بادبان / عبید اللہ عابد
ہم میں سے اکثر امریکا اور امریکی قوم پر خاصی لعن طعن کرتے ہیں، اور روزانہ ہی کرتے ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ ہم آنکھ جھپکیں اور امریکا کے پچاس سے زیادہ ٹکڑے ہوچکے ہوں ۔ یہ خواہش گزشتہ تیس بتیس برسوں سے ہمارے خون میں ابال پیدا کررہی ہے ۔ ابھی تک امریکا کے پچاس سے زائد ٹکڑے نہیں ہوئے ۔
میرا خیال ہے کہ ریاستیں اور اقوام دوسروں کے بجائے اپنی ہی غلطیوں ، کوتاہیوں ، گناہوں اور جرائم کے سبب ٹکڑے ٹکڑے ہوتی ہیں۔ یہی معاملہ فرد کا بھی ہوتا ہے۔
اب بھلا امریکا کیوں پچاس سے زائد ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوسکا؟ کیا آپ اس کا جواب جانتے ہیں ؟؟ نہیں جانتے ، تو جان لیجیے۔
ابھی ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ امریکا میں نیویارک سٹی اور نیویارک ریاست کی حکومتیں ان دوافراد کو 36 ملین ڈالر (سات ارب ستانوے کروڑ چالیس لاکھ پاکستانی روپوں کے برابر ) معاوضہ ادا کر یں گی جو انسانی حقوق کے علمبردار میلکم ایکس کے 1965 ء میں قتل کے الزام میں’ غلطی سے‘ قصوار قرار دئیے گئے تھے . ان دو افراد نے کئی عشرے جیل میں گزارے ، پھرگزشتہ برس اس مقدمے سے بری کر دیے گئے۔
وائس آف امریکا کے مطابق رہائی پانے والوں کو 26 ملین ڈالر نیویارک سٹی جبکہ 10ملین نیویارک کی ریاست ادا کرے گی ۔ مقدمے سے بری ہونے والے محمد عزیز اور خالد اسلام دونوں کا ہمیشہ سے یہی موقف اختیار رہا کہ وہ بے گناہ ہیں ۔ عزیز کی عمر اس وقت 84 برس ہے جب کہ خالد اسلام انتقال کرچکے ہیں۔
ایک جج نے گزشتہ سال تب یہ سزائیں ختم کی تھیں جب نئے ثبوت سامنے آئے تھے کہ اس مقدمے میں گواہوں کو ڈرایا , دھمکایا گیا تھا اور ثبوت دبائے گئے تھے ۔ سزا پانے والے عزیز اور خالد نے کئی عشرے جیل میں گزارے اور 1980 میں پیرول پر رہا ہوئے تھے۔
وائس آف امریکا کے مطابق ہرجانے یا معاوضے کی رقم عزیز اور خالد دونوں میں برابر تقسیم کی جائے گی۔
سائرس وینس جونئیر نے جو میلکم ایکس کے قتل کے زمانے میں ڈسٹرکٹ اٹارنی تھے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قانون اور عوام کے اعتماد کے خلاف گھمبیر اور ناقابل قبول خلاف ورزی پر معافی مانگی ہے۔
نیویارک کے لا ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ یہ زرتلافی ان افراد کے لیے کسی حد تک انصاف کرتا ہے جنہوں نے دہائیاں جیل میں گزار دیں اور ایک بڑی شخصیت کے قتل کے غلط الزام کا داغ برداشت کیا۔ واضح رہے کہ میلکم ایکس کو اپر مینہیٹن بال روم میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
ان دونوں افراد کو غلط الزام میں عشروں تک قید رکھنے کے جرم میں ریاست شرمسار ہے ، وہ انھیں سات ارب ستانوے کروڑ چالیس لاکھ پاکستانی روپوں کے برابر رقم دے کر بھی شرمسار ہے کہ اس نے دو افراد کو خواہ مخواہ قید رکھا ، ان کی ساکھ پر دھبہ لگایا۔ یہ امریکا کی تصویر ہے،
دوسری طرف ہم اپنا منہ بھی آئینے میں دیکھ لیں۔ ہمارے ہاں کتنے ہی افراد کو جھوٹے الزامات میں برسوں تک جیل بھگتنا پڑتی ہے ۔ وہ لاکھ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن ہماری عدالتیں اور ہماری ریاست نہیں مانتی ۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ عدالت اور ریاست اپنی دیگر ضروری مصروفیات میں الجھ جاتی ہے ، بے گناہ قیدی ایڑیاں رگڑتے ، سسکتے جیل ہی میں مرجاتا ہے ، عدالت اور ریاست کو پھر بھی خبر نہیں ہوتی ۔
پھر ایک روز عدالت اس بے گناہ قیدی کی فائل نکالتی ہے ، اس کی گرد صاف کرتی ہے ، مطالعہ کرتی ہے ، اور اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ قیدی بے گناہ ہے ۔ اور پھر فیصلہ سنا دیتی ہے ، پھر عدالت کو بتایا جاتا ہے کہ وہ قیدی تو انیس برس قبل جیل ہی میں انتقال کرچکا تھا۔ اس پر معزز جج صاحبان شرمسار ہوتے ہیں نہ ہی ریاست کو کچھ شرم آتی ہے ۔ وہ جیل ہی میں مر جانے والے قیدی کے خاندان کو ہونے والے نقصان کا ازالہ تو دور کی بات ، اس سے معافی بھی طلب نہیں کرتے۔
یوں عدالت اور ریاست کی کہانی اگلے موڑ کی طرف بڑھ جاتی ہے۔( بادبان ، عبید اللہ عابد )