روایات پر کھڑا کیا تھا۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ اٹالین لوگوں سے زیادہ کوئی خاندانی روایات کا پاس نہیں کرتا تھا۔ اس لیے وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اٹالین لوگ مافیا میں ہیں۔
وہ اکثر کہا کرتے کہ آپ کو پتہ ہے گاڈ فادر کیا ہے؟ یہ ایک خاندان کی دلوں کو گرمانے والی کہانی ہے جو شاندار اور مضبوط روایات کی حامل ہے۔
اٹلی میں آپ اپنے والدین کے قریبی دوستوں کو گاڈ فادر کہتے ہیں۔ اس ناول سے پہلے کبھی کسی نے غنڈوں کے لیے گاڈ فادر کا لقب استعمال نہیں کیا تھا۔ مافیا کا بھی نہیں ہوا تھا۔ (میرے باپ کے اس ناول سے پہلے اس ٹرم کا کہیں ذکر تک نہیں ہوتا تھا۔)
میرے والد اس بات سے بھی دل بہلاتے کہ وہ ( مافیا ) کبھی کبھار لوگوں کو قتل بھی کرتے ہیں وہ بھی صرف بُرے لوگوں کو۔ کیا یہ بات لوگوں کو اچھی نہیں لگے گی کہ کوئی ایسا بندہ بھی ہونا چاہیے جس کے پاس وہ انصاف لینے جائیں اور کورٹ کچہری میں ذلیل ہونے سے بچ جائیں؟
اس ناول کے کرداروں کے ذریعے میرے والد نے میرے بھائیوں اور بہنوں کی آوازوں کو سُنا۔
آپ کو عجیب سی بات لگے گی لیکن انھوں نے ناول ’ دی گاڈ فادر ‘ کا کردار اپنی ماں کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا تھا۔ میرے والد کے بقول جب بھی گاڈ فادر ویٹو کارلیون بات کرنے لگتا تو ان کو اپنے ذہن میں لگتا جیسے ابھی ان کی ماں بولنے لگی ہے۔
انھوں نے اپنی ماں سے ذہانت، سختی اور خاندان کے لیے ناقابلِ تسخیر محبّت کی باتیں سنی ہوئی تھیں۔ ڈان ویٹو کی بہادری اور وفا داری سب کچھ انھوں نے اپنی ماں سے مستعار لی تھی۔ ڈان ویٹو کی طرح میرے والد کی ماں بیک وقت بہت خوش اخلاق اور بے رحم بھی ہو سکتی تھی۔ ( اگرچہ میری دادی ہمیشہ مجھ سے پیار سے پیش آتی تھی سختی سے نہیں۔)
’دی گاڈ فادر‘ کی اشاعت بہت بڑی کامیابی تھی۔ میرے والد نے کبھی سوچا تک نہ تھا کہ یہ ناول اتنا کامیاب ہو گا۔ یہ ناول دی نیویارک ٹائمز کے بیسٹ ناول کی فہرست پر کئی ماہ تک رہا۔ میرے والد نے آخر ایک شاہکار ناول لکھا تھا جس کا انھوں نے دعویٰ کیا تھا۔
تاہم میرے باپ پر تنقید بھی کی گئی کہ انھوں نے مافیا کو گلیمرائز کیا تھا۔ لیکن میرے والد کا ماننا تھا کہ اگر آپ اصلی ناول نگار ہیں تو پھر آپ کا بنیادی کام کہانی سنانا ہے۔
اگر آپ نے اخلاقیات کا جھنڈا اٹھانا ہے تو پھر نان فکشن لکھنا چاہیے۔ وہ خود کو ایک رومانوی ادیب سمجھتے تھے جس کو شیطان سے بھی ہمدردی تھی۔
ان کا ماننا تھا کہ بزنس مین مافیا سے بھی بڑے بدمعاش تھے، خصوصاً ہالی ووڈ کے بڑے بڑے نام۔ ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں سکرین پلے لکھنے کے بعد انھیں احساس ہوا تھا کہ لکھاریوں کے ساتھ کتنا بُرا سلوک کیا جاتا تھا۔ ہالی ووڈ کے لوگ آپ کے ساتھ بڑے بڑے دھوکے کریں گے ، اگر آپ نے آنکھیں کُھلی نہ رکھیں۔
چند برس بعد ’دی گاڈ فادر‘ فلم نے آسکر اکیڈمی میں بیسٹ فلم اور بیسٹ سکرین پلے کے ایوارڈز جیتے۔ میرے والد نے آسکر جیتا حالانکہ انھوں نے سکرین پلے فارمیٹ کو کبھی سٹڈی تک نہیں کیا تھا، نہ انھیں اس کے بنیادی نکات کا علم تھا کہ سکرین پلے کیسے لکھے جاتے ہیں۔ لیکن انھیں ایک اندازہ تھا کہ ان کے تخلیق کیے گئے کرداروں کو کیسے بات کرنی چاہیے۔
فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کوپولا نے ایک دفعہ یاد دلایا کہ کیسے ناول کے ایک اہم کردار کلیمنزا کا حلیہ کچن میں زیتون کے تیل میں لہسن برائون کرتے ہوئے لکھا گیا تھا۔ میرے والد نے اس پر ایک کراس لگا کر لکھا تھا کہ ”مافیا بدمعاش برائون نہیں کرتے وہ سیدھا فرائی کرتے ہیں۔“
فلم ’دی گاڈ فادر پارٹ ٹو‘ کے لیے میرے والد نے فیصلہ کیا کہ بہتر ہو گا کہ اب وہ پہلے ایک کامیاب سکرین پلے گائیڈ پڑھ لیں۔ اس گائیڈ کے پہلے ہی باب میں اس کے مصنّف نے لکھا تھا کہ اب تک جو بہترین سکرین پلے لکھے گئے ہیں ان میں سے ’دی گاڈ فادر‘ ایک تھا۔ یہ جملہ پڑھ کر میرے والد نے گائیڈ بک بند کر دی اور پھر کبھی اس موضوع پر کچھ نہیں پڑھا۔
ہالی ووڈ نے لکھاریوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا۔ لکھاریوں کے پاس کوئی طاقت نہیں تھی۔ آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ جس سکرین پلے رائٹر کو دو دفعہ آسکر ایوارڈ مل چکا تھا، اس کے فلم پروڈیوسر کی گرل فرینڈ بھی اس کے ڈائیلاگز کو تبدیل کرا سکتی تھی۔
میرے والد کی ہمیشہ خواہش رہی کہ زندگی میں کاش وہ زیادہ محنت کرتے۔ وہ اکثر اپنے بارے میں کہتے تھے کہ جو وقت سیریس کام کا ہوتا ہے میں محض ٹائم پاس کرتا رہتا ہوں۔ تاہم انھیں زندگی میں جو چیز سب سے پسند تھی وہ لکھنا تھا۔ آخر انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ ’دی گاڈ فادر‘ اور دیگر ناولز کم از کم ان کی اتنی بُری وراثت بھی نہیں تھے۔
وہ اپنی زندگی کے آخری ہفتے میں بہت بیمار تھے لیکن پھر بھی وہ اپنا آخری ناول “Omerta” مکمّل کرنے پر تلے ہوئے تھے اور انھوں نے مرنے سے قبل اسے مکمّل کیا۔
وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ”مجھے یہ سوچ کر ہی خوشی ہوتی ہے کہ میں اپنے ڈیسک پر بیٹھا ہوں اور جونہی میں آخری لفظ لکھتا ہوں اس کے ساتھ ہی وہیں میری رُوح نکل جاتی ہے“ اور تقریباً یہی کچھ ہوا تھا۔
گاڈ فادر | ناول | ماریو پوزو ، انگریزی سے اُردو ترجمہ: رؤف کلاسرا ، پبلشر بک کارنر ، جہلم