اٹھارویں ترمیم

اٹھارویں ترمیم اور اس کے تعلیمی نظام پر اثرات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طوبیٰ ناصر

18 ترمیم ہے کیا ؟

پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان نے پاس کی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے۔ اٹھارویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دیے، چونکہ وزیر اعظم قائدِ ایوان (Leader of the House) ہوتا ہے لہذا زیادہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس آئے۔

اس ترمیم کے تحت 1973 کے آئین میں تقریبا 102 کے قریب تبدیلیاں کی گئی ہیں یہ ترمیم صوبائی خودمختاری، پارلیمان کی مضبوطی اور نچلے لیول پر اختیارات کو منتقل کرنے کے لیے کی گئی تھی،

ان میں سے چند ترامیم یہ ہیں کہ اٹھارویں آئینی ترامیم کے تحت صدر سے ہنگامی صورتِ حال کے نفاذ کا اختیار لے کر پارلیمان کو دیا گیا۔ آئین کو توڑنے اور معطل کرنے کو بھی سنگین غداری قرار دیا اور اسے ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا۔ صوبائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین کے کئی آرٹیکلز کو بدل دیا گیا۔ اور پاکستان کے شمال مغربی صوبہ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختونخوا رکھ دیاگیا۔

وفاق سے اختیارات لے کے صوبوں کو زیادہ خود مختار بنایا ۔ وزرائے اعلیٰ اور وزیرِ اعظم کے تیسری مرتبہ منتخب ہونے پر پابندی ختم کردی گئی ۔ صوبوں کو تعزیرات اور فوجداری کے قوانین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا۔ فوجی سربراہان کی تقرری میں وزیرِ اعظم کی مشاورت لازمی قرار دی گئی۔ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم ضروری اور اس کی مفت فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی گئی۔ ہم یہاں جس کے متعلق خاص بات کریں گے وہ تعلیمی نظام میں تبدیلی ہے۔

آرٹیکل 25 الف کا اضافہ کر کے 5 سے 16 برس کی عمر تک تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
صوبے تعلیمی نصاب ، سلیبس اور تعلیمی پالیسیز اور پلاننگ کے معاملے میں بھی خودمختار ہیں۔

صوبوں کو اختیار ملنے سے وفاق کو کیا مشکلات پیش آ رہی ہیں اور صوبوں کے اختیار کے حوالے سے کیا چیلنجز ہیں

پہلا چیلنج مالیاتی مسائل ہیں۔
جیسا کہ صوبوں کے پاس اب مالی وسائل میں 47اعشاریہ 5 فیصد کا شیئر ہے جبکہ وفاق کے پاس 42اعشاریہ5 فیصد رہ گیا۔ وسائل میں سے زیادہ تر حصہ صوبوں کے پاس مگر بیرونی قرضوں کی تمام تر ذمہ داری وفاق پر ہے ۔ کسی این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر پچھلے سال کے شیئر سے کم نہیں ہو گا۔

وفاق کے پاس دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قرضوں کی واپسی کی ذمہ داری بھی ہے اور جب تعلیم اور صحت کے بے شمار اختیارات صوبوں کو دے دیے گئے ہیں ۔ صوبوں کوبراہ راست غیر ملکی قرضے لینے کا اختیار بھی ہے۔

تمام صوبوں کی جی ایس صوبوں کے پاس جائے گی۔وفاق اور صوبوں کے درمیان موجود کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کر کے مرکز کے دائرہ کار میں آنے والے کئی قانونی اختیارات صوبوں کو منتقل کئے گئے۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت اب ملک کی کل آمدن کا 57 فیصد حصہ صوبوں میں آبادی کے تناسب سے تقسیم ہو جاتا ہے جبکہ وفاق کے پاس 43 فیصد بچتا ہے۔

اس کو رقم کی شکل میں دیکھیں تو پاکستان کی کل سالانہ آمدن تقریباً 4000 ارب روپے ہے جس سے وفاق کے پاس 2000 ارب رہتے ہیں جبکہ 2500 ارب صوبوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
جس کی وجہ سے وفاق بحران کا شکار ہے۔

اٹھارویں ترمیم اور تعلیمی نظام کو لاحق خطرات

ملک میں تعلیمی نظام میں یکسانیت کا ختم ہونا، جب ہر صوبہ اپنا الگ سرکلم بنائے گا تو ہر صوبے کا تعلیمی نظام مختلف ہو جائے گا جس کی وجہ سے ملازمتوں کا حصول بھی مشکل ہو گا، تعلیمی معیار اور کام کا معیار بھی متاثر ہو گا۔
لسانی مسائل بھی اہم جز ہیں، ہر صوبہ اپنی صوبائی زبان میں نصاب بنائے گا جس کی وجہ سے قومی زبان متاثر ہو گی۔
ملک میں مختلف نظریات پروان چڑھیں گے، ملک کی خودمختاری کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، تعلیمی نظام میں نظریہ سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے یہی قوم کی شخصیت کا معمار ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے ملک کی قومیت میں دراڑ ڈالی جاسکتی ہے جیسے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت زبان کو مرکز بنا کر ملک دو ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔

مذہبی تعلیم بھی صوبوں میں جا کر مسائل کا شکار ہو سکتی ہے،اور اختلاف کی گنجائش بہت بڑھ جاتی ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم کمپلسری مضامین وفاق اپنے پاس رکھے تاکہ ملکی سطح پر ان مضامین کا سلیبس ایک ہو۔

اعلیٰ تعلیم بھی اس وجہ سے مسائل کا شکار ہے، صوبائی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے جو نقصانات تعلیمی شعبے کو اٹھانے پڑیں گے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

1-وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سخت اور شفاف نظام کی وجہ سے عالمی سطح پر ملکی ڈگریوں کو جو اعتماد اور بھروسہ ملا ہے، وہ یکسر ختم ہو جائے گا۔

2-اعلیٰ تعلیم کے معیار کے حوالے سے قائم یکسانیت ختم ہو کر رہ جائے گی جس کا معیار تعلیم پر نہایت منفی اثر پڑے گا۔
3۔ اعلیٰ تعلیم بھی صوبوں کے حوالے کر دی تو ہو سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں صوبائی حکومتوں کے زیر اثر کسی صوبائی کہانیوں کے ہیروز کو پڑھایا جا رہا ہو یا کسی صوبے میں کھل کر لادینیت کی تعلیم دی جارہی ہو اور کسی جگہ قومیت کی بجائے صوبائیت کا چرچہ ہو۔
4-جعلی ڈگریوں کا مکروہ دھندہ شروع ہو جائے گا۔
4-جامعات کے سربراہان کے انتخاب میں میرٹ ثانوی حیثیت اختیار کر جائے گا، یوں ہماری جامعات تعلیم و تحقیق کا مرکز بننے کی بجائے سیاست کی نذر ہو جائیں گی۔
5- عالمی سطح پر ملکی ڈگری کا مقام گر جائے گا۔

اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیمی نظام میں آنے والے مثبت پہلو

وفاق کا صوبوں پر اعتماد کرنے سے ملک میں قومیت کی فضا قائم ہو گی۔
اختیارات کو نچلے طبقے تک لے کہ جانے سے نظام کا ہر پہلو مضبوط ہوگا اور معیار بھی بہتر ہوگا۔
تعلیمی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے لازمی مضامین اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن وفاق کے پاس ہی موجود رہے اور باقی نصاب صوبوں کے حوالے کر دیا جائے۔
ملک صوبوں سے مل کر ہی بنتا ہے، جب صوبے مضبوط و مستحکم ہوں گے تو ملک مضبوط اور ترقی یافتہ ہو گا۔
صوبائی سطح پر تعلیمی فنڈز کو متاثرہ اور نچلے طبقے تک باآسانی پہنچایا جا سکتا ہے اور ان سے کام لیا جا سکتا ہے۔
تعلیم عام ہوگی اور ہر خاص و عام تک پہنچے گی۔
تعلیمی سطح پر تخلیقاتی اور تنقیدی سوچ بہتر ہو گی۔

تجزیہ

کسی بھی موضوع کے مثبت اور منفی پہلو دونوں ہوتے ہیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف مثبت کو دیکھ کر اس کے عمل درآمد کی کوشش شروع کردی جائے اور منفی پہلوئوں کو اہم نہ سمجھا جائے اور اسی طرح صرف منفی پہلوؤں کی طرف ہی سب توجہ مبذول کر دی جائے اور جو مثبت پہلوؤں سے فائدہ حاصل ہو سکتا تھا اسے ضائع کر دیا جائے۔

اٹھارویں ترمیم کے کچھ مثبت پہلو ہیں اور کچھ منفی، بہترین حکمت عملی سے کام لیا جائے تو مثبت فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

کسی بھی ملک میں صوبوں اور تحصیلوں کی ڈویژن ملک کے مضبوطی اور استحکام کے لیے کی جاتی ہے اس لیے ان پر اعتماد بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اور اس کے لیے سب سے اہم بات اہل اور ذمہ دار لوگوں کے پاس اختیارات کا ہونا ضروری ہے۔

اس وجہ سے وفاق جتنی زمہ داریاں صوبوں میں بانٹ دے گا اتنا بہتر طریقے سے وہ ملک کے اہم موضوع پر توجہ دے سکے گا، اور ایسے اختیارات اور وسائل ملک کی ہر سطح پر برابر تقسیم ہو جائیں گے۔
تعلیمی نظام کو عام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبے خودمختار ہوں، فنڈز اور وسائل کی مناسب تقسیم سے تعلیم ہر خاص و عام تک پہنچ سکے گی اور تعلیمی معیار بھی بہتر ہو گا، نچلی سطح کے حکومتی تعلیمی ادادے ہمیشہ پراپر فنڈنگ یا مونیٹرنگ نا ہونے کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں اور معیار سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور یہ کام صوبائی سطح پر بہتر طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔

تجاویز

تعلیمی نظام کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا جائے،
بنیادی تعلیم 5سے 12سال تک لازمی قرار دی جائے۔
لازمی مضامین وفاق کے پاس رہیں اور ان کا سلیبس اور زبان پورے ملک میں ایک ہی ہو تاکہ تعلیمی معیار نچلے طبقے سے لے کر اوپر والے طبقے تک ایک جیسا ہی ہو اور نوکری کے حصول کا معیار بھی ایک ہی ہو۔
ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو سلیبس اور تعلیمی معیار کو مانیٹر کرے۔
سکل بیسڈ تعلیم اور لٹریچر کو الگ کر دیا جائے۔
جو طالب علم لٹریچر اور تعلیم کی فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں ان کے لیے کورس آوٹ لائن اس حساب سے بنائی جائے اس کے برعکس جو پریکٹیکل کی طرف جانا چاہتے ان کا کورس مختلف ہونا چاہیے، دونوں کی تعلیمی ڈگری کی مدت میں بھی فرق ہونا چاہیے۔

اعلی تعلیمی کمیشن بھی وفاق کے پاس ہی رہے اور وفاق اس کے لئے فنڈنگ کی تقسیم منصفانہ کرے۔
صوبے بنیادوں پر محنت کریں اور تاکہ ان مضبوط بنیادوں پر وفاقی ایک ایسی اچھی عمارت تعمیر کرے جو ملک کا تشخص عالمی سطح پر بہتر کرے۔ جو ملک اپنے تعلیمی نظام پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور وسائل حرچ کرتے ہیں وہی کامیابی کی منازل طے کرتے ہیں . دنیا میں باشعور قوم ہی ترقی یافتہ قوم بنتی ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں