بھارتی ’تن ساز‘ پریا سنگھ اپنی کام یابی کا سہرا بیٹی کے سر باندھتی ہیں
سمیرا انور
بھارت کی دوسری بڑی ریاست ’راجستھان‘ سے تعلق رکھنے والی پریا سنگھ نے ایک ایسے معاشرے میں رہ کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا، جہاں لڑکیاں اپنی زندگی کا نصف حصہ گھونگھٹ میں گزارتی ہیں ۔ پریا سنگھ نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد ان کی شادی ہوگئی ۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے معاشی حالات بہت خراب تھے اور وہ بکریاں چرانے کے ساتھ ساتھ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر چلاتی تھیں۔ حالات سے مجبور ہو کر وہ اپنے گائوں سے ’جے پور‘ شہر منتقل ہوگئیں ۔ ان کا ایک بیٹا اور بیٹی ہوگئے ۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں کسی کے گھر میں پونچھا صفائی کرنا بالکل بھی پسند نہیں تھا ۔ اس لیے انھوں نے ایک ایسے شعبے میں قدم رکھا جو صرف مردوں کے لیے اچھا سمجھا جاتا تھا۔
’جِم‘ میں انٹرویو دینے گئیں ، تو اپنی جسامت اور قد و قامت کی وجہ سے کام یاب ہوگئیں اور انھیں جاب مل گئی ۔ ’جِم‘ میں انھیں ’پہلوان‘ کہا جانے لگا۔
یہ ایسا شعبہ ہے جس میں خواتین کو بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پریا سنگھ کو اپنی باڈی بنانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی ۔ اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ ایک عام آدمی سے تین گنا زیادہ خوراک لینا پڑتی ہے ۔ مرد سے زیادہ پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ عورت میں فٹ زیادہ ہوتی ہے ۔ مقابلے میں جانے سے 15 دن یا کم سے کم سات دن پہلے نمک چھوڑنا پڑتا ہے ۔
پریا نے بہت محنت کی اور اپنے فن سے محبت نے ان کا نام روشن کر دیا اور وہ کام یابی سے ٹریننگ دینے لگیں ۔ اس شعبے کے تاثر کے حوالے سے وہ کہتی ہیں:
انڈیا میں اس شعبے کو خواتین کے لیے بہت معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ خاندان والوں نے انھیں بھی خوب باتیں سنائیں ۔ طعنے تشنے دیے ۔ غلط جملے بولے اور منفی تنقید کی ۔ لباس اور پہناوے کی وجہ سے انھیں برا سمجھا جانے لگا۔ ان کے بھائی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اسے مار ڈالیں گے۔
پریا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔ میں نے انھیں اپنے کام کی نوعیت اور خاص طور پر لباس کے متعلق بتا دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ بلا جھجھک اپنے فن کو آزمائیں ۔ شہرت کے ساتھ ساتھ ان کے مالی حالات بہتر ہوتے گئے۔ انھیں کئی اعزازات ملے اور بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ۔
وہ بہت فخر سے کہتی ہیں کہ وہ اپنی بیٹی ’مہک‘ کی وجہ سے آج ترقی کے اس عروج پر ہیں۔ وہ دال نمک کا بھائو تائو تک نہیں جانتیں ۔ ان کی بیٹی ہی انھیں ناشتا،کھانا وقت پر دیتی ہے ۔ وہ آج جو کچھ بھی ہیں اپنی بیٹی کی وجہ سے ہیں ۔ وہ بہت ڈرپوک اور بزدل تھیں ۔ وقت اور حالات نے انھیں ایک آئرن لیڈی بنادیا ۔
وہ کہتی ہیں دل اور دماغ جب کسی کام پر متفق ہو جائے تو زیادہ نہ سوچیں بل کہ اس کام پر ڈٹ جائیں ۔ آج پریا سنگھ کے گھر والے اسے برا نہیں کہتے بل کہ اس سے تعلق پر فخر کرتے ہیں ۔ پریا کی کہانی جیسی بہت سی کہانیاں ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔
یہاں لوگ ماﺅں کی لگن اور محنت کی داستانیں جانتے ہیں اور بلاشبہ ہماری ماﺅں نے بچوں پر بڑا وقت صرف کیا ہوا ہوتا ہے، اپنا سارا جیون ان پر وارا ہوتا ہے، لیکن پریا سنگھ کی کہانی میں وہ اپنی بیٹی کے سر اس ساری کام یابی کا سہرا باندھتی ہیں، جو ایک منفرد بات ہے اور بیٹیوں کی جانب سے ماﺅں کے ساتھ دینے کی ایک انوکھی سی مثال بھی ہے۔