عمران خان، پاکستانی وزیراعظم انٹرویو کے دوران

عمران خان آخری پتہ بھی غلط کھیل گئے ، اب کیا ہوگا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

پاکستانی سیاست اپنی تاریخ کے دلچسپ ترین اور سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ سترہ دسمبر کو سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی ۔

اس اعلان کا سیدھا اور سادا مطلب تھا کہ 23 دسمبر کو پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی گورنر پنجاب بلیغ الرحمن ( جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے ) کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجیں گے اور صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان گورنر خیبر پختون خوا غلام علی ( جن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ سے ہے ) کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجیں گے۔

تاہم یہ سیاسی کھیل کا یہ مرحلہ جتنا سیدھا اور سادا ہے ، اتنا ہی پیچیدہ لیکن پرجوش ہے۔ہم اپنے پچھلے کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ اگرچہ چودھری پرویز الٰہی کہا کرتے تھے کہ پنجاب اسمبلی عمران خان کی امانت ہے ، وہ اشارہ کریں گے تو ہم اسے تحلیل کردیں گے ، تاہم چودھری پرویز الٰہی عملا ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اسمبلی کی مدت پوری کرانا چاہتے ہیں ، بہ الفاظ دیگر وہ جب تک شہبا زشریف حکومت قائم ہے ، اپنی حکومت بھی قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں۔

اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ چودھری پرویز الٰہی نے اس اعلان سے پہلے براہ راست عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ کا اعلان کرکے جوا نہ کھیلیں ۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ محمود خان نے عمران خان کو براہ راست اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے بالواسطہ طور پر یعنی دیگر کئی افراد کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم عمران خان نے دونوں وزرائے اعلیٰ کی بات نہیں مانی۔ اور 23 دسمبر کی تاریخ کا اعلان کردیا۔

اب کیا ہوگا؟

تئیس دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرکے عمران خان نے اپنا آخری پتہ چل دیا جسے وہ ترپ کا پتہ سمجھتے تھے لیکن یہ ترپ کا پتہ نہ تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے اشارے پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹ جائیں گی اور پھر ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوجائے گا ۔ یوں پورے ملک میں عام انتخابات کا ماحول بن جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا ۔

سبب یہ ہے کہ عمران خان اپنے اصل پتے پہلے ہی ضائع کرچکے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب کرکے انھوں نے سب سے اہم مددگار کو ہاتھ سے گنوا دیا۔ پھر انھوں نے لانگ مارچ شروع کیا ، اس خیال سے کہ ان کا ہر ایم این اے اور ایم پی اے اور آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ کا خواہش مند سیاست دان اپنے ساتھ دو ، تین ہزار بندے لائے گا ، یوں ملینز مارچ لے کر اسلام آباد جائیں گے ، حکومت کا دھڑن تختہ کردیں گے اور پھر عام انتخابات منعقد ہوجائیں گے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سیاست دان ، اسٹیبلشمنٹ کا اشارہ نہ پاکر لانگ مارچ میں شریک نہ ہوئے ، یوں عام انتخابات منعقد کروانے کا سارا منصوبہ لاہور کے لبرٹی چوک ہی میں مسمار ہوگیا۔

ایسے میں انھوں نے اخری کارڈ کے طور پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا منصوبہ بنالیا ، لیکن شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ پنجاب میں ان کے اتحادی وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اور خیبر پختونخوا میں ان کی اپنی حکومت اور ایم پی ایز اسمبلیوں کی مدت پوری کرانا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے سیاسی مخالفین اس حقیقت کو بخوبی جانتے تھے، اس لئے وہ نہایت اطمینان سے عمران خان کے سارے کھیل سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے :
عمران خان کی پرویز الٰہی کو پیشکش ، قاف لیگ کو چپ لگ گئی
چودھری پرویز الٰہی کی چال ، عمران خان کو خفت کا سامنا
چودھری پرویز الٰہی کی چالاکی اور عمران خان کی بے بسی

اب عمران خان کے ہاتھ خالی ہیں۔ کوئی بے کار پتہ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ چودھری پرویز الٰہی نہایت تجربہ کار سیاست دان ہیں ، انھوں نے عمران خان کو اسمبلیاں توڑنے کی طرف نہ جانے کا بہتر مشورہ دیا تھا لیکن عمران خان میں اچھا مشورہ ماننے کی صلاحیت کافی کمزور ہے۔ اعلان کرنے کے بعد شاید عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ، پنجاب سے خیبر پختون خوا تک ، ہر کوئی اسمبلیاں نہ ٹوٹنے دینے کا عزم و ہمت لے کر میدان میں کھڑا ہوگیا۔

اب عمران خان کے پاس گیم میں واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ویسے تو خان صاحب یوٹرن نہایت آسانی سے لیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول یوٹرن عظیم لوگ ہی لیتے ہیں ۔ وہ چاہتے تو اس معاملے میں باقاعدہ یوٹرن لے سکتے تھے ، لیکن انھوں نے یوٹرن لینے میں بھی دیر کردی۔ اب گیم اس قدر آگے نکل چکی ہے کہ خان صاحب کھیل میں زیادہ اہم نہیں رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن اچانک اس قدر زور سے کھیل میں واپس آئی ہے کہ ہر کوئی حیران رہ گیا ہے۔ اس نے ایک منٹ کے وقفے سے دو فیصلے کئے ۔ پہلا گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ دیا ، دوسرا ، چودھری پرویز الٰہی ، سپیکر اور ڈپی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی۔

اگرچہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے بلیغ الرحمان 21دسمبر کو وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ رہے ہیں لیکن شاید ایسا نہ ہو۔ یہ معاملہ ایک قانونی جھگڑے کی شکل اختیار کرے گا ، اور پھر عدالتوں میں چلا جائے گا۔ وہاں اس پر کئی روز لگ سکتے ہیں ۔ جب اس پر فیصلہ آئے گا ، تو ممکن ہے کہ بات سپریم کورٹ تک جا پہنچے۔ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ قاف ، دونوں اس معاملے کو طول دینا چاہتی ہیں۔ جب سپریم کورٹ سے فیصلہ آئے گا تو اس معاملے کو مزید کھینچنے کے لئے دونوں جماعتوں کے پاس کافی پوائنٹس ہوں گے۔

اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ کی طرف نہیں جاتا تو بھی تحریک عدم اعتماد کا موقع موجود ہے۔ اس کے پراسیس میں بھی کئی دن لگتے ہیں ۔ اہم ترین اور دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پی ڈی ایم اور مسلم لیگ قاف کی باہمی خفیہ انڈرسٹینڈنگ سے جمع کی گئی ہے ۔ یہ بھی کوئی راز نہیں رہا۔

عمران خان بھی اس سارے کھیل کو بے بسی سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کیا کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اگر ہاکی یا فٹ بال کے میچ میں کسی نسبتا کمزور ٹیم کو برتری حاصل ہوجائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کھیل کا وقت پورا ہونے تک گیند مخالف ، طاقتور ٹیم کے کھلاڑیوں کے پاس نہ جانے دے ، وہ اسے اپنے پاس ہی رکھتی ہے ، یوں وقت گزارتی ہے۔ اس وقت پنجاب کے سیاسی میدان میں بعینہ یہی کچھ ہورہا ہے ۔ اگلے کئی مہینوں تک ، کھیل اسی انداز میں چلتا رہے گا۔

اب عمران خان چودھری پرویز الٰہی کو رام کرنے کے لئے متحرک ہوئے ہیں۔ انھوں نے فوری طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کمیٹی بنادی ہے اور چودھری پرویز الٰہی سے کہا ہے کہ وہ جتنی سیٹیں چاہیں ، انھیں دیدی جائیں گی۔ عمران خان کی اس چال کا مقصد چودھری پرویز الٰہی کو پی ڈی ایم کی طرف جانے سے روکنا ہے۔ وہ بھلا کب رکنے والے ہیں۔ وہ بھی اپنے لئے زیادہ آپشنز پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ پی ڈی ایم سے رابطے رکھ کر عمران خان کو ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور عمران خان سے رابطے رکھ کے پی ڈی ایم سے بہتر ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔

عمران خان کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر چودھری پرویز الٰہی نے اگلے الیکشن میں قومی اسمبلی کی 15 اور صوبائی اسمبلی کی 30 نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کردیا ہے۔چند روز پہلے تک عمران خان انھیں اٹھائیس سیٹیں ( چھ قومی اور 22صوبائی ) دینے کی پیشکش کر رہے تھے لیکن ان کی شرط تھی کہ پرویز الٰہی اور ان کے تمام ساتھی تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے پر انتخاب لڑیں گے۔

اگر دیکھا جائے تو انھوں نے یہ پیشکش کرکے پرویز الٰہی اور قاف لیگ کی بے عزتی کی تھی ۔ اس وقت عمران خان اپنے آپ کو طاقتور محسوس کر رہے تھے لیکن اب وہ بے بس ہیں۔ انھوں نے دنوں میں اپنی یہ طاقت گنوائی ہے۔بہر حال کم از کم عمران خان کے مقابلے میں پرویز الٰہی اپنے آپ کو طاقت ور محسوس کر رہے ہیں ۔ اسی لئے وہ قومی اسمبلی کی 15 اور صوبائی اسمبلی کی 30 نشستیں مانگ رہے ہیں۔

چودھری پرویز الٰہی قومی اسمبلی کی ایسی 15 اور صوبائی اسمبلی کی 30 نشستیں مانگ رہے ہیں جہاں مسلم لیگ ن کی پوزیشن کمزور ہے ، اس سے پہلے عمران خان ایسی تمام سیٹیں قاف لیگ کو دینے سے انکار کرچکے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اب عمران خان کیا مسلم لیگ قاف کی یہ فرمائش پوری کر سکیں گے؟ عمران خان کے لئے یہ کافی مشکل سوال ہے۔ وہ سخت مشکل میں ہیں۔

پس! ثابت ہوا کہ اس سارے کھیل میں پنجاب اسمبلی جہاں ہے ، وہی پڑی رہے گی ، کم از کم اگلے برس جون تک ، اسے کچھ نہیں ہوگا۔ عدالتیں اسمبلیوں کے معاملات پر آئے روز قانونی موشگافیوں کو سنیں گی اور ان میں حصہ لیں گی۔ اس دوران میں ممکن ہے کہ عدالتیں اپنے کئی فیصلے واپس لیں۔مثلا منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار نہ ہونے کا فیصلہ۔

جہاں تک خیبر پختون خوا اسمبلی کا معاملہ ہے ، وہاں بھی کوئی دلچسپ صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جو کے پی کے اسمبلی کی تحلیل کے عمل میں رکاوٹ پیدا کردے گی۔ اور پھر وہاں بھی پنجاب ایسے قانونی مسائل پیدا ہوجائیں گے ، چنانچہ لوگ عدالتوں کی طرف رخ کریں گے ۔ وہاں جو بھی کھیل تماشہ لگے گا ، اس کا سارا سکرپٹ تحریک انصاف خود لکھے گی ، خود ہی اس کی ہدایت کاری کرے گی اور زیادہ تر اداکار بھی اس کے اپنے ہوں گے۔

اگلے سال کم از کم اگست تک عمران خان زمان پارک میں اپنے اصولی موقف کا اعادہ کرتے رہیں گے ، جلد انتخابات کا مطالبہ کرتے رہا کریں گے ۔ ہاں ! اس دوران میں ، اگر پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوگئی تو خان صاحب گرفتاری سے بچنے کے لئے فورا پشاور جا بیٹھیں گے۔

اب بہت جلد عمران خان کے اراکین قومی اسمبلی واپس قومی اسمبلی پہنچ کر ہر روز سپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ کریں گے کہ ان کے اجتماعی استعفے منظور کیے جائیں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے۔ اسی انداز میں آنے والے سات آٹھ ماہ گزر جائیں گے۔ حتیٰ کہ وہ وقت آجائے گا ، جب شہباز شریف حکومت اپوزیشن لیڈر سے مشاورت سے نگران سیٹ اپ قائم کریں گے۔ ( بادبان عبید اللہ عابد )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “عمران خان آخری پتہ بھی غلط کھیل گئے ، اب کیا ہوگا؟”

  1. Shahid Abbas Avatar
    Shahid Abbas

    برحال یہ حقیقت ہے کہ بادبان میں زائدہ تر عمران خان کے خلاف ہی لکھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں پر عبید بھائی آپ کی بات کچھ ماننے والی ہیں۔ان سیاست دانوں کی لڑائی اور اسٹیبلشمنٹ کا اس میں شمولیت ہمارے ملک کو تباہ و برباد کر دے گی۔عمران خان بھی اپنی ضد میں ہیں اور تھوڑا سا بھی ملک کا خیال نہیں کر رہے جبکہ ن لیگ والے تو ہیں ہی نا اہل ان کو بس سیاست آتی ہے ملکی حالات ان کے کنٹرول کے باہر ہیں۔ کوئی سمجھدار بندہ مجھے یہ سمجھا دے کہ آخر اس ملک کی بہتری کس میں ہے۔ جماعت اسلامی والوں کو اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں آنے دے گی اگر وہ حکومت میں آ گئی تو عمران خان کی طرح ان پر بھی وار کر کے عوام کے دل سے اتارا جائے گا۔
    ہماری اسٹیبلشمنٹ ہی ہمارے ملک کا حل ہے اور یہ ہی برباد کر رہی ہے۔