محمد معاویہ
سال 1997 ……. وہ سردیوں کی ایک یخ بستہ سیاہ رات تھی . لگ بھگ کوئی ساڑھے بارہ بجے کا وقت ہو گا . دھند شدید تھی اور میں موٹر سائیکل پر انجینئرنگ یونیورسٹی سے، براستہ شملہ پہاڑی و قرطبہ چوک، چوبرجی کی طرف رواں دواں تھا۔ چوبرجی چوک سے موڑ سمن آباد کے راستے بھلہ سٹاپ کراس کرتے ہوئے بسطامی روڈ کے راستے اپنے گھر بنک کالونی پکی ٹھٹھی جانے کا ارادہ تھا۔ میانی صاحب قبرستان سے گزرتے ہوئے ایسے ہی خیال آیا کہ کیوں نہ قبرستان کے اندر سے نکلتی ریاض قدیر شوگر فری ہسپتال والی سڑک سے پونچھ روڈ پر نکلتے ہوئے پہلے گول چکر سے شیراں والی کوٹھی اور وہاں سے بسطامی روڈ کی راہ لی جائے۔
غازی علم الدین شہید اور واصف علی واصف کے مزارات کے اگلی جانب مولانا احمد علی لاہوری صاحب و مولانا موسیٰ خان روحانی بازی رحمہ اللّٰہ علیہم کی آخری آرام گاہوں سے گزر کر بائیں ہاتھ کی ایک تنگ سڑک قبرستان میں سے گزر کر ہسپتال سے جا ملتی ہے۔
موٹر سائیکل اسی رستے پر ڈال دی . یہ سوچ لیا تھا کہ دھند کے باعث دائیں بائیں نظر تو ویسے بھی کچھ نہیں آنا لہٰذا موٹر سائیکل کی لائٹ میں بالکل سیدھا دیکھنا ہے اور کسی آواز یا حرکت پر توجہ دینے یا رکنے کی بجائے سپیڈ اور بڑھا دینی ہے اور سانس قبرستان گزرنے کے بعد ہی لینا ہے .
موٹر سائیکل سپیڈ میں دوڑتی رہی اور ہسپتال کے قریب پہنچ کر جب کچھ گھر اور گلیاں نظر آنا شروع ہوئیں تو اطمینان کا سانس لیا کہ قبرستان کے اندر سے خیر و عافیت سے گزر کر دوسری جانب پہنچ گیا اور راستے میں کوئی غیر معمولی حرکت بھی نہیں ہوئی۔
لاہور کے اس قدیم ترین قبرستان میں سے کئی چھوٹی بڑی، پتلی اور لمبی سڑکیں گزرتی ہیں جن میں دن کی روشنی میں سینکڑوں بار گزرنا ہوتا تھا لیکن سردیوں کی رات میں تن تنہا قبرستان سے اکیلے گزر کر بخیریت دوسری جانب پہنچ جانا میرے لیے ایک غیر معمولی واقعہ تھا ۔
چند ہی دن گزرے کہ رات گئے تقریباً ایک بجے کے قریب قبرستان کے دوسری جانب جانا پڑ گیا یعنی سمن آباد سے قرطبہ چوک کی طرف . اس رات بھی دھند شدید تھی اور حد نگاہ فقط تین سے پانچ میٹر، پہلے گول چکر سے شوگر فری ہسپتال والی سڑک سے قبرستان کی جانب بڑھتے ہوئے خود کو سمجھایا کہ پہلے بھی کچھ نہیں ہوا تھا اور ان شاءاللہ اب بھی کچھ نہیں ہونا , بس ذرا حوصلے سے۔ اگلی کمانڈ خود کو یہ دی کہ حسب سابق دائیں بائیں تو بالکل بھی نہیں دیکھنا۔
قبرستان کے درمیان پہنچ کر یہ سڑک کمان کی مانند نشیب کی طرف جھکتی جاتی ہے اور کچھ دور قدرے بلند ہوتی پھر سے ہموار ہو جاتی ہے، نشیبی حصے میں قبریں موٹر سائیکل سوار کے کندھے کے برابر shoulder level کے برابر محسوس ہوتی ہیں۔
نشیب سے گزرتے ہوئے مجھے لگا کہ اگر دائیں بائیں دیکھا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مردے کفن پہنے پاؤں نیچے کو لٹکائے ٹریفک کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور ایسے میں کسی مردے سے آنکھیں دوچار ہو جائیں تو اگلا سانس پتہ نہیں آئے یا نہ آئے،
دوسرا خیال یہ آیا کہ اگر کسی غیر مرئی شے نے آواز دے کر بلا لیا تو کان کے پردوں یا جگر کا پھٹ جانا تو لازم ہے جبکہ تیسری آپشن تو اور بھی وحشت ناک تھی اور وہ یہ کہ اگر کوئی مردہ چھلانگ لگا کر موٹر سائیکل پر میرے پیچھے بیٹھ گیا تو سو فیصد ہارٹ فیل؛ انجام آخری بمقام آخری۔
خیر آیت الکرسی پڑھتے پڑھتے اور ہیڈ لائٹ کی روشنی میں سپیڈ بڑھاتے بڑھاتے یہ ڈیڑھ سے دو منٹ کا فاصلہ دو تین کلومیٹر کے جیسا لگا۔ خیالات خبیثہ و فاسدہ کے برعکس اس بار بھی کچھ نہیں ہوا اور میں چوبرجی قرطبہ لنک روڈ پر پہنچ گیا۔ لیکن ایک خیال نے دل میں جگہ بنا لی تھی کہ کچھ بھی نہ کہنا اور دو بار امن امان و خیر خیریت سے گزرنے دینا مردوں و جنات کی مجھے ٹریپ کرنے کی مشترکہ پلاننگ بھی ہوسکتی ہے لہٰذا قبرستان سے گزرنے والا سنگین مذاق آئندہ نہ کیا۔
اتفاقاً رہائش تبدیل ہو گئی اور تیرہ چودہ برس کسی راہ میں کوئی ایسا قبرستان حائل نہ ہوا جس میں سے رات کے وقت گزر کر جانا پڑے۔
23 دسمبر 2011 لاہور لیڈز یونیورسٹی میں میری جاب کا آخری دن تھا . مغرب کی اذان کی آواز پر میں اٹھا اور اپنے آفس کے واش روم سے وضو کر کے کلمہ چوک کے قریب واقع یونیورسٹی کے سٹی کیمپس سے باہر نکل کر مین روڈ کراس کرنے لگا۔
وضو کے دوران مغرب کی اذان کو کچھ وقت گزر چکا تھا اور جماعت کی نماز کی آخری رکعت بمشکل ملنے کی آس تھی۔ سڑک کراس کرتے ایڈووکیٹ میاں فضل احمد کا فون آ گیا . ابدالین ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشیوں کی ایک ویلفیئر سوسائٹی کی رجسٹریشن کے حوالے بات کرنا تھی . سڑک کراس کرتے میں نے دیکھا کہ سامنے والی لائن میں پارک کے برابر والی کوٹھی سے ایک صاحب نکل کر بنومختار کے ہیڈ آفس سے ملحقہ قبرستان میں پیدل داخل ہوئے تاکہ وہاں سے گزر کر عقبی گلی میں واقع محترم مولانا مختار احمد سواتی صاحب کی مسجد میں نماز مغرب ادا کریں . میری منزل بھی وہی تھی۔
سڑک کراس کر کے جونہی میں قبرستان میں داخل ہونے لگا تو پہلے داخل ہونے والے نمازی عقبی دروازے سے دوسری جانب کو نکل رہے تھے ۔ فون پر بات تقریباً مکمل ہو چکی تھی . فضل احمد سے میں نے اجازت طلب کرنے کا ارادہ کیا لیکن اسی اثناء میں قبرستان کے درمیان میں واقع جنازگاہ کے باہر لگے درخت کے نیچے سے گزرتے ہوئے میرے جسم کے تمام رونگٹے کھڑے ہو گئے . پاؤں من من بھاری ہو گئے اور جسم کے بالوں میں یوں سرسراہٹ محسوس ہوئی جیسا کہ باریک چیونٹیاں رینگ رہی ہوں،
حلق خشک ہو گیا اور بات کرنا بے حد مشکل . فضل احمد کو فون پر خدا حافظ کہنے کی بجائے میں نے بات جاری رکھی تاکہ کوئی تو اس سمے میرے ساتھ موجود ہو کیونکہ جو مخلوق میرے ہمراہ ہو چلی تھی اس کا تصور ہی بہت ہولناک تھا. مجھے شدید سردی میں ٹھنڈے پسینے آنے لگے ۔ فون پر اپنے ہمراہی کی آواز دور کسی گہری کھائی میں سے آتی محسوس ہوئی جسے میں بمشکل سن اور سمجھ پا رہا تھا۔ میں بالکل درمیان میں تھا آدھا قبرستان آگے اور آدھا میرے پیچھے، یعنی صرف پنتالیس سیکنڈ کی پیدل مسافت؛ آر یا پار۔
میں نے سوچا کہ یہیں سے واپس مڑ جاؤں اور نماز واپس اپنے آفس میں جا کر ادا کر لوں لیکن پیچھے مڑنا تو درکنار پلٹ کر دیکھنے کا بھی یارا نہ تھا، ایسا لگا جیسے کوئی مجھ پر جھکا ہوا ہے اور میرے کندھوں پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے ۔ واپس مڑنے کا خیال جھٹک کر من من بھاری ہوتے قدم آگے کی جانب اٹھانے لگا ایک دو تین چار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوگارڈن ٹاؤن مین بلیوارڈ پر گلبرگ اور جناح ہسپتال کی جانب دو طرفہ ٹریفک کے اژدھام سے پیدا شور میں عموماً کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیا کرتی لیکن اس سمے مجھے لگتا تھا جیسا فضا میں مکمل سناٹا ہے اور میرے دل کی دھڑکن کے سوا کوئی دوسری آواز دنیا میں نہیں ۔
دوسری جانب فون پر موجود دوست فضل احمد کو میں نے کہا کہ یار قبرستان سے گزر رہا ہوں میرے ساتھ ذرا دیر فون ہی پر موجود رہو۔ اس نے مجھ سے کیا بات کی اور میں نے اسے مصروف رکھنے کو کیا بولا ہوگا کچھ یاد نہیں ۔ میں نے قدم تیز کرنے کی کوشش کی تو میرے پیچھے چلتے نادیدہ وجود کے قدموں کی دھمک بھی تیز ہوگئی۔
بائیں جانب پانی سے تر گیلی مٹی کی ڈھیری کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کوئی فانی وجود کچھ دیر پہلے ہی منوں مٹی تلے دفنایا گیا ہے، قبر تازہ گلاب کے پھولوں سے لدی تھی لیکن میری خوشبو سونگھنے کی حس جواب دے چکی تھی . کوئی گلاب بھی بھلا کبھی خوشبو سے خالی ہو سکتا ہے؟؟؟ لیکن میرے سامنے پڑے پھولوں کی خوشبو میری سانسوں کو معطر کرنے سے قاصر تھی۔
قبرستان کا عقبی گیٹ میری اندھیر ہوتی نظروں میں آ چکا تھا لیکن کوئی امید نہ تھی کہ میرے حواس پر سوار غیر مرئی طاقت مجھے وہاں تک پہنچنے دے گی ، ان گزرتے لمحات میں بار بار آیت الکرسی پڑھنے کی کوشش کی لیکن ہر بار الفاظ گم ہو جاتے، پھر شروع کرتا پھر بھول جاتا۔
بالآخر گرتے پڑتے گیٹ کے چھوٹے پٹ کو ہاتھ ڈالنے میں کامیاب ہو ہی گیا لیکن یوں لگا کہ جو گردن پر سوار ہے وہ شرٹ کا کالر کھینچ کر پیچھے کو گرا دے گا اور میرے سینے پر بیٹھ کر اپنی آگ اگلتی آنکھیں مجھ سے چار کرتے ہی جب وہ مسکرائے گا تو میری جان نکل جائے گی ۔ میرے بچے میری میت سے لپٹ کر چیختے، روتے پیٹتے ہوئے آہ و بکا کریں گے کہ بابا ! کیا ضرورت تھی آپ کو اندھیرے میں قبرستان سے گزرنے کی، مسجد تو آپ دوسرے رستے سے بھی جا سکتے تھے۔
بدروحوں کے چنگل میں بدحواسی کے اس عالم میں بھی دماغ کو سکوت نہ تھا۔ اس دنیا اور اگلی دنیا کی سوچوں کا انبار لگا تھا۔ مارچ 2001 کی ایک شام CMH کے نیورو سرجن برگیڈیئر ڈاکٹر موودت حسین رانا نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہارا دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی نیا پلان ، کسی پل یہ خالی نہیں رہ سکتا ، ماضی اور مستقبل میں مصروف لیکن حال سے بے خبر، اوور تھنکنگ تھکا دے گی تمہیں۔
میں نے کہا کہ آئن سٹائن اور نیوٹن سے زیادہ تو استعمال نہیں ہوگا نا ! مصروف رہنے دیں اور سوچنے دیں اسے فارغ رہ کر بھی کھوپڑی میں بے قرار ہی رہے گا . خطرہ ہے کہ کوئی نیا گل نہ کھلا دے سو جو یہ کیے جا رہا ہے کرنے دیں۔
چھوٹا دروازہ میرا ہاتھ لگتے ہی کھل گیا تھا، کسی نے میرا کالر پکڑا، نہ پیچھے کو کھینچا اور نہ مجھے دبوچا۔ دس فٹ کی گیلری کراس کرنی تھی لیکن دل تھا کہ پھدک پھدک کر سینے سے باہر نکل کر مجھ سے پہلے سڑک پہ جا نکلنا چاہتا تھا، ہاتھ سے دبا کر اسے اس زور سے روکا کہ جینا تو اسی کی دھڑکن سے تھا، یہ باہر نکل کر سڑک پر جا پڑتا تو کتنے ہی پردہ نشینوں کے راز اس کی تہہ سے اچھل کر بیچ چوراہے بکھر جاتے ۔ کتنے ہی کردار ایسے ہیں جو دنیا کی نظروں میں معزز بنے پھرتے ہیں اور یہ ان کا اصل چہرہ دیکھ چکا ہے، کتنی ان کہی داستانوں کا مسکن ہے یہ۔
حد ادب!!!! اے دل گستاخ!!! جب میں زبان نہیں کھولتا تو تم لوگوں کے راز یوں بیچ بازار بھلا کیسے اگل دو گے؛ میں اپنے دل سے مخاطب ہوا۔
کچھ تو لحاظ کر!!! میرا نا سہی!!! دیکھ میرے دل!!! تیری تہہ میں کیسے کیسے حسین دل نشین محو استراحت ہیں جن کے وجود سے تخیل میں زندگی رنگیں ہے بلکہ وہی تو حرارت زندگی ہیں ۔ جب بھی زندگی بے رنگ ہونے لگتی ہے تیرے اندر جھانک لیتے ہیں اور ان سے ہم کلام ہو لیتے ہیں؛ دھیرج دھیرج!!! صبر صبر اے میرے دل!!!
گیلری میں آتے ہی لگا کہ غیر مرئی ہوائی مخلوق ( خلائی نہیں ) نے اپنی حد میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میرا تعاقب چھوڑ دیا ہے کیونکہ میرا وجود بالکل ہلکا پھلکا سا محسوس ہونے لگا تھا۔
الحمدللّٰہ ۔ یا اللّٰہ تیرا شکر ہے . میں زندگی میں لوٹ آیا تھا۔
سامنے مسجد سے نماز پڑھ کر واپس نکلتے پہلے آدم زاد پر نظر پڑی تو دل دھڑکنے کی رفتار تھمی ۔ میں پختہ سڑک سے گزر کر مسجد کی حدود میں داخل ہوچکا تھا، نمازی گھروں کو لوٹنے لگے تھے ۔ یہ اللّٰہ کا گھر تھا اور میں رب کی امان میں آچکا تھا۔ نماز مکمل اطمینان اور پوری یکسوئی سے ادا کی اور زینب میموریل ہاسپٹل والی گلی سے واپس آفس کی راہ لی۔