جویریہ خان
پاکستان کی دیگر تمام شاہراہوں کی طرح کراچی موٹروے سے میرپور خاص تک سڑک کے آس پاس بھی کئی ہوٹل اور ڈھابے ہیں۔ آپ کو یہاں کسٹمرز میں تو خواتین نظر آئیں گی لیکن چائے اور پکوڑے تلتے ہوئے کوئی نظر نہیں آئیگا لیکن اب میرپور خاص میں خواتین کا کیفے بنایا گیا ہے، یہ ڈھابہ بالکل منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ سڑک کنارے اس کیفے کی مالک خواتین ہیں ۔یہاں کام کرنے والی بھی خواتین ہیں۔ غیرملکی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کچھ عرصہ پہلے اس کیفے پر ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ اس ڈھابے نے کیسے خواتین کو روزگار فراہم کیا اور ان کی معاشی زندگی بدل دی۔
ساجدہ بھی یہاں کام کرتی ہیں۔ وہ ہائوس وائف ہیں لیکن گھریلو مشکل حالات کی بنا پر انھوں نے یہاں ملازمت حاصل کی۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر میں جاب نہیں کروں گی تو گھر کا نظام کیسے چلے گا۔ دو سال پہلے میرے پاپا کی وفات ہوگئی ۔ اس کے بعد میں نے ہی گھر سنبھالا۔ جو کچھ بھی کرنا ہے ، مجھے ہی کرنا ہے۔
یہاں کام کرنے والی ایک دوسری خاتون روبیقہ پرویز کہتی ہیں کہ یہاں کوئی بھی اپنی خواتین کو باہر جاکر کام کرنے پر مجبور نہیں کرتا کیونکہ خواتین کو باہر بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مرد خواتین کو باہر نہیں نکلنے دیتے۔
تاہم اب مختلف پروگراموں کے نتیجے میں یہاں کی خواتین معاشی بہتری کے لئے باہر نکل رہی ہیں ، وہ اپنے آپ کو محفوظ بھی محسوس کرتی ہیں۔ میر پور خاص میں یہ ڈھابہ یورپی یونین کے خواتین کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے ایک پروگرام کے تحت قائم کیا گیا۔
خواتین کا یہ ڈھابہ صبح نو بجے کھلتا ہے اور پھر شام پانچ بجے تک کھلا رہتا ہے۔ ڈھابہ اور اس کے گرد دکانیں یورپی یونین کے اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ یہ سب خواتین ہی کی ملکیت ہے۔ اس ڈھابے کو پہلے پہل سوشل میڈیا کی بدولت شہرت ملی۔ ٹک ٹاک پر اس کیفے کی ویڈیوز اپ لوڈ ہوئیں۔ اس کے بعد لوگ یہاں اپنی فیملیز کے ساتھ جوق در جوق آتے ہیں۔لوگ اس پہلو کو بہت پسند کرتے ہیں کہ خواتین پردے اور دیگر روایات کا خاص خیال رکھتے ہوئے اپنی معاشی بہتری کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔