عفت بتول
ابّو اب دنیا میں نہیں رہے ۔ تو دنیا میں رہا ہی کیا ہے ؟
سارے جہاں کی دھوپ گھر میں آگئی
سایہ تھا جس شجر کا مجھ پر وہ آگرا
آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا ہے ۔ روح زخمی ہے ۔ دل ٹوٹا ہوا ہے لیکن صحافی دوست احباب کے کہنے کے باوجود کچھ لکھا ہی نہیں جارہا تھا . اتنے عظیم باپ کی کس خوبی کو یاد کرکے ان کے بارے میں لکھنے کا آغاز کروں ، اسی شش و پنج میں تھی کہ حامد میر کی سوات میں ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو رپورٹ سے مجھے میرے مضمون کا انٹرو ابتدا ئیہ مل گیا ۔
حامد میر نے سوات کے ایک شہری سے جو سیلاب کے خطرات کے باوجود دریا کنارے کھڑا دریا میں تیر کر آنے والی لکڑیاں اکٹھی کر رہا تھا ، سے پوچھا: ’’آپ کوڈر نہیں لگتا ؟
اس شخص نے کہا : صاحب ! مجبوری ہے
اور منہ پھیر کر اپنا کام کرنے لگا .
ایک اور شخص نے حامد میر کے استفسار پر بتایا کہ یہ لکڑیاں جو بہتے ہوئے دھارے کے ساتھ آئی ہیں ، انہیں سکھا کر ہم اپنے گھر لے جائیں گے اور ان سے آگ جلائیں گے ، ان میں سے کچھ بیچیں گے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالیں گے ۔ بالکل اسی طرح ہمارے باپ نے ہماری پرورش کی . بے تحاشہ محنت کرکے ، جگہ جگہ کام کرکے ہمارے لئے روزی روٹی کا بندوبست کرتے رہے ۔
روزنامہ جنگ ، وفاق ، ارنا ، اے پی پی، دارالسلام ، تکبیر ، امت ، نوائے وقت ، پاکستان اور نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانی ہمیں بہترین سہولیات دینے کے لئے۔ سب کو خوب پڑھایا لکھایا، سکھایااور ہر شوق پورا کیا ۔ میں صحافت میں آنا چاہتی تھی ۔ اپنی تمام تر محرومیاں جو انہیں دیکھنا پڑیں کے باوجود محض میرے شوق کی خاطر مجھے اس شعبے سے وابستہ رکھا۔
ایک دفعہ ایک مایہ ناز صحافی سے میرا تعارف بطور صحافی کرایا تو وہ ازراہ مزاح کہنے لگے: قربان صاحب ! بیٹی نے آپ سے عبرت نہیں پکڑی ؟ مسکراتے ہوئے بولے: ’’ نہیں نہیں اسے شوق ہے ، میں اس کے شوق کی خاطر اسے لے آیا ہوں ۔ ‘‘
ہم نے انہیں دن رات محنت کرتے دیکھا ۔ راتوں کو دیر سے آتے تو ہم ساری رات جاگ کر انتظار کرتے ۔ شکوہ کرتے تو جواب دیتے کہ حلال روزی اسی طرح کمائی جاتی ہے ۔ بے حد خوش مزاج تھے ۔ ہم بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں رہتے ۔ امی اپنی تربیت کرنے کی مجبوری کے باعث کبھی سختی کرتیں تو ایک کمرے میں لے کر بیٹھ جاتے اور کہتے : جب تمہاری امی کا غصہ کم ہو گا پھر کمرے سے باہر جانا ۔
بچپن میں ہم پانچوں بہن بھائیوں کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر باغ میں صبح کی سیر کے لئے لے جاتے ، واپس آکر نماز باجماعت پڑھاتے ۔ قرآن کا ترجمہ و تفسیر اور پھر دینیات یا خطبات ( مولانا مودودی ) کا اقتباس خود پڑھتے یا ہم میں سے کسی کو پڑھنے کے لئے کہتے ۔
میری اردو انہیں کچھ صحیح لگتی تھی ۔ کہا کرتے تھے میں تمہیں نیوز کاسٹر بنائوں گا۔ خود بہت اچھا گاتے تھے ۔ اور میرے نغمے بھی شوق سے سنتے ایک بار نعت اور نظم پڑھتے پڑھتے میں نے کوئین میری کالج میں غزل گائیکی کے مقابلے میں بھی حصہ لے لیا اور جیت بھی گئی ۔ انہوں نے میری اس جیت پر پہلی بار خوب خبر لی ۔اور کہا کہ تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ تمہیں گانا گا نے کی اجازت دے دوں گا۔ اپنے کالج کی الوداعی تقریب میں پڑھا گیا ایک شعر اکثر ہمیں سناتے تھے اور بہت مغموم ہو جاتے تھے ۔
رہا نہ کوئی سدا یہاں پر اک آئے اک جائے
دنیا ایک سرائےدنیا ایک سرائے
پاکستان بننے کے وقت ان کے خاندان کے 72افراد شہید ہو گئے تھے ۔ ان کے واقعات رو رو کر ہمیں سنایا کرتے تھے ۔ان کی ایک کم سن بہن جس کا نام بتول تھا ، تقسیم کے وقت ملیریا میں مبتلا ہونے سے شہید ہو گئی تھی اس کے نام کی نسبت سے انہوں نے میرا نام عفت بتول اور میری بڑی بہن کا نام وجاہت بتول رکھا۔
بتول سے ان کی محبت کے باعث میں نے اپنی بیٹی کا نام عائشہ بتول اور میری بہن نے اپنی بیٹی کا نام بارزہ بتول رکھا ہے ۔ وہ اپنی بہن بتول کی یہ بات یاد کرکے اکثر رویا کرتے تھے کہ ان کا قافلہ جب پاکستان کی طرف آرہا تھا وہ راستے ہی میں شہید ہو گئی تھی لیکن کئی میل تک ان کی والدہ یعنی ہماری دادی جان نے یہ بات چھپائے رکھی کہ اپنے وطن کی سر حد پار کرکے اسے دفنا ئیں گی۔
بلا کے ذہین تھے ۔ انگریز ی ، اردو ، دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ انہوں نے ہمیں Tenseخود سکھائے ۔ بتاتے تھے کہ جو پرچہ سال اول میں آتا اس میں لکھا ہوتا تھا بیس سوالوں میں سے دس حل کریں ۔ میں بیس حل کرکے لکھ دیتا تھا بیس میں سے کوئی سے دس کی جانچ کر لیں ۔
جب تک ہوش و حواس میں رہے کام کرتے رہے ۔ چند سو روپے کا مضمون بھی ملتا تو لکھ لیتے ۔ بچوں کی غلطیوں کو سدھارتے بھی تھے اور چھپاتے بھی تھے ۔ کبھی کسی خطا پر سزا نہیں دی سب پر بہت اعتماد کرتے جو کچھ انہوں نے کمایا اپنی اولاد پر خرچ کیا ۔ اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں کیا اپنی شاگردی میں رہنے والے بڑے بڑے صحافیوں پر یک طرفہ طور پر فخر کیا کرتے ۔
دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے لیکن اللہ نے صحت سے نوازا۔ ٹی بی سے بھی لڑ گئے ۔ آخر میں ایلزائمر کے مراحل سے نبردآزما رہے کبھی اپنی جوانی کے دور میں چلے جاتے کبھی تقسیم کے وقت میں، دکھ درد کی داستانیں دہراتے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔
اللہ ان کے درجات بلند کرے ۔
ایک تبصرہ برائے “میرے پیارے ابو قربان انجم”
عفت صاحبہ ، اللہ تعالی آپ کو صبر دے اور محترم قربان انجم صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ رزق حلال کمانا اور خوف خدا رکھتے ھوئے اس دنیا سے چلے جانا اصل کامیابی ھے سمجھیں کہ وہ سرخرو چلے گئے۔۔۔۔الزائمر کی ایڈوانس سٹیجز بہت تکلیف دہ ھوتی ہیں مریض کے لئے کم تیمار داروں کے لئے زیادہ۔۔۔