ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
ریسرچ اسکالر کشمیریونیورسٹی ، سرینگر
پہلے یہ پڑھیے
ہند میں اجنبی ( قسط اول )
ہند میں اجنبی ( قسط دوم )
ہند میں اجنبی ( قسط سوم )
ہند میں اجنبی ( قسط چہارم )
دہلی بھارت کی دارالحکومتی عمل داری ہے۔ یہ تین اطرف سے ہریانہ سے گھرا ہوا ہے، جب کہ اس کے مشرق میں اترپردیش واقع ہے۔ یہ ہندوستان کا مہنگا ترین شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1484مربع کلومیٹر ہے۔ 25 ملین آبادی پر مشتمل یہ شہر ممبئی کے بعد ہند کا دوسرا اور دنیا کا آٹھواں سب سے بڑا شہر ی علاقہ ہے۔ دہلی،ممبئی کے بعد ہند کا دوسرا امیر ترین شہر ہے، جس کے کل املاک 450 بلین امریکی ڈالر ہے۔دہلی 18 ارب پتی اور 23000 کروڑ پتیوں کا مسکن بھی ہے۔
دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے ہی آباد ہے۔ دہلی کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے، جو کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔ دہلی میں عہد قدیم اور قرونِ وسطیٰ کی بے شمار یادگاریں اور آثارِ قدیمہ موجود ہیں۔ ’قطب مینار‘اور ’مسجد قوت الاسلام‘ ہندوستان میں مسلم طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔
غدر(1857ء)سے قبل برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہند کے بیشتر علاقوں پر قبضہ جما چُکی تھی اور برطانوی راج کے دوران میں کلکتہ کو درالحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخر جارج پنجمؔ نے 1911ء میں دارالحکومت کی ’دہلی‘ منتقلی کا اعلان کیا اور 1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر ”نئی دہلی“ بسایا گیا ۔
دہلی تابناک ماضی رکھنے والا ایک عظیم شہر ہے جو کئی ہندوستانی حکمرانوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ اس کی ہر اینٹ ایک داستان سناتی ہے اور ہندوستان کے عظیم ماضی کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔
27جنوری2018ء کی رات راقم علی گڑھ سے دہلی پہنچا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے متصل ہری مسجد،باٹلہ ہاؤس میں میرے ایک رفیق شیخ منصور صاحب کرایہ کے مکان میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ اُن کے اصرار پر راقم نے انہیں ’ شرفِ میزبانی ‘ بخشا۔ منصور صاحب بارہمولہ کے مضافاتی گاؤں چکلو میں رہتے ہیں اور شعبہ اُردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پی۔ ایچ۔ ڈی اسکالر ہیں۔
مرنجان مرنج قسم کے شوخ طبیعت بندے ہیں۔ دو راتیں انھوں نے خوب مہمان نوازی کی۔ بعد ازاں محمد شاہد لون صاحب ( پی۔ ایچ۔ ڈی اسکالر، جن کا ذکر پہلی قسط میں ہواہے ) نے باصرار اپنے ’ قلعے ‘ میں ’ قید ‘ کیا ۔ ان کا یہ ’ قلعہ ‘ جامعہ کے نزدیک ہی نور نگر میں واقع ہے ۔ موصوف نے بڑی خاطر تواضع کی ۔ فجر نماز کے بعد ہی بھرپور ناشتہ کراتے تھے ۔ شاہد صاحب رات کو سوتے نہیں بلکہ کتابوں سے لَو لگائے رہتے ہیں ۔ کم گو تو نہیں البتہ کم نوم و کم طعام ہیں۔
چند ایام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مختلف شعبوں میں جا کر اساتذہ صاحبان سے ملاقات رہی۔ کشمیر کے طلباء سے بھی گفتگو کا موقع ملا۔ فہیم عبدالمنیب صاحب ( بارہمولہ ) ، عبد الباسط صاحب ( ہند وارہ ) نے ایک رات عشائیہ پر مدعو کیا جو کہ راقم نے بطیّب خاطر قبول بھی کیا ۔ علی جاوید فرزند ڈاکٹر جاوید جمیل صاحب ، جنھیں چند سال قبل فلاح الدارین کی طرف سے بارہمولہ مدعو کیا گیا تھا ، سے بھی ملاقات ہوئی ۔ اُن کی گفتگو سُن کر اُن کی ذہنی بلوغت کا احساس ہوا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ ، اوکھلا کے جامعہ نگر علاقے میں واقع ہے ۔ کیمپس اتنا وسیع تو نہیں ۔ عوام کے عبور و مرور کے لیے بنی سڑک کے اطراف میں مذکورہ یونیورسٹی کا کیمپس ہے ۔ ایک طرف ’ ایوانِ غالبؔ ‘ اور سڑک کی دوسری جانب ’ باب ابو الکلام آزاد ‘ ہے ۔ شعبہ جات بکھرے پڑے ہیں ۔ ’ ایوانِ غالب ‘ کے صدر دروازے پر چچا غالبؔ کا پُتلا آپ کے استقبال کے لئے مستقل طور کھڑا ہے ۔ بادِ تُند ہو یا موسلا دھار بارش ، غالبؔ کا پتلا ہاتھ میں ’ کتاب ‘ لئے علم کی پیاس کو بجھانے کی ترغیب دیتا رہتا ہے ۔
’ ایوانِ غالب ‘ کے صحن میں طلبا و طالبات کا جمِ غفیر رات دیر گئے تک کینٹین کا ’ محاصرہ ‘ کئے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ ذہن سازی کے ساتھ ساتھ ” شکم سیری “ کا وہاں بھی کافی’ شعور ‘ ہے ۔ کشمیر میں اگر ایسا منظر ہو تو انتظامیہ بھیڑ کی روح قبض کرنے کے لئے دفعہ 144 لگالے۔ چائے، کافی ، گرین ٹی کا غیر مختتم دور چلتا رہتا ہے ۔ محمد شاہد صاحب نے راقم کو ’ کافی ‘ کا عادی بنانا چاہا لیکن طبیعت نے اس سے اِبا کیا۔
28 جنوری کو’جامعہ مسجد‘ اور ’ لال قلعہ ‘ دیکھنے کا پروگرام بنا ۔ شاہد لون صاحب اور اُن کے گلے کا ’ ہار ‘ ڈی۔ایس۔ایل۔آر کی رفاقت تھی ۔ میٹرو نے ’ تخت سلیمانی ‘ کا کام دیا ۔ نمازِ ظہر تک ہم مسجد جہاں نما ، جو جامعہ مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے ، پہنچے۔
جامعہ مسجد کو مغل بادشاہ شاہ جہاں ؔنے تعمیر کیا،جو 1656ء میں مکمل ہوئی ۔ یہ پرانی دلی کے معروف ترین تجارتی مرکز ’ چاندنی چوک‘ کے آغاز پر واقع ہے ۔ مسجد کی تعمیر میں اُس زمانے کے 10 لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی۔ شاہ جہاں نے اپنے دور میں دہلی ، آگرہ ، اجمیر اور لاہور میں بڑی مساجد تعمیر کرائیں ۔ مسجد ھٰذا کے صحن تک مشرقی ، شمالی اور جنوبی تین راستوں سے بذریعہ سیٹرھیاں رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مسجد کے شمالی دروازے میں 39، جنوب میں 33اور مشرقی دروازے میں 35سیڑھیاں ہیں۔
مشرقی دروازہ شاہی گزرگاہ تھی، جہاں سے بادشاہِ وقت مسجد میں داخل ہوتا تھا۔ مسجد 261 فٹ طویل اور 90 فٹ عریض ہے۔ اس کی چھت پر تین گنبد نصب ہیں۔ 130 فٹ طویل دو مینار بھی مسجد کے رُخ پر واقع ہے۔ مسجد کے عقبی جانب چار چھوٹے مینار بھی چاندنی چوک کا ’ نظارہ ‘ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
نمازِ ظہر ادا ہو چُکی تھی۔ اس لیے ہم نے وہیں دوگانہ انفرادی طور پر ادا کی۔ مسجد کے صحن میں ہر نسل ، رنگ ، ذات پات اور مذہب کے ماننے والے ، ہند و بیرونِ ہند سے آئے ہوئے سیّاح آپ کو ” سیلفی “ کھینچتے دکھائی دیں گے ۔ مرد و زن کا اختلاط ، سیلفی اسٹکس کی بھرمار ، شور و غوغا ، حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرنے والے کیمرے …… ان سب چیزوں نے مسجد کا تقدس پامال کیا ہوا ہے۔
جامعہ مسجد دہلی اب معبد خانہ نہیں بلکہ سیاحتی مقام کا روپ دھار چکا ہے ۔ مسجد کی موجودہ حالت کسم پرسی کا رونا روتی ہے ۔ شاہ جہاں کی روح مسلمانانِ ہند پر ماتم کناں ہو گی ۔ نذر و نیاز کے لیے چندہ جمع کیا جاتا ہے لیکن مسجد کے ظاہری آثار ’ مفلسی ، قلاشی اور مفلوک الحالی‘ کا رونا روتے ہیں۔ اس مسجد کے قرب و جوار میں آپ کو تقریباً سب کچھ ملے گا سوائے ’ روحانیت ‘ کے۔۔۔!
جامعہ مسجد سے نکل کر ہم رکشا پر سوار ہوئے اور لال قلعہ کی راہ لی ۔ پَون گھنٹہ بعد ہم اس عمارت کے قریب تھے جس کی اینٹ اینٹ مسلمانوں کے تابناک ماضی کی داستان سناتی ہے ۔ یومِ جمہوریہ تقریبات حال ہی میں منعقد ہوئی تھی اس لیے اندر جانے کی کسی بھی عام شہری کو اجازت نہ تھی۔ صرف منظور ِنظر لوگ اُس دن ’ لال قلعہ‘ کی پر شکوہ فصیلوں کے اُس پار جا سکتے تھے ۔ ہند و بیرونِ ہند سے آئے ہوئے سیاح باہر ہی ایک میدان میں دشتِ نوردی کا لطف لے رہے تھے۔
یومِ جمہوریہ پر ہندوستانی ریاستوں کی تہذیب و ثقافت کو جھانکیوں کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔وہ سبھی جھانکیاں وہیں میدان میں موجود تھیں ۔ اکثر سیاّح ان کے سامنے یادگاری تصاویر لے رہے تھے ۔ میں بھی وادی بے اماں کشمیر کی مظلوم جھانکی کے پاس کھڑا عالمِ تخیل میں حال سے ماضی کا سفر طے کر رہا تھا اور تاریک مستقبل کے اندیشوں میں گرا ہوا تھا۔ کچھ لمحوں بعد ماضی کی سیر کرکے حال کی طرف لوٹ آیا تو شاہد لون صاحب کو DSLR سے عکس بندی کرتے ہوئے پایا ۔ دریائے جمنا کے نزدیک واقعہ’لال قلعہ‘ مغلیہ سلطنت کے سنہری دور کی یاد گار ہے۔ حالانکہ ’جمنا‘ وقت کے گال پر بہتے بہتے اب نا پید ہو چکی ہے۔ وہ ندی اب وہاں موجود ہی نہیں۔
’لال قلعہ‘ کو سترہویں صدی میں شاہِ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ اس قلعے کے دیوان خاص میں ” تخت ِ طاؤس“ واقع ہے، جہاں بیٹھ کر مغل بادشاہ ہندوستان کے طول و عرض پر حکومت کرتے تھے ۔ یہ سلسلہ 1857ء تک جاری رہا۔ 1857ء سے 1947ء تک’لال قلعہ‘ برطانوی فوج کے قبضے میں رہا اور اس میں انھوں نے اُس زمانے کے آزادی کی جدوجہد کرنے والے”باغیوں“ کو قید رکھا تھا۔
قلعے کے دو دروازے ہیں، جن میں سے ایک ’دلی دروازہ‘ جبکہ دوسرا ’ لاہوری دروازہ ‘ کہلاتا ہے۔ جب یہ قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اس وقت دریائے جمنا اس کے عقب کے دیواروں کو چھو کر گزرتی تھی۔ لیکن اب وہ کچھ فاصلے پر بہتا ہے ۔ آزادی کے بعد سے اب تک ہر سال ہندوستان کے حکمران قلعے کی فصیل سے، جو کہ مسلمانوں کی دین ہے ، قوم کو خطاب کرتے ہیں اور وہیں ترنگے کو سہارا بخشتے ہیں۔( جاری ہے )