مسلمان خاتون کرسمس کے موقع پر گفٹ پکڑے ہوئے

کیا کرسمس پر مبارک دینا شرک ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عمران عمر

ایک صاحب جن کا نام مائیکل ہے. ان کی سالگرہ کے دن کے موقع پر ان کے ایک دوست انھیں کچھ تحفہ دینا چاہتے ہیں . وہ تحفے کے سلسلے میں ایک اور مشترکہ دوست سے مشورہ کرتے ہیں تو وہ دوست تحفہ دینے سے منع کرتا ہے . پرزور اصرار پر وجہ یہ بتائی کہ لوگ کہتے ہیں مائیکل ولد الزنا یا عام الفاظ میں حرام/ زنا کی اولاد ہے. اگر ہم اسے اس کی پیدائش کے موقع پر تحفہ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اسے ولد الزنا قرار دے رہے ہیں اور لوگوں کے موقف کو صحیح قرار دے رہے ہیں ۔ تحفہ دینے والے دوست نے لاکھ سمجھایا کہ اسے تحفہ دینے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اسے حرامی قرار دے رہے ہیں لیکن مشورہ دینے والے صاحب اپنے موقف سے ٹس سے مس نہ ہوئے ۔

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک دوست کو سالگرہ کا تحفہ دینے کا اس کی پیدائش کے حالات سے کچھ تعلق ہے؟

آئیے ! ” کرسمس مبارکباد ” کے مسئلے کو ایک اور انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

کہا یہ جاتا ہے کہ چونکہ عیسائی حضرت عیسیٰ کو الله کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور الله کے بیٹے کی پیدائش کو مناتے ہیں . اب اگر ہم انھیں مبارک دیں گے تو شرک لازم آئے گا. اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم بھی اسے الله کا بیٹا قرار دے رہے ہیں . ایک اور بات جو بار بار شد ومد سے سامنے آرہی ہے کہ کرسمس کا مطلب ہے کہ ” خدا کے ہاں بیٹا پیدا ہوا”. آئیے ! ان فتووں کا جائزہ لیتے ہیں :

کیا "ہیپی کرسمس” کہنا شرکیہ کلمہ ہے؟ آپ اوپردی گئی مائیکل کی مثال کو دوبارہ پڑھیں ، اگر مائیکل کی پیدائش کے موقع پر اسے تحفہ دینے کا ہرگز مطلب اسے ” ولد الزنا ” قرار دینا نہیں تو حضرت عیسیٰ کی پیدائش پر مبارک دینے کا مطلب انھیں ” الله کا بیٹا ” قرار دینا کیسے ہو سکتا ہے !

​مزید وضاحت کے لئے ہم اس معاملے کو ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں . آپ جانتے ہیں کہ شیعہ حضرات میں ایسا فرقہ بھی ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا ​سمجھتا ہے. یا کچھ فرقے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اصل میں رسول ہونا چاہیے تھا. اور آپ جانتے ہیں کہ شیعہ کی اکثریت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تمام صحابہ پر تفضیل کی قائل ہے.

اب اگر کوئی شیعہ آپ کے پاس آ کر آپ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کی مبارک دیتا ہے تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا؟ کیا آپ جواباً مبارک دیں گے یا کہیں گے کہ چونکہ ان کے فلاں اور فلاں نظریات درست نہیں ہیں لہذا میں جواباً مبارک نہیں دوں گا. ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کا شیعہ کے باقی نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لہذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت اور شیعہ کے باقی نظریات کو علیحدہ علیحدہ ڈیل کیا جائے گا۔

آئیے اب ایک نظر کرسمس کے مطلب اور اس تہوار کی تاریخ پر ڈالتے ہیں.

1- کرسمس کا تہوار ایک اور (Saturnalia) نام سے حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے سے منایا جا رہا تھا. جب روم کے بادشاہ کانسٹنٹائن نے عیسائیت قبول کی تو اس نے قدیم دور سے جاری Saturnalia کے تہوار کے دن کو حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا دن قرار دیا. بعد میں انگریزوں نے اس کا نام کرسمس رکھ دیا۔

2- حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی تاریخ آج تک صحیح طور پر متعین نہیں ہوسکی . بائبل کے اشاروں کے مطابق حضرت عیسیٰ کی پیدائش اپریل سے ستمبر تک کی تاریخوں کے درمیان کہیں ہوئی ہے.

3- کسی بھی ڈکشنری میں کرسمس کا مطلب الله کے بیٹے کی پیدائش نہیں.

4- Wikipedia پر کرسمس کی تعریف

Christmas is an annual festival commemorating the birth of Jesus Christ, observed most commonly on December 25 as a religious and cultural celebration among billions of people around the world.

5- کرسمس دو الفاظ سے مل کر بنا ہے.

  • Christ مطلب عیسیٰ
  • Mass کا مطلب ہے "The celebration of the Christian Eucharist”
  • Eucharist کا مطلب ہے

"The Christian service, ceremony, or sacrament commemorating the Last Supper, in which bread and wine are consecrated and consumed”

The Last Supper کی تقریب میں عیسیٰ کی موت اور تکلیف کو یاد کیا جاتا ہے.

6- عیسائی کرسمس کو الله کے بیٹے کی پیدائش کے طور پر نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ کی آمد کے طور پر مناتے ہیں. آج کل عیسائیوں کی اکثریت ملحد ہوچکی ہے اور خدا کو بھی نہیں مانتی. اس لیے وہ اسے حضرت عیسیٰ کی پیدائش یا مریم کے بیٹے کی پیدائش کے حوالے سے نہیں بلکہ ایک تہوار کے طور پر مناتی ہے.

​7- ایک اہم بات یہ ہے کہ عیسایت ​میں کچھ فرقے ایسے بھی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے لیکن وہ بھی کرسمس مناتے ہیں. مثال کے طور پر آپ نے مورمن عیسائیوں کا نام سنا ہوگا. وہ کرسمس مناتے ہیں لیکن عیسیٰ کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے.

8- ہمارے ایک دوست بغیر کسی دلیل کے مصر تھے کہ "ہیپی کرسمس” کہنا شرکیہ کلمہ ہے. ہم نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ کس ماہ میں پیدا ہوئے ؟ کہا کہ اپریل میں . ہم نے دوبارہ پوچھا کہ دن کیا تھا؟ کہنے لگے کہ فرائی ڈے کو. ہم نے کہا کہ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو آپ نے ابھی ابھی دو شرک کیے ہیں. حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ وہ کیسے؟ بتایا کہ اپریل مہینہ کا نام ایک گریک خدا کے نام پر رکھا گیا ہے. اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ گریک خدا کے مہینے میں پیدا ہوئے . اسی طرح فرائی ڈے کا دن جرمن خدا کے نام پر رکھا گیا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ جرمن خدا کے دن میں پیدا ہوئے ہیں۔

مندرجہ بالا بحث کا مقصد یہ بتانا تھا کہ "ہیپی کرسمس” کہنے سے شرک لازم نہیں آتا. اور اگر کوئی شخص اپنے کولیگ یا ہمسائیہ کو "ہیپی کرسمس” کہتا ہے تو اس پر مشرک ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا.

یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ کچھ عرصے سے مسلمانوں میں اور خاص طور پر سلفی طرز فکر میں ایک خواہ مخواہ کی شدت پسندی سامنے آرہی ہے اور بات بات پر کفر شرک اور منافقت کے فتوے سامنے آرہے ہیں. یہ ایک بہت خطرناک رجحان ہے. ہم سمجھتے ہیں کہ معاملات کو ان کی حقیقت تک محدود رکھنا چاہیے اور رد عمل کی کیفیت میں غرق ہو کر عوام کو مزید مشکلات سے دوچار نہیں کرنا چاہیے. اگر کہیں آسانی یا اجازت موجود ہے تو احتیاط کے نام پر آسانی یا اجازت کو ختم نہیں کر دینا چاہیے چہ جائیکہ اسلام سے انحراف کے فتوے لگا دیے جائیں.

چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایک دوست کے گھر بیٹھے تھے کہ ان کا چھوٹا سا بیٹا ایک چاکلیٹ لئے ہوئے آیا. ہمارے دوست نے بچے کو سمجھنے کی غرض سے کہا کہ بیٹا ! آپ نے گھر میں موجود چیزیں ( لولی ، چاکلیٹس ) مما یا بابا کی اجازت سے لینی ہوتی ہیں . چپکے چپکے بغیر پوچھے لینا چوری ہوتی ہے . ہم نے دوست کو بتایا کہ چوری کا یہ کانسیپٹ بچے کے لئے ٹھیک نہیں ہے. بھلے آپ جتنا بھی سمجھائیں کہ یہ چوری ہے لیکن بچہ تو بچہ ہے، جب اس کا دل کرے گا وہ چیز لے لے گا. اس سے ہوگا یہ کہ وہ آہستہ آہستہ چوری کو برا سمجھنا چھوڑ دے گا. پھر بڑے ہوکر بھی اس کے لئے چوری کرنا معمول ہی کی بات ہوگی.

اسی طرح مغرب میں پلنے والا ایک مسلم بچہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناجائز/ حرام اور شرک کے فتوے سنے گا تو وہ جائز، ناجائز اور حلال حرام کی اہمیت کھو بیٹھے گا. پھر اس کے لئے ان فتووں کی مستقل طور پر کوئی حیثیت نہیں رہے گی. اگر آپ اسے بتائیں گے کہ "ہیپی کرسمس” کہنا شرک / حرام ہے ( جو کہ نہیں ہے ) اور وہ معاشرے کے پریشر کے زیر اثر یہ الفاظ اس احساس کے ساتھ ادا کرتا ہے کہ حرام ہے لیکن کیا کروں. یہ احساس جو آپ کی غلطی کی وجہ سے پیدا ہوا، اب اس بچے سے اور بھی بہت سی غلطیاں کروائے گا. اس لئے بہتر ہے کہ جہاں رخصت موجود ہو وہاں ان اصطلاحات میں بات نہیں کرنی چاہیے.

کیا کرسمس کی تقریبات میں شرکت کی جاسکتی ہے؟ یہ بالکل ایک علیحدہ موضوع ہے. اور اس پر الگ سے بات ہونی چاہیے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “کیا کرسمس پر مبارک دینا شرک ہے؟” جوابات

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    محترم عمران صاحب آپ نے ایک حساس اور عام زیر بحث موضوع پر قلم اٹھا یا ھے۔ مسئلہ یہ ھے کہ منہ ہلا کر فتوی دینا بہت آسان ھے لیکن دماغ لگا کر تحقیق کرنا اور مسلمانوں کو اپنی شناخت کے ساتھ غیر مسلم لوگوں کے ساتھ اخلاقیات کے سماجی تقاضے پورے کرتے ھوئے نبھا کیسے کرنا ھے یہ بتانا بہت مشکل کام ھے جو بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔۔۔ آپ نے بچے کی نفسیات پر چوری اور حلال حرام کے جو گہرے اثرات پڑتے ہیں ان پر بہت زبردست بات کی ھے۔عوام الناس اس کا ادراک نہیں رکھتے اور اس طرح کی گفتگو زیادہ تر سطحی سوچ کے تحت بغیر گہرائی میں جائے کی جاتی ھے۔ ہمیں اپنے بچوں کو دین سے جوڑنے کے لئے بے جا فتووں سے بچانا ھو گا۔ پ نے ایک مختلف سوچ کی عکاس تحریر لکھنے کی جرات کی ھے، wow to you. 🙂

  2. Shahid Abbas Avatar
    Shahid Abbas

    سی صحابی، تابعی اور خیر القرون کے پورے عہد میں مدینہ منورہ سے قیصر وکسری کے ایوانوں تک ، ان عظیم لوگوں نے سفر کیے. مغلوبیت ومظلومیت کے عہد میں بھی اور فاتحانہ شان کے دور میں بھی ، روم کے عیسائیوں سے بھی روابط تھے اور ایران کے مجوسیوں سے بھی ، لیکن کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ ان لوگوں نے کبھی کسی تہوار میں شرکت کی ہو یا مبارک باد دی ہو. بلکہ اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی تربیت یافتہ صحابہ کرام وتابعین عظام کفار کے تہواروں سے براءت اور کامل لاتعلقی کا اظہار کرتے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے والے مسلمان کے بارے میں کہتے وہ روز محشر انہی کفار کے ساتھ اٹھایا جائے گا.
    میں نے یہ پیرا گراف بادبان سے ہی لیا ہے۔ اگر بادبان دو مختلف رائے پیش کرے گا تو قارئین کس کی بات کو سچ مانیں گے۔ آپ کے دلائل اپنی جگہ ٹھیک ہیں پر دلائل جو اوپر اور دوسرے لکھارے نیں دئیے ہیں غلط وہ بھی نہیں ہیں۔
    شاہد عباس
    ملتان،پنجاب