محمد بن سلمان ، ولی عہد سعودی عرب ہالووین مناتے ہوئے

ہالووین کا تہوار کیا ہے؟ امسال سعودی عرب میں کیوں منایا گیا ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اکتیس اکتوبر کے گزرنے کے ساتھ ہی بہت ساری ایسی وڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آئی ہیں جنہیں دیکھ کر بہت حیرت اور افسوس ہوا ، خاص کر سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کو زور و شور سے ’ ہالووین ‘ کا تہوار مناتے دیکھ کر مجھے ایک کیتھولک فیملی یاد آ گئی جو کئی سال پہلے میرے ہمسائے میں تھی۔ ہر سال 31 اکتوبر یعنی ’ ہالووین ‘ کے دن وہ اپنے بچوں کو سر شام گھر میں بند کر دیتے تھے کہ یہ دوسرے بچوں کے ساتھ باہر جانے اور چاکلیٹ اکٹھے کرنے کی ضد نہ کریں۔

بہت سارے روایتی عیسائیوں کی طرح ان بچوں کی ماں بھی یہی کہانی سناتی تھی کہ اس دن کا آغاز انتہائی جہالت اور تکلیف دہ حقیقت سے ہوا تھا ،اور میں نہیں چاہتی کہ میرے بچے اس گناہ سے شروع ہونے والی رسم کا حصہ بنیں ۔ ’ ہالوین ‘ کا آغاز تب ہوا جب انگلینڈ میں سینکڑوں بوڑھی ، لاچار اور لاوارث عورتوں کو محض توہم پرستی اور جہالت کے سبب زندہ جلا دیا گیا تھا کہ یہ منحوس، جادوگر، چڑیلیں ہیں ۔

اس کے بعد ان کی روحوں کے انتقام سے بچنے کے لئے ’ ہالووین ‘ کے سارے لوازمات کا اہتمام کیا جانے لگا جس نے آہستہ آہستہ بہت بڑے کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ’ ویلنٹائن ڈے ‘ اور ’ کرسمس ‘ پر خرید و فروخت اپنے عروج پر ہوتی ہے اسی طرح ’ ہالووین‘ کے پر چار میں کاروباری اداروں کا بہت فائدہ ہے ۔ ہر سال لاکھوں ، کروڑوں ڈالر کے چاکلیٹس کے علاوہ کاسٹیومز، کھوپڑیاں، ڈھانچے اور لا محدود قسم کے لوازمات بکتے ہیں۔

ہر ملک اور مذہب کے تہوار اس ملک کے رہنے والوں اور مذہب کے ماننے والوں کی اقدار کے عکاس ہوتے ہیں ۔ تہوارتاریخ کے گواہ اور تہذیب کے رکھوالے ہوتے ہیں۔

سعودی عرب : بعض لوگ ہالووین مناتے ہوئے

مسلمانوں کوہالووین کا تہوار مناتے دیکھا تو سمجھ نہیں آیا کہ انھیں ایسی کیا مجبوری، شوق یا ضرورت ہے کہ وہ ایک ایسا تہوار منا رہے ہیں جو یورپ اور امریکہ میں آج تک متنازعہ ہے۔ کیتھولک عیسائی، یہودی اور اکثریت یورپین مسلم عوام اسے منانا ” بدعت “ سمجھتے ہیں۔ جی ہاں ! بدعتیں صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ یورپ میں بھی ہوتی ہیں۔ ہالو وین کے تہوار کا تعلق بد روحوں،چڑیلوں، مردوں، شیطان، اور ہر طرح کی غیر روحانی مخلوقات سے جوڑا جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ بڑی کوشش کر کے ایک بڑی تعداد اس دن کو عیسائی مذہب سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور کافی حد تک شاید کامیاب بھی ہوں لیکن در حقیقت اس دن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سراسر توہم پرستی کا پرچار کرنے والا دن ہے۔

بہت سے مسلمانوں کو آپ یہ کہتے سنیں گے کہ کچھ کاسٹیوم ( بھیس بدلاوے کا لباس) پہننے ، بچوں میں چاکلیٹ اور ٹافیاں بانٹنے میں حرج ہی کیا ہے؟ تو بات یہ ہے کہ یہ تہوار صرف کاسٹیوم اور چاکلیٹس تک محدود نہیں رہے گا ، اس کے ساتھ بہت کچھ ایسا جڑا ہوا ہے جس کی ترویج ایک اسلامی ملک میں قطعی غیر مناسب ہے۔ جہاں ہم بچوں کو شروع سے ہی یہ بتاتے ہیں کہ ڈر لگے تو آیت الکرسی کا ورد کرو اور شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے لا حول پڑھو،

سعودی عرب : بعض لوگ ہالووین مناتے ہوئے

ہالووین کا منانا انہیں یہ بتائے گا کہ ماسک پہن کر اور گھروں کے باہر کچھ ہڈیاں رکھ کر بھی شیطانی مخلوق سے بچا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ابھی پاکستان میں یہ تہوار صرف کچھ کھانے کی چیزیں بانٹنے اور کاسٹیوم پہننے تک ہے لیکن یہ سوچ سے عاری قوم چونکہ اندھادھند تقلید کی قائل ہے اس لئے بہت جلد دروازوں کے سامنے ہڈیاں اور ڈھانچے بھی نظر آنے لگیں گے۔

عیسائی لوگ اپنے گھروں کے باہر ہڈیاںِ، ڈھانچے، کتبے اس لئے لگاتے ہیں کہ بد روحیں یہ سمجھیں کہ یہ پہلے سے ہی بد روحوں کا مسکن ہے ، یہاں انسان نہیں رہتے اور دھوکا کھا کر واپس چلی جائیں۔ لوگ بھیس بھی اسی لئے بدلا کرتے تھے کہ شیطان اورارواح خبیثہ انہیں پہچان نہ پائیں۔ بچوں میں کھانے کی چیزیں بانٹنے کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ شیطان اور چڑیلیں بچوں کو خوش کرنے کی وجہ سے اہل خانہ سے دور رہیں۔

کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ پڑھے لکھے، اقداراور روایات کو سمجھنے والے با شعور لوگ خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ، وہ اس دن کو سوائے جہالت اور توہم پرستی کے کچھ نہیں سمجھتے۔

معاشرے میں موجود دانشور افراد اور صاحبان علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام الناس کی راہنمائی کے لئے ان کے ذہنوں پر دستک دیتے رہیں ، انہیں اپنی اصل سے جڑے رہنے کی تلقین اور اغیار کی خرافات کی تقلید کے نقصان سے آگاہ کرتے رہیں۔

ہمارے ہاں بھی ایک کلاس نے اس دن کو نہ صرف منایا بلکہ دنیا کو تصویروں اور وڈیوز کے ذریعے اپنے ماڈرن ہونے کا ثبوت بھی فراہم کیا۔ تعجب ہے کہ یہ دن منانے والی وہ سلیبرٹیز بھی ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ ” ار طغرل غازی“ ہماری تاریخ نہیں ہے۔ ان جہلا کو یہ علم نہیں کہ تاریخ صرف ملکی نہیں ہوتی بلکہ مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی بھی ہوتی ہے اور اسلامی تاریخ کا ہر ہیرو ہر خطے کے مسلمان کا ہیرو ہوگا۔

سعودی عرب : بعض لوگ ہالووین مناتے ہوئے

اسلامی ملک کی سچی کہانی اور کردار بھی ایسے سطحی ذہن کے حامل لوگوں کے لئے ناقابل قبول ہیں اور یورپ اور امریکہ میں جہالت اورتوہم پرستی کی وجہ سے منائے جانے والے دن یہ لوگ سو سو جتن کر کے مناتے ہیں۔

کیا بدقسمتی ہے کہ وطن عزیز میں کوئی گروہ یا فرقہ اپنے مذہبی نظریے کی بنیاد پر کچھ کرنا چاہے تو دوسرے نظریے کے حامل افراد اس پر کفر کافتویٰ لگانے میں تامل نہیں کرتے لیکن یورپ سے آئے فرسودہ رواج منانے والے لوگ جدت کے علم بردار اور ماڈرن کلاس کہلائے جاتے ہیں۔

صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ یہ ان لوگوں کا تہوار ہے جو ایک عرصے سے اس بحث اور کوشش میں ہیں کہ وہ کسی بھی طرح نعوذبااللہ نعوذبااللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو ہم جنس پرست ثابت کر سکیں۔ اب اگر وہ لوگ اپنی نفسانی خواہش کے لئے نبی علیہ السلام کے کردار کو دائو پر لگا سکتے ہیں تو ان کے اخلاق کا کوئی معیار نہیں رہ گیا ،

ہمارے ہاں ان کے پیروکاروں کو اس طرح کے تہوار منانے سے پہلے تہوار کا تہذیبی اور تاریخی تعلق ضرور جان لینا چاہیے کیونکہ تہواربطور سماجی ورثہ آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتے ہیں۔

ترا وجود سراپا تجلی افرنگ
کہ تو جہاں کے عمارت گروں کی تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو زر نگار و بے شمشیر
اقبال


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “ہالووین کا تہوار کیا ہے؟ امسال سعودی عرب میں کیوں منایا گیا ؟”

  1. راشدہ رحمان Avatar
    راشدہ رحمان

    آپ نے بہت اچھی تحریر شائع کی ھے اللّٰہ تعالیٰ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے آمین ثم آمین
    اور آپ کی لمبی زندگی عطا فرمائے آمین ثم آمین