ززری جنگل ، زیارت ، بلوچستان

یادوں کے دریچے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عالیہ بٹ

یادیں ….. بہت سی یادیں … یادیں ہی یادیں …. کاش ! یادیں بھی بکنے کی چیزیں ہوتیں جنہیں ہم بیچ سکتے، خاص طور پہ بری یادوں کو تو پاس بھی نہ پھٹکنے دیتے مگر بری یادوں کے بھی بھلا کوئی خریدار ہوں گے بازار میں؟؟؟

میں اچھی یادوں کو آگے بیچ دینے کی قائل ہوں اور بری یادوں کو ہمیشہ سنبھال کے رکھتی ہوں کیونکہ انسان کی اصل مضبوطی کا سبب اس کی راہ کی ٹھوکریں ہوتی ہیں ، جن سے وہ گر گر کے سنبھلتا، مضبوط ہوتا اور بہت کچھ سیکھتا ہے . کیا خیال ہے ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں ؟؟ یا صرف فلسفہ جھاڑ رہی ہوں؟؟ تو جناب ! میرے فلسفی ہونے پہ مذاق تو نہیں اڑائیں نا !

ایک مزے کی بات بتاتی ہوں جو آج تک کسی کو نہی بتائی جب میں ایف . اے کر رہی تھی تو میرا ایک مضمون ” فلسفہ ” بھی تھا . جب ہمارا اگلا پریڈ ہوتا تو ایک کلاس لینے کے بعد دوسری کلاس کے لیے ساری لڑکیاں دوڑ لگا دیتی تھیں کیونکہ ہمارا کالج کوئٹہ کا سب سے بڑا گرلز کالج تھا جہاں ایک کلاس سے دوسری کلاس تک کا فاصلہ ہی اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ اکثر کلاس تک پہنچ کے ہم ہانپ رہی ہوتی تھیں یا ہماری لیکچرار جی …

اور خاص طور پہ فلسفہ کی کلاس میں ہی مجھے اتنی نیند آ رہی ہوتی تھی .. کیا مزے کے نیند کے جھونکے ہوا کرتے تھے .. مجھے اکثر میری بہترین پکی سہیلی خدیجہ اپنی کہنی مار کے نیند کے جھونکوں سے نکالنے کی کوشش کرتی تھی …

سب سے دلچسپ بات یہ کہ کسی سے مشورہ کیے بغیر جھک مارنے کےلیے فلسفہ جیسا مضمون لیا اور اسی کلاس میں کبھی ہمیں اونگھ آ رہی ہوتی تھی کبھی ہماری لیکچرار کو … اس وقت تو ہم فلسفہ میں کوئی تیر نہیں مار پائیں مگر زندگی کے تجربات نے ضرور فلسفی بنا دیا .

ہم کالج کے آخری سال کالج کی طرف سے بلوچستان کے انتہائی پر فضا مقام زیارت گئے ، میں نے اور خدیجہ نے خاص طور پہ پکنک کے لیے ایک جیسے کپڑے سلوائے تھے اور یہ کپڑے میری دوسری پکی سہیلی شبانہ نے سی کے دیے تھے . ماشاءاللہ ! کیا کمال کے کپڑے سیتی ہے. میری شادی کے تمام کپڑے بھی میری شبانہ ہی نے سلائی کیے تھے ،

یہ تو ایک دوسری بات شروع ہوگئی ، اب اصل بات کی طرف واپس آتی ہوں .. انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں , آخر پکنک کا دن آ ہی گیا . اپنے والدین کے بغیر زندگی کی پہلی پکنک ، جس میں ہم اکیلے گئے یعنی اتنا لمبا سفر، پورے 8 گھنٹے آنے جانے میں لگتے ہیں

ہماری بس پہاڑی راستے پہ مزے سے کچے پتھریلے راستے پہ ہچکولے کھاتی گزر رہی تھی . ہمارے پیچھے اور آگے بھی کالج کی بسیں تھیں . لڑکیاں اپنی ہی موج میں اونچی آواز میں گانے گا رہی تھیں..

زندگی اک سفر ہے سہانا
یہاں کل کیا ہو کس نے جانا

4 گھنٹوں کے دلچسپ اور پُر لطف سفر کے بعد آخر ہم نہایت پُر فضا مقام زیارت پہنچ ہی گئے . پہاڑوں پہ سبزہ عجب روپ دھارے ہوا تھا ، پہاڑوں پر بنی پگڈنڈیاں، ان کی خوبصورتی کو دو بالا کر رہی تھیں. ان سے بہتے چشموں نے چار چاند لگا دیئے تھے ، قدرت کے نظاروں کو دیکھ کے دل بہت سرشار تھا . پم نے درختوں ، پہاڑوں اور چشموں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا.

جب کھانے کا وقت آیا تو بھوکی پیاسی لڑکیاں بریانی اور کبابوں پہ ایسے ٹوٹ پڑیں جیسے زندگی میں پہلی اور آخری بار کھانا میسر آیا ہے . آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ ” ریزیڈنسی ” بھی گئے جہاں ایسے لگ رہا تھا کہ قائد اعظم جی ابھی واپس آنے والے ہیں . ان کا سامان بہت طریقے اور سلیقے سے رکھا ہوا تھا.

شام کے سائے ڈھلنے لگے تو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں واپسی کے لیے روانہ ہونا پڑا . واپسی پہ بارش شروع ہوگئی ، موسم اور بھی خوشگوار ہو گیا تھا . بارش میں ذرا تیزی ہوئی تو خوشی اور سرشاری کی جگہ گھبراہٹ نے گھیر لی . ہم سب نے دعائیں شروع کر دیں کہ خیر و عافیت سے اپنے اپنے گھروں کو پہنچیں .

ابھی ایک گھنٹے کا سفر باقی تھا کہ اچانک ہماری بس نے بریک مارا ، کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایک دم سے بس کیوں رک گئی ، آگے اور بھی گاڑیاں ناراض کھڑی تھیں . آخر پتہ چل ہی گیا کہ کوئٹہ جانے کا راستہ ہی پل ٹوٹنے کی وجہ سے بند ہے . اب تو کمزور دل کی حامل لڑکیوں نے رونا ہی شروع کر دیا . پورے چار گھنٹے ہم انتظار کی اذیت سے گزرے کہ بس کب روانہ ہو گی .

اللہ اللہ کر کے سب کی دعائیں رنگ لے ہی آئیں اور بس ایک اور متبادل رستے پہ رواں دواں ہو گئی .
رات کو ایک بجے ہم کالج کے گیٹ کے سامنے تھے . کالج کے باہر سب کے پریشان حال والدین کا ایک ہجوم تھا ،
اللہ تعالٰی نے آخر بخیر و عافیت ہمیں گھر پہنچا ہی دیا تھا ( الحمدللہ) اور ہمارے بڑے دل والے والدین نے ہلکی سی بھی ڈانٹ نہیں پلائی، ورنہ ہم ان سے خیر کی امید نہیں لگائے ہوئے تھے .

امی ابو نے تو کچھ نہیں کہا مگر پہاڑوں پہ چڑھنے اترنے کی وجہ سے ٹانگوں کی ” کھلیاں” آج بھی یاد ہیں . پورے چار دن تک درد سے کراہتے رہے تھے .
وہ بھی کیا دن تھے ….


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں