ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
اقبالؔ بنیادی طور پر ایک نظریے کے شاعر ہیں ۔ وہ صرف اردو حلقہ کے شاعر نہیں بلکہ مشرق و مغرب کا علمی ورثہ ہیں ۔ اقبال کی شاعری علمی منظرنامے کا ضروری جزو بن چکے ہیں ۔ اردو غزل گوئی میں سوداؔ کی جامد لفاظی ، غالبؔ کی زندہ و متحرک شاعری کے آگے دم توڑ رہی تھی ۔ حالیؔ مقدمہ لکھ کر شعر و شاعری کا نیا رجحان پیش کر رہے تھے۔اقبالؔ اسی دور کی پیداوار ہے۔ ؎
موتی سمجھ کے چن لیے شانِ کریمی نے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے (اقبال)
اقبالؔ نے جس طرح زندگی اور کائنات کوسمجھا اسی طرح نہایت ہی پر خلوص اندازمیں پیش کیا ہے ۔ انھوں نے الفاظ کی مدد سے اپنی حسّیات ، تخیلات ، ولولوں ، امنگوں اور اپنے تجربات سے زندگی کو تعمیری صورت میں پیش کیا ہے ۔اپنے فن کے ذریعے زندگی کو فراوانی اور فروغ بخشا ہے ۔ ان کی شاعری ایک لطیف نغمہ ہے ۔ ان کی شاعری کے خدوخال طرز حیات پر مبنی ہے ۔ ان کی شاعری زندگی کے اعلی مقاصد کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے ۔ وہ عمل کی تلقین کرتاہے اور قوموں کو بیدار کرتا ہے ۔
رشید احمد صدیقی ؔاقبال کی غزل گوئی کے متعلق کہتے ہیں
”اقبال کی غزل گوئی میں وہ باتیں نہیں ملتی جو اردو غزل میں بہت مقبول تھیں مثلََا رشک و رقابت ، فراق وصال ، جسم و جمال کا ذکر ، صنائع و بدائع اور زبان و بیان کی نمائش ، جن کے بغیر غزل نہیں سمجھی جاتی تھی اور جن کو ہمارے بیش تر شعراء اپنا اور اپنے کلام کا بڑا امتیاز سمجھتے تھے ۔
اقبال نے اپنی غزلوں میں عام غزل گو شعراء کی طرح نہ زبان رکھی ، نہ موضوع ، نہ لہجہ بلکہ ایسی زبان اور موضوع و لہجہ اختیار کیا جن کا غزل سے کوئی ایسا رشتہ نہ تھا ۔ اس کے باوجود ان کی غزلوں میں تاثیر ، شیرینی ، شائستگی ، نزاکت نغمگی کے علاوہ جو اچھی غزل کے لوازم ہے ، سب موجود ہیں ۔ اقبالؔ کی غزلوں کے سامنے ہم بے ادب یا بے تکلف ہونے کی جرات نہیں کرسکتے ۔ “ ( نگار ۔۔۔ ’ جدیدشاعری نمبر ‘ )
اقبال ؔنے ہمیں محسوس کرایا کہ عشق و محبت دل کا ہی ماجرہ نہیں بلکہ ذہن کا بھی ہے ۔ نئی غزل گوئی کا یہی سنگِ بنیاد ہے ۔ ان کے پیش رو غالبؔ کے ہاں بھی دل و ذہن کا ماجرہ ملتا ہے ۔ لیکن غالبؔ کو یہ سہولت حاصل تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو کسی مخصوص مقصد یا نقطۂ نظر کا پابند نہیں رکھا تھا ۔ اقبالؔ نے غزل کو مقصدیت و خارجیت سے ہم کنار کیا ۔ ’ بالِ جبریل ‘ ان کے کلام کا دوسرا مجموعہ ہے ، یہ مجموعہ تفسیر ، تشریح ، ترتیب و تنظیم کے اعتبار سے ان کے غزلوں کا اعلیٰ نمونہ ہے ؎
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیّلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
؎
گاہ میری نگاہِ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
؎
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا
میں ہی توایک راز تھا سینۂ کائنات میں
اس مجموعے میں اقبالؔ کی نگاہ مجاز سے حقیقت تک جا پہنچتی ہے ؎
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
اقبالؔ کی غزلوں اور نظموں میں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو مناجات کی وجد آفریں لَے ، خوشبو اور رنگ لئے ہوئے ہیں ۔ اقبالؔ کو دعاؤں کے اثر انگیز ہونے کا نہ صرف پختہ یقین تھا بلکہ یہ پاکیزہ اور لطیف جذبات کو پیش کرنے کا ایک موثر پیرایہ اظہار بھی تھا ۔
دعا بنیادی طور پر روح کی وہ پکار ہے جو سرشاری و سرمستی کا نتیجہ ہے ۔ اقبالؔ جب اسے فکر و خیال کے مضراب سے چھیڑتے ہیں تو ایک نغمۂ سرمدی کی صورت سامنے آتی ہے ۔ اسی جذب و تاثیر کے تحت اقبالؔ نے اپنے بعض افکارِ عالیہ کو دعا و مناجات کارنگ و آہنگ عطا کیا ہے ۔ اقبالؔ نہ صرف اپنی بلکہ پوری نوع انسان کی ذہنی پراگندگی ، انتشار اور بیچارگی میں اللہ ہی سے مددطلب کرتے ہیں۔ ؎
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظرشکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو ، یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط ِبے کراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر ، یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو ،تو مجھے گوہر شاہوار کر
بظاہر اس غزل میں حسن و عشق کی نازک تھرتھراہٹوں کااظہار ہے ۔ جذبہ و احساس میں ایک تموّج ہے ، تلاطم ہے۔
ڈاکٹرعبدالمغنی اس غزل کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”حسن و عشق کے عمیق ترین احساسات اور بلندترین تخیلات سے یہ پوری غزل لبریز ہے ۔ ایک والہانہ جذبہ شروع سے آخرتک تمام اشعار پر طاری ہے ۔ یقینََا یہ عشق کی آفاقیت ہے ، جو حسن کی آفاقیت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے مطلوب ہے ۔ اس عشق کیلئے شاعر کا خلوص اس آہنگ نغمہ کی روانی و فراوانی سے نمایاں ہے جو ایک سرمستی کی طرح غزل کی فضا پر چھایا ہوا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے جذبے سے پگھل کرالفاظ و تراکیب بھی وجد میں رقص کناں ہیں ۔“( اقبال کانظام فن۔ص۶۳۔۵۳۱)
پروفیسرمنصوراحمدمنصورؔ کے بقول اس غزل میں اقبالؔ کا مناجاتی رنگ زیریں لہر کی طرح موجود ہے ۔ یہی مناجاتی رنگ غزل کی فضا پر ایک سرمستی کی طرح چھا جاتا ہے ۔ یہ وجدآفرین لَے مناجات کے بطن سے پھوٹتی ہے ۔ گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کرنے کی یہ والہانہ آرزو اور التجا شاعر کے اس دردمند دل کی پکار ہے جو نوع انسان اور بندگان خدا کو اس دور ظلمت میں عشق کے نور اور اس سے پیدا ہونے والے یقین و اعتمادکی دولت سے مالامال دیکھنا چاہتا ہے۔
بالخصوص امت مسلمہ جو عشق کے ناپید ہونے سے راکھ کاڈھیر بن چکی ہے ۔ ہوش و خرد اور قلب و نظر کے شکار ہونے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں ، ان سے شدید بے بسی اور درماندگی کا احساس ہوتا ہے ۔ اس لئے شاعر انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ حریمِ ذات کی دہلیز پر بے چارگی کا اظہار کرتے ہوئے اسی سے طالبِ امداد ہوتا ہے ؎
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
اقبالؔ کی دعائیں اور مناجات اجتماعی نوعیت کی ہیں ، تاہم کہیں کہیں یہ شخصی ، ذاتی اور انفرادی رنگ و آہنگ بھی رکھتی ہیں ؎
اے بادبیانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دلسوزی سر مستی و رعنائی
؎
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے
یعنی اقبالؔ نے تعمیرانسانیت اور احترام آدمیت کے جو خواب بُن لیے ہیں ، ان میں حقیقت کارنگ بھرنے کے لئے وہ ربِ جلیل سے تاثیر کا طالب ہے ۔ ان کے دل میں تصورات اور تفکرات کا ایک محشر برپا تھا جسے انہوں نے مختلف پیرایوں میں کہیں حرفِ تمنا اور کہیں حرفِ آرزو کانام دیا ہے ۔ کشمیر کی غلامی ، افلاس اور ادبار کواقبالؔ بڑی شدت کے ساتھ محسوس کرتے رہے اور یہ شدتِ احساس کبھی احتجاج کی صورت اختیار کرتا ہے اور کبھی دعائیہ انداز ۔
اقبالؔ کواس بات کا بے حدقلق رہا کہ کشمیر پر چھائی ہوئی بدترین غلامی اور ظلم و استبداد کی سیاہ رات میں کوئی ایسی دینی و سیاسی قیادت موجود نہیں جو ایمانی نور اور حرارت سے روشنی پھیلا سکے اور دلوں میں اضطراب پیدا کرسکے ؎
بیدار ہوں دل جس کی فغاں سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
کشمیر میں قبرستان جیسا سکوت دیکھ کر اقبالؔ بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا ہیں ؎
ازاں مے فشاں قطرہ برکشیری
کہ خاکسترش آفریندشرارے
اقبال کی شاعری میں وہ زندگی ہے جس کیلئے ہماری نئی نسل ، پرانے غزل گو شعراء کے دیوان کو بے سود سمجھتی ہے ۔ اقبال نے تخیّل کی جولانیوں کے لیے ایسے ایسے میدان کھول دیے ہیں اس سے قبل اردو شاعروں کی توجہ کبھی منعطف ہی نہیں ہوئی تھی ۔
انھوں نے خیالی اور مصنوعی شاعری کونظروں سے گرا دیا ۔ اردو شاعری کافرضی معشوق اپنی کمر کی طرح اب خود بھی عنقاء ہوتا جا رہا ہے ۔ مصنوعی عشق بازی اور جھوٹی معاملہ بندی اب ہماری شاعری کی جان نہیں رہی ۔ قصیدوں کی مبالغہ آمیزیاں اور مثنویوں کے فوق الفطری قصے غائب ہوتے جارہے ہیں ۔ اقبالؔ نے لفظی چٹکلوں اور دور ازکار محاورہ بندیوں کی جگہ حقائق کی تلخیوں اور سیاسیات حاضرہ کے ناگفتہ بہ مسائل کو اس خوبی سے شاعری میں میں داخل کر دیا کہ اردو شاعری کے موضوع ہی بدل گئے۔
اقبالؔ پرایک بڑا اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے لوازم غزل کی پابندی نہیں کی اور ایسے نامانوس اور خشک مضامین باندھے جن کی ہماری شاعری متحمل نہیں ہو سکتی ، اس کے علاوہ زبان و محاورہ کا بھی خیال نہیں رکھا ۔ اس کا جواب خود اقبالؔ نے اپنی مختلف نظموں میں دیا ہے ؎
نہ زباں کوئی غزل کی ، نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دلکشا صدا ہو ، عجمی ہو یا کہ تازی
مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی
کہ بانگِ صورِ اصرافیل دل نواز نہیں
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ مین ہوں محرم راز درونِ مے خانہ
اقبالؔ اسلوب سے زیادہ مطالب و معانی کے قائل ہیں ۔ وہ اسی لیے یہ تبلیغ کرتے ہیں کہ اگر خیال اچھا ہے تو اس کا پیرایہ بیاں بھی خود بہ خود اچھا ہی مل جائے گا اور بغیر مشاطگی کے اس کے سننے اور سمجھنے والے بھی پیدا ہو جائیں گے ؎
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بہ خودکرتی ہے لالہ کی حنابندی
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
دوسرے شعراء کی طرح اقبال اپنے کلام کو اپنے کلام کو جامِ مے بنا کر گردش میں لانا نہیں چاہتے بلکہ وہ اہل محفل کو دعوتِ عمل دیتے ہیں کہ اس ثمر سے وہ خود مئے لالہ فام نکالیں اور جو اس دعوت پر لبیک نہیں کہنا چاہتے اور ذوق خودی نہیں رکھتے ان سے تو وہ مخاطب بھی نہیں ہیں ؎
نظر نہیں ، تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل
سید محی الدین قادری زورؔ کے بقول ابھی تک ہندوستان کی محفل ان کے کلام کو سمجھنے اور اس سے کماحقہُ محظوظ ہونے کے قابل نہیں ہوئی ۔ ان کا تخیل دور نکل گیا ہے اور ان کے ساتھی بہت پیچھے رہ گیے ہیں ، اس کا خود ان کو بھی احساس ہے ؎
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
شعراء توکیا اہلِ مدرسہ وخانقاہ بھی اس ذوق سے بے بہرہ نظر آتے ہیں اوراسی محرومی کی وجہ سے اب تک قوم کونقصان پہنچ رہاہے ؎
کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے
فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں ؎
جلوتیانِ مدرسہ کُور نگاہ و مردہ ذوق
خلوتیانِ میکدہ کم طلب وتہی کدو
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کاسراغ
میری تمام جستجو کھوئے ہوؤں کی آرزو
سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عین حیات
ہونہ روشن تو سخن مرگ دوام اے ساقی
اقبالؔ کی تلخ نوائیوں نے نہ صرف نوجوانوں بلکہ سلیمؔ و سیمابؔ اور جوشؔ و ساغرؔ جیسے پختہ مشق شاعروں کو بھی متاثر کر دیا ۔ اقبالؔ کے اثر سے رفتہ رفتہ قدیم طرز کی شاعری متروک ہوتی گئی ۔ ایک زمانہ میں ناسخؔ و آتشؔ کے اثر سے الفاظ و محاورات اور اسالیب بیان متروک ہوگئے تھے اور آج اقبال کے اثر سے بہت سے فرسودہ خیالات لایعنی تکلفات اور غیر ضروری لوازم شعر متروک ہوتے جارہے ہیں اور جہاں تک مطالب و معانی کا تعلق ہے ، اردو شاعری اقبالؔ کے کلام سے متاثر رہے گی اور اردو داں طبقہ میں زندگی اور زندہ دلی قائم رکھنے کاباعث ہوگی۔
٭٭٭