ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
[email protected]
پہلے یہ پڑھیے
ہند میں اجنبی (قسط اول )
ہند میں اجنبی (قسط دوم )
ہمارے دل عزیز و موثر خطیب ڈاکٹر عبد الروف میر ( بارہمولہ ) بھی اس سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بحیثیت استاد ( شعبہ بیو کمیسٹری فیکلٹی آ ف میڈیکل سائنس ) میں اپنے فرائض انجام دینے کے لئے منتخب ہوگئے۔ اہلیہ کے ساتھ آج کل وہیں عارضی مکان میں سکونت پذیر ہیں ۔
ایک دن انہوں نے بھی عشائیہ پر مدعو کرکے خوب خاطر تواضع کی ۔ وسیم مکائی صاحب اور چچیرے بھائی کے ہمراہ ان کے عارضی دولت کدے پر لذت کام و دہن سے محظوظ ہوئے ۔ البتہ وسیم مکائی صاحب نے دوبارہ ایسی دعوت کا لطف اٹھانے سے بر وقت ’ توبہ ‘ کی کیونکہ سالن میں مرچی کی مقدار حد استطاعت سے زیادہ محسوس ہوئی اور وہ ’ سی سی‘ کرتے وہاں سے الٹے پاﺅں بھاگ گئے۔
پچیس جنوری کو’ تاج محل‘ دیکھنے کا منصوبہ بنا اور علی الصبح محبت کی اس علامت کی زیارت کے لئے نکل پڑے ۔ سفر بس کے ذریعے طے کرنا تھا۔ علی گڑھ سے آگرہ 90 کلو میڑ کی دور ی پر ہے ۔ آگرہ اتر پردیش کا اہم شہر ہے ۔ اس کا پرانا نام ’ اکبر آباد ‘ تھا۔ اکبر کے زمانے میں یہ دار السلطنت رہا ہے ۔
کچھ گھنٹوں کی اس مسافت نے ہند کی عظیم ریاست کی ’ مزعومہ ‘ ترقی کا بھی مشاہدہ کرایا ۔ جگہ جگہ سڑکیں خستہ ہیں تو کہیں نا پختہ ۔ غربت و افلاس اس ریاست کے اکثر کنبوں کی داستان ہے ۔ بُھک مری، بچہ مزدوری اور خودکشی میں بھی مذکورہ ریاست ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے سرفہرست ہے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جہاں حقوق انسانی کا درس دیا جاتا ہے ۔ رنگ و نسل ، ذات پات کے بھید بھاﺅ کے خلاف جہاد کرنا سکھایا جاتا ہے ۔ انسانیت کو ہر آن مقدم رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے، وہیں کیمپس احاطہ کے باہر ڈھابوں پر بچہ مزدوری کی بڑھتی روایت ان سبھی اسباق کو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں ۔ اہنساکے پجاری’ باپوں ‘ کے اس دیس میں جانوروں کی حُرمت مقدم ہے اور انسان کا خون حلال تصور کیا جاتا ہے۔ معصوم بچیاں ہوں یا پختہ عمر کی خواتین اُن کی عصمت نیلام کرنا ان’ ناری پُوجیوں ‘ کے لئے کسی کھیل تماشے سے کم نہیں ہے ۔ ہندوستان آہستہ آہستہ اخلاقی پستی کی اُس حد کو چھو رہا ہے ، جہاں سے کسی بھی قوم کا طلوع ہو نا ناممکنات میں سے ہے اور زوال ایسی اقوام کا مقدر بن جاتا ہے۔
گاڑی سڑک پر ’ بہہ رہی‘ تھی اور راقم اطراف میں اس’ ترقی‘ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ خستہ مکانات اور جھونپڑیوں پر مشتمل بستیاں ’ سُوچ بھارت ‘ کا نعرہ تو بس ٹی وی اسکرین تک ہی محدود ہے ۔ حقیقت سے اس کاکوئی تعلق ہی نہیں۔ ہندوستان کی اکثر ریاستوں کی طرح اتر پردیش میں بھی جگہ جگہ گندے نالوں اور تالاب کے ارد گرد بستیاں ’ آباد ‘ ہیں۔ اُن میں مویشی بھی نہاتے ہیں اور بچے بھی اُسی میں گرمی سے بچنے کا سامان پاتے ہیں۔ عورتیں کپڑے اور کچن کے برتن بھی اُسی پانی سے ’ پاک و صاف ‘ کرلیتی ہیں ۔
یمین و یسار میں گندگی کے ڈھیر ہیں ۔ یہاں تک کہ اُن کے بھگوان بھی اس سے محفوظ نہیں ۔ مندروں کی حالت بھی اکثرمقامات پر ناگفتہ بہ ہیں ۔ اُن کے آس پاس کوڑا کرکٹ اپنی آن ، بان اور شان سے تشریف فرما ہیں ۔ کئی بُت گرد آلود ہیں، جنہیں جھاڑنے کی بھی اُن کے بھگتوں کے پاس فرصت نہیں ۔ کچھ مندر خستہ حالی کارونا روتے ہیں لیکن کسی کو اس طرف دھیان کہاں ۔ آخر جو خود بُھوکے مر رہے ہوں ، پیاسے جی رہے ہوں ، سیاسی جبر اور معاشی تنگدستی کا شکار ہوں ، اپنے اور بچوں کی تسکینِ شکم کا سامان فراہم کرنے سے عاجز ہوں ، وہ بھلا ان مندروں کی طرف کیسے اپنی توجہ مرکوز کریں۔
غربت کی وجہ سے پورے ہندوستان میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ۔ ریاست اتر پردیش میں بھی کسی کا قتل کرنا ، ناک سے مکھی ہٹانے کے مترادف ہے۔ بہر حال آنکھ اس’ ترقی‘ کو دیکھ کر اکتا گئی اور بے صبری سے منزل مقصود کی ٹوہ میں لگ گئی۔
ظہر کے وقت ہم آگرہ پہنچے ۔ بس سے اترنے ہی والے تھے کہ رکشا والوں کی بڑی تعداد نے ہمیں چاروں سمت گھیر کر’ اغوا ‘ کرنا چاہا ۔ ہر ایک بضد تھا کہ ان کی رکشا کو ہی ’ شرف ‘ بخشا جائے ۔ یہ تو خیر ہو آگرہ پولیس کی کہ بروقت مداخلت کرکے ہمیں اس ’ ناگہانی آفت ‘سے بچالیا۔ کچھ دیربعد آگے جاکر ہم نے ایک رکشاکری اور آدھے گھنٹے بعد ہم اُس پُر شکوہ عمارت کے سامنے کھڑے تھے، جس نے غریبوں کی محبت کا ’ مذاق ‘ اڑایا ہے
اک شہنشاہ نے دولت کاسہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
(ساحرلدھیانوی)
آگرہ کا بُرج ’ تاج محل ‘ وقت کے گال پر لڑھکتا ہوا آنسو۔ شوقِ دید نے اس طرف دشت نوردی پر مجبور کر دیا تھا۔ نگاہیں عظمت رفتہ کے تعاقب میں تھیں۔ احمد لاہوری اور اس کے کاریگروں نے ہند کی سر زمین کو ایک پہچان دے دی۔ تین صدیاں بیت گئیں پھر بھی یہ مخروطی گنبد ، دیکھنے والے کو سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ جمنا میں تیرتا ہوا ایک پُراسرار شاہکار ، آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے۔
’ تاج محل‘ کے پُرشکوہ مینار شاہ جہاں اور ممتاز کی محبت کے گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ابتزال کے بھی شاہد ہیں ۔ کہاں وہ دور کہ جب ہم نے بھارت کو ایک پہچان عطا کی ۔ بھوک ، پیاس، افلاس اور اضمحلال میں مبتلا اس ملک کو جینے کا سلیقہ سکھایا ۔ تہذیب و تمدن سے آشنا کیا ، انسانیت کے اسباق ازبر کرائے اور کہاں آج ہم اپنی ہی پہچان کا جنازہ اٹھتے دیکھ رہے ہیں۔
پستی کی یہ حد کہ ہم سے ہمارا تعارف پوچھا جا رہا ہے حالانکہ ’ تاج محل ‘ ہند کے لئے اول درجے کا ذریعہ آمدن ، ترنگے کی عظمت لال قلعے کی مرہونِ منت ، جامعہ علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے اُن کے عقل کابازار روشن ۔ امیر خسرو ، البیرونی ، مغلیہ سلطنت کے خزانے ۔ غرض کن کن احسانات کی یہ نفی کریں گے؟
مسلمان تو ہند میں معمار کی صورت میں آئے ، گوروں نے تو قزاق اور ڈاکو بن کر اس ہند کو لوٹا جسے مسلمانوں نے سجایا اور آباد کیا تھا۔ حق تو یہ ہے کہ اگر مسلمان ہندوستان نہ آتے تو وہاں کھنڈرات ، مار دھاڑ ، لوٹ مار ، سخت جان خُود رو گھاس کے علاوہ کچھ نہ ہوتا۔ شکر کرنا ، احسان ماننا اخلاقی حُسن ہے اور وہ اخلاق وہاں ناپید ۔ خیر یہ تو’ ایام ‘ ہیں جن کو اقوام کے درمیان پھیر دیا جا رہا ہے۔
’یونیسکو ‘ نے تاج محل کو قیمتی ورثہ قرار دیا ہے جہاں دنیا کے اطراف سے سیاحوں کا جمِ غفیر دیکھنے کو ملتا ہے۔ دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک ’ تاج محل‘ 1632ء تا 1653ء کے مابین تعمیر ہوا۔ یہ مقبرہ 155.500ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ مقبرہ ایک مربع شکل کا حامل ہے جو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عیسٰی شیرازی نامی ایک ایرانی انجینیر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی ایک سو بیس فٹ اور بلندی دو سو فٹ ہے۔
جب تاج محل کی تعمیر اپنے اختتام کو پہنچی تو شاہجہاں کا یہ ارادہ تھا کہ دریا کے مخالف کنارے پر اپنے لیے بھی سنگ مرمر کا ایک مقبرہ تعمیر کروائے لیکن اُن کی یہ امید بر نہ آئی ۔ ان کے بیٹے اورنگ زیب نے علمِ بغاوت بلند کی اور شاہ جہاں کو آگرہ میں قید کرایا۔ 1666ءمیں شاہ جہاں وفات پا گئے اور اپنی بیوی کے قدموں میں دفن کیے گئے .
تاج محل شب و روز مختلف رنگ بدلتا ہے۔ سحر کے وقت اس کا رنگ گلابی اور شام کے وقت دودھیا سفید ہو جاتا ہے۔ ان بدلتے رنگوں کو عورت کو مزاج سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ حُسن کا یہ منظر آگرہ میں جمنا کے کنارے ، سنگ مرمر کی سلوں میں مقید ہے ۔ ممتاز محل کا یہ مقبرہ ، مسلمانوں کی فن تعمیر کی معراج ہے ۔ باوجود کہ تاج محل ایک مقبرہ ہے۔ مگر اسے دیکھ کر کبھی موت کا خیال نہیں آتا بلکہ ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ اس کی شکل میں محبت ، مجسم ہے۔
تاج محل کی مرمریں عمارت کی دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے ۔ مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں ۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے سات میٹر اونچا ہے، سنگِ سُرخ کا ہے۔ اوسطاً چالیس لاکھ سیاح دنیا بھر سے ہر سال اس عمارت کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس طرح تاج محل ہندوستان کی اقتصادیات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
’ تاج محل‘ کو ہندوستان کے شدت پسند عناصر نے بار ہا متنازع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے بابری مسجد کی طرح اسے بھی مندر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شدت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ تاج محل دراصل ’ شوا ‘ مندر ہے جسے راجپوتوں نے شاہ جہاں کو تحفہ میں دیا تھا۔ اسی مندر کے اوپر تاج محل کی تعمیر کی گئی حالانکہ آگرہ کی عدالت نے اس مقدمہ کو خارج کر دیا ہے۔
تاج محل کو مندر میں تبدیل کرنے کی یہ کوشش ابھی سرد نہیں پڑی، برسر اقتدار پارٹی کی جانب سے اس کو مندر میں تبدیل کر نے کی کوشش جاری ہے۔ دوسری جانب’ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا ‘ بار ہا یہ ثبوت پیش کر چکی ہے کہ تاج محل کے مندر ہونے کا دعویٰ بے بنیا د اور محض ایک افسانہ ہے۔
عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت اس کی اقتصادی طاقت، سیاسی قوت یا جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے نہیں بلکہ سترہویں صدی میں تعمیر شدہ یہی’ تاج محل‘ ہے۔ حق یہ ہے کہ آزاد ہندوستان کے ستر سالوں میں ایسا کچھ قابل فخر کارنامہ ہندوستان میں وجود پذیر نہیں ہو سکا جو اسے عالمی شہرت دلا سکے اور کسی کا متبادل ثابت ہو سکے ۔ البتہ اخلاقی اقدار کے فقدان کے سبب روز بروز پستی کی حد کو ہی چُھو رہا ہے۔
بہرحال آفتاب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا تھا اور الوداعی کرنیں ’ تاج محل‘ کے مخروطی گنبد کو افق سے کوئی پیغام پہنچا رہی تھیں اور ہم مغلیہ سلطنت پر ’ فاتحہ‘ پڑھ کر چمن سرسید کی طرف قدم رنجہ ہوئے….!( جاری ہے )
٭٭٭