عمران خان ، سابق وزیر اعظم پاکستان ، چئیرمین تحریک انصاف

عمران خان کی طرف سے مذاکرات پیشکش ، شہباز شریف حکومت نے کیوں ٹھکرائی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

نو اور 10 اپریل سن 2022 کی درمیانی شب ، اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد جناب عمران خان نے زیادہ تر وقت صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گزارا۔ پھر 25 مئی کو وہ ایک لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوئے ، انھوں نے ڈی چوک پہنچنا تھا ، جہاں سے ان کا لانگ مارچ ممکنہ طور پر پارلیمان اور وزیراعظم ہائوس کا محاصرہ کرتا ، اور پھر شہباز شریف حکومت ختم ہوجاتی ۔ یہ تھا منصوبہ لیکن وہ اپنے لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ضرور ہوئے لیکن ڈی چوک سے کئی کلومیٹر دور ، اپنے لانگ مارچ کو چھوڑ کر ، پھر پشاور جا پہنچے۔

انھوں نے ایسا کیوں کیا ؟ کہا جاتا ہے کہ انھیں کسی ” خاص جگہ ” سے پیغام ملا تھا کہ تصادم سے گریز کرو۔ تاہم ایسا ہرگز نہیں تھا ، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ میں ( اس وقت موجود ) ان کی لابی تو چاہتی تھی کہ ٹکرائو کی صورت حال پیدا ہو ، اس کے نتیجے میں فوج کو اقتدار سنبھالنے کا موقع ملے گا۔ کیونکہ وہ لابی چاہتی تھی کہ عمران خان کو حکومت نہیں کرنے دی گئی تو شہباز شریف بھی حکومت نہ کرسکیں۔

تاہم لانگ مارچ میں لوگوں کی اس قدر بڑی تعداد شامل نہیں ہوئی تھی جتنی عمران خان اور ان کے پیچھے موجود منصوبہ سازوں کو توقع تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو یہ اشارہ کیا گیا کہ منصوبے کے مطابق مطلوبہ بڑی تعداد میں لوگ جمع نہیں ہوسکے ، اس لئے اب منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا۔

چنانچہ عمران خان نے 25 مئی کو وزیر اعطم شہباز شریف کو چھ دن کا الٹی میٹم دیا کہ وہ ان چھ دنوں میں عام انتخابات کا اعلان کریں بصورت دیگر وہ ایک بار پھر لانگ مارچ لے کر نکلیں گے اور امپورٹیڈ حکومت کو تہس نہس کرکے رکھ دیں گے ۔ پھر چھ دن ہی نہیں گزرے ، چھ مہینے گزر گئے لیکن عمران خان ، شہباز شریف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے ۔ ان کی حکومت اب بھی اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے ۔

اکتوبر کے اواخر میں عمران خان ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کے ارادے سے نکلے . اس بار منصوبہ پہلے سے زیادہ بھرپور بنایا گیا۔ ہر رکن قومی اسمبلی اور رکن صوبائی اسمبلی اور اگلے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ہر خواہش مند کو تین ، تین ہزار افراد اپنے ساتھ لے کر لانگ مارچ میں شریک ہونے کا ہدف دیا گیا۔ لیکن بیشتر ارکان اسمبلی لانگ مارچ میں شریک نہ ہوئے ، ان کے ساتھی کیا شامل ہوتے!! یوں ایک بار پھر لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف نکلنے سے پہلے ہی ناکام ہوگیا۔

25 مئی کا لانگ مارچ ہو یا 28 اکتوبر کا ، چاہے عمران خان بظاہر تسلیم نہ کریں کہ اس میں حسب توقع لوگ بڑی تعداد میں شریک نہیں ہوئے تاہم عمران خان بباطن اس حقیقت کو بخوبی مانتے ہوں گے ۔ اگر 25 مئی کا لانگ مارچ ہو یا 28 اکتوبر کے لانگ مارچ کامیاب ہوتے یعنی غیرمعمولی طور پر بہت بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں وزیراعظم ہائوس تک پہنچنے سے نہ روک سکتی۔

حالیہ لانگ مارچ میں عمران خان نے رفتار اس لئے آہستہ رکھی کہ وہ ارکان اسمبلی کو اپنے لائولشکر کے ساتھ لانگ مارچ کا حصہ بننے کا موقع فراہم کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود کوئی شریک نہ ہوسکا۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس پر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی سے پوچھ گچھ کریں گے کہ وہ خود لانگ مارچ میں شریک ہوئے؟ اگر خود شریک ہوئے تو اپنے ساتھ تین ، تین ہزار افراد لے کر آئے ؟

منصوبہ کے مطابق عمران خان نے لاکھوں لوگوں کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد کی طرف نکلنا تھا ، جب وہ لاکھوں لوگ لے کر اسلام آباد کے قریب پہنچتے تو پشاور سے بھی لاکھوں لوگ اسلام آباد پہنچ جاتے ، یوں پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا ملینز مارچ شاہراہ دستور پر وزیراعظم ہائوس پر بھی قبضہ کرلیتا ، سپریم کورٹ کی عمارت بھی انھیں جھک کر ملتی ، قومی اسمبلی اور سینیٹ بھی ملینز لوگوں کے رحم و کرم پر ہوتے ، ایوان صدر کا مکین بھی سفید شلوار قمیص اور سیاہ شیروانی پہنے ملینز لوگوں کا استقبال کرتا ۔۔۔۔۔ تاہم برا ہوا تحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا ، وہ توقعات پر پورا نہیں اترے ۔ یوں ایوان اقتدار میں عوامی قوت کے ساتھ پہنچنے کایہ عمران خان کا شاندار ، سہانا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

اس کے بعد اگلی ناکامی آرمی چیف کی تعیناتی کے تناظر میں ہوئی ۔ عمران خان جسے آرمی چیف دیکھنا چاہتے تھے ، وہ فوج کا سربراہ نہ بن سکا ۔ اور جسے فوج کا سربراہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے ، وہ آرمی چیف بن گیا ۔ اس کے بعد ، اگر لوگوں کا یہ سوال پوچھنا زیادتی ہے کہ شہباز شریف حکومت کیوں عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش قبول نہیں کررہی؟

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ عمران خان اس وقت سب سے زیادہ عوامی حمایت رکھتے ہیں ( چاہے اس کا سبب کچھ بھی ہو ) لیکن اس کے باوجود مذکورہ بالا تین ناکامیوں نے انھیں نہایت کمزور کردیا ہے ۔ اور مسلم لیگ ن کی عوامی مقبولیت خاصی کم ہوئی ہے لیکن وہ اس وقت نہایت مضبوط مقام پر کھڑی ہے۔ وہ جب چاہے گی ، عام انتخابات منعقد کروائے گی۔

یہ بھی پڑھیے
مہنگائی : اکثر پاکستانی پی ڈی ایم حکومت کو ذمہ دار سمجھتے ہیں

چودھری پرویز الٰہی کی چالاکی اور عمران خان کی بے بسی

اب عمران خان کو ایک اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ وہ لانگ مارچز کی ناکامیوں ، آرمی چیف کی تعیناتی میں نامرادی کے بعد ایک آخری ، اہم ترین پتہ کے طور پر پنجاب ، خیبر پختونخوا اسمبلیوں تحلیل کرنا چاہتے تھے لیکن دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ” عمران خان کے اشارے کے منتظر ہیں ” کا نعرہ لگا کر بھی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اسمبلیاں نہ ٹوٹ سکیں ۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ دونوں صوبوں کے ارکان اسمبلیوں کی تحلیل نہیں چاہتے۔ کیونکہ ان ارکان میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اسے دوبارہ ٹکٹ ملے گا، وہ دوبارہ رکن اسمبلی منتخب ہوگا ۔

یہ ہے صورت حال عمران خان ، تحریک انصاف اور اتحادیوں کی۔ شہباز شریف حکومت اس صورت حال کو دیکھ کر خوب لطف اندوز ہورہی ہے۔ بالخصوص وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کچھ زیادہ ہی مزہ لے رہے ہیں۔ اٹھائیس اکتوبر والے لانگ مارچ کے وقت اور اس کے بعد انھوں نے جو کچھ کہا ، وہ پورا ہوا۔ انھوں نے اٹھائیس اکتوبر کو کہا تھا : فیصلہ کرلیا اب ہر برے کو اس کے گھر تک چھوڑ کر آنا ہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی کی نیت سے آنے والے جتھے کو ایسے انجام سے دوچار کریں گے کہ آئندہ کوئی ایسا سوچے گا بھی نہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ عمران خان کی بھول ہے کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ جائے گا۔

اور پھر وہی ہوا کہ لانگ مارچ اسلام آباد نہ پہنچ سکا۔ اور اس لانگ مارچ کا ایسا انجام ہوا کہ کوئی اور سوچے یا نہ سوچے ، کم از کم عمران خان اور ان کی تحریک انصاف اب جلد نہیں سوچ سکے گی۔

رانا ثنا اللہ نے کچھ پیش گوئیاں بھی کی ہیں ۔ مثلا عمران خان پنجاب اسمبلی توڑنے کا فیصلہ نہیں کر سکے گا۔ اور یہ کہ عمران خان اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اندر جائیں گے یعنی گرفتار ہوں گے۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ وہ عمران خان کو بلوچستان کی مچھ جیل کی مرچی وارڈ میں رکھیں گے ۔

اب دیکھنا ہوگا کہ ان کی یہ پیش گوئیاں پوری ہوتی ہیں یا نہیں ۔ ( بادبان ، عبید اللہ عابد )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں