اقبال روح دین کا شناسا ، کتاب کا سرورق اور سید علی گیلانی

اقبال روح دین کا شناسا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شاذیہ عبدالقادر

سید علی گیلانی رحمہ اللہ کی اس شاہکار کتاب کا دیباچہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا
لکھتے ہیں : ” کسی بھی مجاہد آزادی خصوصاً آزادی کشمیر کی تحریک سے متعلق شخص کے لئے علامہ اقبال کے ساتھ وابستگی نہ صرف ایک فطری امر بلکہ ناگزیر ہے ۔ اقبال سے سید علی گیلانی کا اوّلین تعلق ہائی اسکول سوپور میں تعلیم کے دوران “پرندے کی فریاد” پڑھ کر قائم ہوا تھا۔

آگے چل کر لکھتے ہیں کہ
علامہ اقبال بھی کشمیری نژاد تھے اور کشمیر سے ایک گہری وابستگی رکھتے تھے . وہ غلامی سے کشمیریوں کی نجات کے عمر بھر کے خواہاں رہے ، سید علی گیلانی بھی اقبال کی طرح اسی جذبے اور مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔۔۔ زیر نظر کتاب ان کی انہی کاوشوں کا ایک حصہ ہے
میں ان کی اس فکر انگیز کتاب کی تالیف پر مبارک باد دیتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ یہ کتاب تفھیم اقبال میں معاون ثابت ہوگی۔

اقبال روح دین کا شناسا ، مصنف سید علی گیلانی

ڈاکٹر شفیع شریعتی اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
“سید علی گیلانی ملت اسلامیہ کے ایسے قافلے کا پرچم تھامے ہوئے ہیں جس کی آہیں اور چیخیں عشروں سے فلک بوس برفیلی چوٹیوں کے ساتھ ٹکراتی رہی ہیں۔

جس کی آنکھیں بادلوں کی صورت میں برسنے کے قریب ہیں اور جس کے سینے پر غلامی اور محکومی کے زخم۔۔۔۔ وُلر اور ڈل کی سی گہرائی اور کشادگی رکھتے ہیں . ملت اسلامیہ کی مجموعی زبوں حالی اور اقبال کے محبوب آبائی وطن کشمیر کی خوں چکانی پر اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے کے لیے سید علی گیلانی ،فکر اقبال اور شعر اقبال کو ایک وسیلہ گرہ کشا سمجھتے ہیں۔

ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بازیافت کی امنگ بیدار کرنے کی خشک رگوں میں تازہ خون دوڑانے، لادین تہذیبی جارحیت کے سیلاب کو روکنے اور مسلمان نوجوان کو خود آشنا اور خدا آشنا کرنے کے لئے جو لازوال نسخہ کیمیا ( کلام اللہ اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مسلمانوں کے پاس موجود ہے اس کی ترغیب، تفسیر اور تشریح فکر اقبال کے ترکیبی نظام میں نمایاں اہمیت رکھتی ہیں . کلام اقبال اس نسخہ کیمیا کے سمجھنے اور برتنے میں شاہ کلید کا حکم رکھتا ہے . سید علی گیلانی فکر اقبال کے اس اہم اور بنیادی پہلو سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ علامہ مرحوم کو نہ صرف اپنا روحانی مرشد بلکہ روح دین کا شناسا کہتے ہیں۔”

سید علی گیلانی اس کتاب میں اپنی ابتدائی عمر کے کچھ واقعات لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ کسی وجہ سے اپنے والدین سے دور لاہور میں آ بسے تھے تو ” پرندے کی فریاد ” جو علامہ محمد اقبال کی نظم تھی وہ ان کی ساتھی رہی۔۔۔۔

سید علی گیلانی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں علامہ محمد اقبال کی شاعری کے وہ شہ پارے جو دین اسلام کے نظریات جو شعر کی زبان میں بیان کئے گئے ۔۔۔۔۔ ان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے

آپ اس کتاب کی فہرست دیکھیں
اس میں دیباچہ ، اظہار تشکر، چہرہ کے بعد
اظہار تمنا کا سبب ، پرندے کی فریاد ، فکر اقبال کےترکیبی عناصر ، جہاں دوست کا استفسار ، صدائے سوزناک ، صحبت آدم سے عاجز ابلیس کی فریاد ، عالم افلاک کا لرزہ خیز سفر ، قلزم خونی سے ایک غدار کی فریاد ، شاعر مشرق کا شکوہ شرربار ، افغانستان میں اقبال کی آہ و فغاں ، مسلمانوں کا تنزل اور اسباب ، درد ملت کا درماں اقبال ، اقبال بارگاہ الہٰی میں ، چراغ راہ بن آؤ بڑا اندھیرا ہے ، خطاب بہ جاوید نئی نسل کے لئے مشعل راہ اور آخری باب اقوام مشرق کے لیے نسخہ کیمیا ہے۔

یہ کتاب اپنے آپ میں ایک بہت خزانہ سموئے ہوئے ہیں اور اس کو پڑھنا اور اس کے ذریعہ سے علامہ محمد اقبال کی شاعری کی گہرائی کو سمجھنا اور اسے اخذکرنا آسان ہوگیا ہے . بالخصوص نوجوانوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں