ڈاکٹرامتیازعبدالقادر، بارہمولہ
(نوٹ: سات اکتوبر22 کو میرا بیٹا اسید عبد الہادی 2 سال کا ہوچکا ۔ عدم سے موجود تک کا سفر کن مراحل سے ہو کر طے پایا ؛ پیدا ہوتے ہی اُس نے یہ کہانی اپنے بابا کو ’ سنائی ‘۔ یہ صرف اُس کی کہانی نہیں بلکہ ابتدائے آفرینش سے اب تک کے ہر انسان کی ؛ میری اور آپ کی کہانی ہے ۔ مصورِ کائنات کا ’ قلم ‘ کس طرح رحمِ مادر میں کام کرتا ہے ؛یہ مضمون اس کا اجمالی خاکہ پیش کرتا ہے ۔)
پانی کے قطرے سے جو سفرشروع ہو کر’ سقراط ‘ و ’ افلاطون ‘ تک منتج ہوتا ہے ؛ اس کی اجمالی تصویر سورة الاعلٰی کی ابتدائی آیات میں کھینچی گئی ہے ۔ وہ آیات تقدیر کی بہترین تعبیرہیں ۔ میں بھی اس کہانی کاحصّہ ہوں ۔ حال ہی میں میری کہانی منظر پرآئی ۔ ایک اَن کہی کہانی جو کہ ہم سب کی کہانی ہے ۔ میں جس دورسے گزرا ، کروڑوں اربوں انسان اس دورسے گزرے ہیں ۔
ابتدائے آفرینش سے صبحِ قیامت تک ہرانسان ایسے ہی تشکیل پاتا ہے ۔ لیکن میری متجسس طبیعت اس طاقت کی کھوج میں رہی جس نے مجھے اس دنیا میں بھی اکیلا نہ چھوڑا ۔ میری ہرضرورت پوری کی ۔ میں ضعیف تھا ، لاچار تھا ، بے بس تھا ، والد کاشفیق سایہ تھا نہ والدہ کے پیار، محبت اورایثار کے حامل’پَر‘تھے ۔ اس کے باوصف کوئی قوت تھی جو ان پردوں میں بھی میری نگہبان تھی ۔۔۔۔
وہاں اندھیرا تھا ۔ لیکن میں امر’ِکن‘ کو’ فیکن‘ میں تبدیل ہوتے محسوس کر رہا تھا ۔ شروع میں بس پانی کا ایک قطرہ تھا۔۔۔ میری طرح کے ان گنت قطرے اور بھی تھے لیکن تخلیق اور تسویہ کے لئے میرا ہی انتخاب ہوا ۔ ہاں اس وقت تک مجھے جو چیز یاد تھی وہ بس وہ وعدہ تھا جو میں نے عالمِ ارواح میں اپنے رب سے کیا تھا ، آپ نے بھی کیا ہے ۔
جب اس نے ندا دی تھی ” الست بربکم ” تو میری روح نے شعوری طور پرکہا تھا کہ ہاں ! تو ہی میرا رب ہے ۔ لیکن وہ کون ہے؟ کہاں ہے؟ اس سے میں لاعلم تھا ۔ انڈے سے امتزاج کے بعد مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آنے لگیں ۔ میں ایک سے دو ، دو سے چار ، چار سے سولہ اور یوں جسامت میں بڑھتا گیا۔ ہر چارمیں سے ایک zygote اس مرحلے پر آکر ضائع ہو جاتا ہے ۔ لیکن میں ان تین میں سے ایک تھاجوبچ گیا اوراپنا سفر جاری رکھا۔
اب میرا نام "زایگوٹ”سے "بلاسٹو سائسٹ "رکھا گیا اور انتقالِ مکان کرکے بیضا دانی کی جگہ”رحم”میں جا ٹھہرا۔ "ہجرت” کے اس مرحلے پر میں سہما ہوا بھی تھا اور متجسّس بھی ۔ میں خیالوں میں مگن ہی تھا کہ ایک جھلی نے مجھے اوڑھ کرحفاظتی حصارمیں لے لیا۔ اس کا نام "امنیو ٹک سیک ” تھا اور اب میرا نام” امبریو” تھا۔
پناہ گاہ مل گئی تو بھوک ستانے لگی تھی ۔ خوراک کی جستجو میں ہی تھا کہ جھلی کے ساتھ ایک” بیگ” آ ملا جس میں مجھے کھانا ، پانی اور آکسیجن ملنے لگی ۔ معلوم ہوا کہ اس بیگ کو ” پلے سنٹا ” کہتے ہیں ۔ میں حیران تھا کہ میں جو سوچتا ہوں وہ فوراً سے ہو جاتا ہے ۔ اب تک مجھے وجود میں آئے چار ہفتے گزر چکے تھے ۔ میرے بے نشان و گمنام وجود میں دو حلقے پڑنے لگے تھے جن کے ذریعے روشنی میرے وجود میں داخل ہو رہی تھی ۔ اس روشنی میں مجھے نظر آیا کہ میرا ایک چہرہ بھی ہے ۔
میں اپنے وجود کو محسوس کر رہا تھا لیکن پھر بھی آس پاس کا سناٹا ہراساں کر رہا تھا۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس کو کیسے دور کروں کہ مجھے”دھک دھک ” کی آواز آنے لگی ۔ میں ارد گرد دیکھنے لگا کہ اس ساز کا کار ساز کون ہے ۔ تب میری نظر اپنے سینے پر پڑی جہاں ایک چھوٹا سا گوشت کالوتھڑا دھڑک رہا تھا ۔
یہ وہ مرحلہ تھا جب ہر سال ہزاروں دل اس مرحلے پر وقت پر نہیں دھڑک پاتے اور پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی دھڑکن کا ساز بے ربط ہو جاتا ہے ۔ میرے دل کی دھڑکن بہت نظم سے سر گرم تھی لیکن ابھی تک مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون تھا جو میرے ہر خدشے سے آگاہ تھا اور میرے مضطرب و تنہا وجود کو تسلی بخش رہا تھا۔
ایک ماہ گزر چکا تھا اور میری جسامت چاول کے ایک دانے جتنی ہو چکی تھی ۔ سلسلہ روز و شب جاری تھا ۔ اگلے ایک مہینے میں میرے وجود میں دو چھوٹے چھوٹے بازو اور ٹانگیں ظاہر ہونے لگیں تھی ۔ کچھ عرصے بعد میرا دماغ بھی خلق ہوا ۔ میں سوچ رہا تھا ، محسوس کر رہا تھا ۔ اس احساس کو یاد رکھ سکتا تھا ۔ یہ مہینہ ختم ہوا تو میرے پاس دماغ تھا ، دل تھا ، معدہ تھا ،آنتیں تھیں ۔ میں کھا سکتا تھا ، پی سکتا تھا ، سونگھ سکتا تھا ۔ میں خوش تھا اور شدید حیران بھی کیونکہ اس مقام پر آ کر لا تعداد دماغوں اور اعصاب میں کمی رہ جاتی ہے۔
میں بہت نہال تھا۔ میرا نام بدل کر ” فیٹس”ہوگیا تھا ۔ اگلے دو مہینوں میں میرے ہاتھ ، انگلیاں ، جگر ، گردے ، کان اور منہ سب مکمل ہو چکے تھے ۔ میں خوشی سے ہاتھ پائوں مار رہا تھا ۔ اپنے اس گھر جس کا نام ” یوٹرس ” تھا، اس میں کبھی ادھر تیرتا اور کبھی ادھر گھومتا تھا لیکن ایک الجھن تھی ، ایک کَسک موجود تھی ۔ کیونکہ ابھی تک مجھے اس کرشمہ ساز کا تعارف نہیں تھا جو مرے وجود کی انجینئرنگ کر رہا تھا ۔
مہینے گزرتے جارہے تھے ۔ وقت محوِسفرتھا اور وہ اپنے انمٹ نشان میرے پورے وجود پرڈال رہا تھا۔ میں توانا ہوتا جا رہا تھا اس لئے زیادہ ہاتھ پائوں چلا رہا تھا ۔ شرارت میں کبھی اپنے اس ننھے ” گھر” کی ایک دیوار کو ٹکر مارتا اور کبھی دوسری طرف پلٹی کھاتا ۔ جب جب میں ان شوخیوں میں مست ہوتا تو مجھے باہر سے کسی کے خوش ہونے اور ہنسنے کی آواز آتی تھی ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میری یہ شرارتیں کسی کو بہت لبھا رہی ہوں ۔
میرا وجود ” انگڑائی ” لے رہا تھا ۔ احساس توانا ہو رہے تھے ۔ پلکیں ، ناخن ،بھنویں اور سر کے بال اپنی اپنی جگہ لے رہے تھے ۔ حسن و جمال اپنے ” کمال ” کو پہنچ رہا تھا۔ رگوں میں خون ” تیر” رہا تھا۔ مجھ میں اب یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ کوئی مجھے دیکھے ، کوئی مجھے سنے ۔ میں اٹھایا جائوں ، میں کھلایا جائوں ۔ میرا ” گھر” جہاں میں نے نو مہینے گزارے ، مجھ سے بچھڑنے والا تھا ۔ میں بادل نخواستہ اسے الوداع کہنے کی تیاری میں تھا۔
میں نئی جگہ جانے سے خوفزدہ تھا اور پر جوش بھی ۔ میرے گرد جھلی سکڑنے لگی تھی ، پانی کم ہونے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب مجھے” خدا حافظ ” کہہ رہے ہوں ۔ میں بھی” اشک بار” آنکھوں سے ہاتھ ہلا رہا تھا اور پھر پلک جھپکتے میں مجھے ایک جھٹکا محسوس ہوا ۔ میں نے خوف سے آنکھیں میچ لیں اور جب آنکھیں کھولی تو خود کو کسی کی گود میں پایا۔۔۔۔ میں گھبرایا ۔ جی بھر کر رونے لگا ۔ میرے آس پاس لوگ میرے رونے پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے ۔ مٹھائیاں بانٹنے لگے۔
آج سال 2020ء ہے، اکتوبرکی 7تاریخ ۔ مغرب کی اذان نے دن کے اجالے کو رخصتی کا پیغام پہنچا دیا ہے ۔ سورج نے اپنی کرنیں سمیٹ کر دن کے اختتام کا اعلان کردیا ہے ۔ تاریکی پرسکون "چادر "بچھانے لگی ہے۔” تھکاہارا "دن” چادر” لئے ” اونگھ "رہا ہے ۔ ٹھنڈی رات میں آسمان پرتارے بادل کے ٹکڑوں سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ چاند اشاروں ہی اشاروں میں کچھ بول رہا ہے ۔۔۔۔
میں اس گھر سے اِس گھر منتقل ہو چکا تھا اور مجھے احساس تھا کہ میں خوش قسمت” مضغہ گوشت ” ہوں کیونکہ اس مرحلے پرپہنچ کر کئی وجود زیست کی جنگ ہار جاتے ہیں ۔ میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ کہاں ہے میرا خالق ؟ کون ہے میرا مالک ؟ کس کی تخلیق کا ہے یہ انداز ، وہ کون ہے جو تنہائی کی ” راتوں ” میں میرا سہارا تھا ، اسی سوچ میں تھا کہ میرے کان میں ایک پر سرور سی آواز گونجنے لگی
اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اشہد ان لّااِلٰہ الا اللہ ۔۔۔ اشہد ان لّااِلٰہ الا اللہ
اور میں جان گیا کہ وہ رب کون تھا ؟ وہ اللہ ہی تھا جس نے اس” جھلی ” کو میرے گرد لپیٹ دیا تھا ۔ وہاں اس تاریکی میں میری خوراک کاسامان کر دیا تھا۔ جس نے مجھے اعضاء بخشے ۔ دل ، دماغ ، جگر اور پھیپھڑے تخلیق کیے تاکہ میں سوچ سکوں ، محسوس کرسکوں۔ جس نے مجھے آنکھیں عطا کیں ۔ آنکھوں میں بصارت اور بصارت میں خود کو ظاہر کیا تھا۔
ڈاکٹر بول رہے تھے کہ میرے یہ اشک میرے وجود اور زندگی کی علامت ہیں لیکن وہ اس حقیقت سے نا واقف تھے کہ پیدا تو میں نو ماہ قبل ہی ہوا تھا اور میرا یہ رونا اس رب کا شکرانہ تھا جو” الست بربکم "سے لے کر پانی کی اک بوند تک اور ماں کے "رحم "سے لے کر ماں کی گود تک ،ان تین پردوں میں ایک ایک مرحلے پر میرا کار ساز میرا ساتھی بنا رہا تھا :
’وہ تمہاری تخلیق تمہاری ماﺅں کے پیٹ میں اس طرح کرتا ہے کہ تین اندھیریوں کے درمیان تم بناوٹ کے ایک مرحلے کے بعددوسرے مرحلے سے گزرتے ہو۔ وہ اللہ ہے جو تمہارا پروردگار ہے ۔ ساری بادشاہی اسی کی ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔پھر بھی تمہارا منہ آخر کوئی کہاں سے موڑ دیتا ہے؟‘(الروم:6 )
یہ میری ” کائنات ” کی روداد ہے ،ایک خاک کا ذرہ کہ جس نے اس” دشت ” سے گزر کربہت سارے بھید پائے ۔ ان تین پردوں سے نکل کر یہ حقیقت بھی آشکارا ہوئی کہ یہاں کا ٹھکانا مستقل نہیں ہے ۔ بس ایک ” رات ” کا ٹھہرنا ہے اور مسافروں کے لئے یہ” سرائے ” غنیمت ہے۔
دل پر سکون تھا ، سراپا شکرتھا ۔ ایک پہچان تھی ۔ چودہ انچ جسامت ، چار کلو وزن ۔۔۔۔ میرے والد میری تحنیک فرما رہے تھے ۔ مٹھاس کی حِس نے زبان کا ذائقہ تبدیل کردیا تھا ۔ تین دن بعد والد محترم نے ،جو کہ اپنے قلم کی ازلی پیاس بھجا کرمیری یہ کہانی سپرد قلم کرکے آپ کو سنا رہے ہیں ، نے میرا نام ” اسید عبد الہادی بن امتیازعبد القادر” تجویز کیا۔
٭٭٭