دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سب سے زیادہ مرتبہ سر کرنے والی، ان تھک نیپالی خاتون ’ لاکپا شیرپا ‘ کی ولولہ انگیز داستان
فریحہ حسین
نیپال کی ’ لاکپا شیرپا ‘ نے 12مئی 2022 کو ، 48 سال کی عمر میں ماﺅنٹ ایورسٹ کو 10 ویں بار فتح کرکے ایک ایسا تاریخی ریکارڈ قائم کیا ہے ، جسے توڑنا حتیٰ کہ برابر کرنا بھی شاید مشکل ہو ۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون ہیں جنھوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ۔ نیپالی حکام نے بھی اس کی تصدیق کی اور خاتون کے بھائی نے بھی ۔ انھوں نے ساری زندگی بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا اور ان سے کامیابی سے نمٹیں ۔
’ لاکپا شیرپا ‘ ایک غار میں پیدا ہوئیں، معمول کی تعلیم حاصل نہ کرسکیں کیونکہ لڑکیوں کو پڑھانا ایک فضول سرگرمی سمجھا جاتا تھا۔ کچھ بڑی ہوئیں تو بطور ملازمت چوکیداری شروع کردی۔ تاہم جب کوہ پیمائی کی طرف آئیں تو ایک کے بعد دوسری کامیابی حاصل کرتی چلی گئیں۔
حالیہ کامیابی کے سے پہلے وہ سن2018ء میں 8848.86 میٹر یعنی 29031.69 فٹ بلند چوٹی پر چڑھیں۔ ایک غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ’ لاکپا شیرپا ‘ کا کہنا تھا :
” جب میں نے پہلی بار ماﺅنٹ ایورسٹ سر کی تو یوں لگا جیسے میرا ایک خواب پورا ہوگیا۔ حالانکہ میں سوچا کرتی تھی کہ میں ایک گھریلو بیوی کے سوا کچھ نہیں بن سکوں گی۔ تب میں نے سوچا کہ میں شیرپا کلچر کو بدل کے رکھ دوں گی ، خاص طور پر شیرپا خواتین کا کلچر بلکہ نیپالی خواتین کا بھی“۔
شیرپا ہمالیہ پہاڑوں میں رہنے والی ایک قوم ہے جو نیپال اور تبت کی سرحد پر آباد ہے اور کوہ پیمائی میں مہارت رکھتی ہے ۔ لاکپا کہتی ہیں: ” میں گھر سے باہر رہ کر بہت لطف اندوز ہوئی۔ میں اپنے احساسات و جذبات سب خواتین کو سنانا چاہتی تھی۔“ واضح رہے کہ بی بی سی نے ’ لاکپا شیرپا ‘ کو ’ 2016 ءکی 100 موثر ترین خواتین‘ کی فہرست میں شامل کیا۔
لاکپا کے چوٹی پر پہنچنے سے پہلے ، اس کی سب سے چھوٹی بیٹی شائنی نے بیس کیمپ سے بتایا کہ وہ اپنی ماں کے حوالے سے بہت پر جوش ہے اور اس کی پیش قدمی کا بغور مشاہدہ کررہی ہے۔ اس کے بقول :” مجھے اپنی ماں پر فخر ہے، انھوں نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ۔“ لاکپا کی سخت محنت اور کامیابی کو ابھی دولت اور شہرت میں بدلنا ہے۔
لاکپاکا بچپن ’ بالا خرقا ‘ نامی ایک ایسے گاﺅں میں گزرا جو مشرقی نیپال کے علاقے مکالو میں واقع ہے اور سطح سمندر سے4000 میٹر (13000 فٹ ) بلند ہے۔ وہ اپنے والدین کے گیارہ بچوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے ایک قہقہہ بلند کرتے ہوئے بتایا :
” میں ایک غار میں پیدا ہوئی، مجھے تو اپنی پیدائش کی تاریخ بھی معلوم نہیں ہے۔ میرے پاسپورٹ کے مطابق میں48 برس کی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ میں گھنٹوں پیدل چلتی تھی۔ بعض اوقات اپنے بھائیوں کو سکول سے لاتی تھی۔ اس وقت لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی“۔
لاکپا کے گاﺅں میں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہی ہے ۔ یہاں بجلی بھی نہیں ہوتی ۔ وہ کہتی ہیں : ” میں ایورسٹ کو دیکھ کر بڑی ہوئی۔ اپنے گھر سے اس کا نظارہ کیا کرتی تھی۔ ایورسٹ کی چوٹی مجھے ہمیشہ پرجوش کرتی تھی اور میرے اندر ایک ولولہ پیدا کرتی تھی۔“
1953 ءمیں ماﺅنٹ ایورسٹ کو پہلی بار سر کیا گیا ، اس کے بعد ہر سال زیادہ سے زیادہ لوگ ایورسٹ کو سر کرنے کے لئے آنے لگے۔ کوہ پیماﺅں کو بہرصورت شیرپا قوم سے گائیڈ اور پورٹرز لینا پڑتے تھے جو ایک خاص معاوضہ وصول کرتے ، انھیں چوٹی تک رہنمائی کرتے ، ساتھ ان کا سامان بھی اٹھاتے ۔تاہم پھر لاکپا جیسے کچھ شیرپا لوگوں نے خود ہی کوہ پیما بننے کا فیصلہ کیا ۔
یہ آسان فیصلہ نہیں تھا ۔ جب لاکپا نے ماﺅنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچنے کا منصوبہ بنایا تو اس کے والدین نے اس کی مدد نہ کی۔ وہ بتاتی ہیں : ” میری والدہ نے کہا کہ تمھاری شادی نہیں ہو سکے گی، تم مردوں کی طرح بن جاﺅ گی اور کوئی تمھیں پسند ہی نہیں کرے گا ۔ میرے گاﺅں کے لوگوں نے خوفزدہ کیا کہ یہ مردوں کا کام ہے خواتین کا نہیں۔ تم تھک کر مر جاﺅ گی ۔“
لاکپا نے ایسے تمام خدشات کی بالکل پرواہ نہ کی اور 2000 ءمیں ایورسٹ کی سب سے اونچی چوٹی سر کرلی ۔ یوں وہ نیپال کی پہلی خاتون بن گئیں جنھوں نے ماﺅنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کی اور پھر زندہ بھی رہیں ۔ ورنہ پسانگ لامو شیرپا پہلی نیپالی خاتون تھیں جو ماﺅنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں تاہم وہ وہاں بیمار ہوئیں اور اُدھر ہی دم توڑ گئیں۔
پھر سن 2003 میں’ لاکپا ‘ پہلی خاتون بن چکی تھیں جنہوں نے ماﺅنٹ ایورسٹ کو تین بار سر کیا تھا۔ اس بار تو ان کے ساتھ ان کا بھائی ’ گیلو ‘ اور بہن ’منگما ‘ بھی تھی۔ اس بہن کی عمر صرف15پندرہ برس تھی۔ یوں اس نے ماﺅنٹ ایورسٹ سر کرنے والی دنیا کی سب سے کم عمر لڑکی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ جبکہ ان تینوں بھائی بہنوں کے حصے میں یہ اعزاز بھی آیا کہ 8000 میٹر بلند پہاڑ سر کرنے والے وہ پہلے بہن بھائی تھے ۔ اس ریکارڈ کو گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔
بھائی گیلو شیرپا 2016ءتک آٹھ مرتبہ ماﺅنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرچکا تھا۔اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ ماﺅنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنا ان بہن بھائیوں نے ایک کھیل ہی بنا لیا ہے۔ 2006ءتک لاکپا نے ہر سال ماﺅنٹ ایورسٹ سر کی۔ بعدازاں دس سال کا وقفہ آگیا ۔ پھر 2016، 2017 اور 2018ءمیں بھی وہ ماﺅنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچیں۔ اس سے پہلے 2015ءمیں بھی وہ ماﺅنٹ ایورسٹ سر کرلیتیں لیکن انھیں زلزلہ کے سبب تبت میں بیس کیمپ سے ہی واپس آنا پڑا۔
لاکپا کی شادی رومانین نژاد امریکی کوہ پیما ’ جارج ڈی ماریسکو ‘ سے ہوئی۔ ان کے ساتھ لاکپا نے پانچ بار ایورسٹ کو سر کیا ۔ دونوں کی ملاقات سن 2000ء میں کٹھمنڈو ، نیپال ہی میں ہوئی ۔ دو سال بعد ان کی شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد وہ امریکہ منتقل ہوگئیں مگر 2015 میں یہ شادی اختتام پذیر ہوگئی۔
دراصل 2008ءمیں ان کے شوہر کو کینسر ہوگیا تھا۔ کمزور مالی حالات کے سبب لاکپا کے پاس شوہر کے علاج کی استطاعت نہ تھی، نتیجتاً دونوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہونے لگیں۔ لاکپا اب امریکی ریاست کنیکٹیکٹ (Connecticut) میں اپنی 2 بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
ماﺅنٹ ایورسٹ سر کرنے کی اپنی ابتدائی مہمات میں وہ نیپال کا جھنڈا لے کر جاتی تھیں مگر اپنی آخری مہم میں وہ امریکی جھنڈا لے کر گئیں۔ بد قسمتی سے ان کی کامیابیاں میڈیا میں نمایاں نہ ہوسکیں، انھیں سپانسرز نہ مل سکے۔ انھیں برسوں تک انتہائی قلیل تنخواہ میں گزارہ کرنا پڑا۔ وہ امریکا میں مختلف اقسام کی ملازمتیں کرتی رہیں۔ مثلاً بزرگوں کی دیکھ بھال ، گھروں کی صفائی اور برتن دھونے کی ملازمتیں وغیرہ ۔
لاکپا کہتی ہیں : ”میں زیادہ رقم نہ کما سکی۔ اس لئے میں کپڑے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھی ، ہئیر ڈریسر سے بال نہیں بنوا سکتی تھی ، میری ساری توجہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر تھی۔ تاہم میں پُر امید تھی کہ اتنی رقم اکٹھی کرسکوں گی کہ ایک بار پھر ماﺅنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ سکوں“۔
اس سارے عرصہ کے دوران میں لاکپا نے کوہ پیمائی کے لئے اپنے جذبے کو جوان رکھا۔ وہ دو بار گائیڈ کی حیثیت سے چوٹی تک پہنچیں۔ بعض مواقع پر ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے ان کی مہمات کا خرچہ اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے” خطرات سے تقابل کیا جائے تو کوہ پیمائی نفع بخش کام نہیں ہے۔ تاہم کوہ پیمائی نے مجھے اس زندگی سے نجات دلائی جو میں گاﺅں میں گزار رہی تھی“۔
مالی اعتبار سے ، لاکپا کی زندگی میں تبدیلی تب آئی جب انھوں نے انگریزی زبان بہتر طور پر سیکھ لی۔ پھر وہ انٹرویوز دینے لگیں اور مختلف تقاریب میں گفتگو کرنے لگیں۔ جب وہ نویں مہم کے لئے جانے لگیں تو انھیں ایک سپانسر میسر آگیا۔ اور پھر دسویں مہم کے لئے انھوں نے بڑے پیمانے پر فنڈریزنگ کی مہم چلائی۔
لاکپا ہر مہم کا آغاز باقاعدہ دعا سے کرتی ہیں کیونکہ محفوظ مہم ان کی سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ اب تک 300سے زائد افراد ماﺅنٹ ایورسٹ سر کرتے ہوئے موت کی گہری، تاریک وادیوں میں جا گرے ہیں۔ وہ کہتی ہیں:
” پہاڑ موسموں کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ خراب موسم میں ، میں صرف انتظار کرتی ہوں۔ ہم پہاڑ سے نہیں لڑ سکتے۔ آٹھ ہزار میڑ بلندی پر پہنچ کر آپ خود کو انسان نہیں سمجھ سکتے۔ آپ کھا نہیں سکتے کیونکہ سب کچھ جما ہوتا ہے۔ آپ کو رات کے وقت چوٹی کی طرف سفر کرنا ہوتا ہے تاکہ آپ سورج کی روشنی میں اوپر پہنچ سکیں ۔ بہرحال یہ خوفناک تجربہ ہوتا ہے“۔
کوہ پیما جب کسی چوٹی پر پہنچتے ہیں تو ان کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے۔ لاکپا کے پاس بھی محض پانچ یا دس منٹ تھے تاکہ وہ تصویریں لے سکے اور ان سب لوگوں کو دکھا سکے جنھوں نے اس کی مہم میں مدد کی تھی ۔
لاکپا شیرپا کا دسویں مہم کے بعد بھی کوہ پیمائی سے ریٹائر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو ‘ بھی سر کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اگلی بار ایورسٹ پر اپنے بیٹے اور دونوں بیٹیوں کے ہمراہ جانا چاہتی ہیں۔
لاکپا نے اس سے پہلے 2010ءمیں ’ کے ٹو ‘ سر کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن چوٹی تک نہیں پہنچ سکی تھیں۔ وہ کیمپ3 تک ہی پہنچی تھیں لیکن پھر خراب موسم کے سبب انھیں واپسی کا رخ کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں:” کوہ پیمائی میرا جنون ہے، میں یہ بار بار کرنا چاہتی ہوں۔ میری زندگی چیلنجز سے بھری ہوئی ہے۔ پہاڑ مجھے خوشی عطا کرتے ہیں اور پرسکون رکھتے ہیں۔ میںکوہ پیمائی نہیں چھوڑ سکتی، میں ہمت نہیں ہار سکتی ۔ میں چاہتی ہوں کہ نوجوان خواتین بھی ہمت نہ ہاریں۔“
٭٭٭