حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کیسے ہوئی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اسما نذیر/ پاکپتن

حضرت عمرؓ کا دور خلافت اسلام کا سنہری دور تھا، حضرت عمرؓ کو جب اندازہ ہوا کہ اب ان کا وقتِ رخصت قریب ہے تب وہ اللّٰہ تعالٰی سے دو دعاٸیں مانگا کرتے تھے۔

١۔ اے اللّٰہ! مجھے حضرت مُحَمَّد ﷺ کے شہر مدینہ میں شہادت عطا فرمانا۔
٢۔ اے اللّٰہ! مجھے شہید کرنے والا کوٸی ایسا انسان نہ ہو جو آپ کے آگے سجدہ کرتا ہو یعنی کافر ہو۔
یہ دونوں دعاٸیں کہ حضرت مُحَمَّد ﷺ کے شہر مدینہ میں کافر کے ہاتھوں شہید ہونا حضرت عمرؓ کے دور میں نا ممکن تھا کیونکہ وہاں جنگیں نہیں ہوتی تھیں لیکن جب اللّٰہ چاہے تو کیا نہیں ممکن!

ایک دفعہ ایک کافر جس کا نام ابو لٶلٶ المجوسی تھا وہ مغیرہ بن شعبہؓ کے ہاں جنگوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ بنانے کا کام کرتا تھا، ایک دن ابولٶلٶ وقت کے عادل حکمران حضرت عمرؓ کے ہاں شکایت لے کر حاضر ہوا کہ مغیرہ بن شعبہؓ مجھ سے کام زیادہ لیتے ہیں اور پیسے کم دیتے ہیں ، حضرت عمرؓ نے دونوں طرف کے بیانات سنے اور عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوٸے مغیرہ بن شعبہؓ کے حق میں فیصلہ دیا اور ساتھ ہی مغیرہ کو نصیحت کی کہ ابولٶلٶ کے ساتھ نرم مزاجی سے پیش آیا کرو لیکن ابولٶلٶ اس دن سے حضرت عمرؓ کا دشمن بن گیا۔

ایک دن حضرت عمرؓ ابولٶلٶ کی دکان پر گٸے اور فرمایا : ابولٶلٶ! کیا کبھی میرے لٸے بھی کوٸی ہتھیار بنایا ہے؟ اس نے کہا: آپ کے لٸے تو ایسا ہتھیار بنایا ہے جسے رہتی دنیا تک سب لوگ یاد رکھیں گے ، حضرت عمرؓ ہنستے ہوٸے اور یہ کہتے ہوٸے واپس آ گٸے کہ اس نے مجھے مارنے کی دھمکی دی ہے۔

جس دن حضرت عمرؓ کی شہادت ہوٸی اس سے کچھ دن پہلے وہ حج کر کے آٸے تھے اور صحابہ بیان کرتے ہیں کہ عرفہ میں حضرت عمرؓ اپنے ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھا کر دعا مانگ رہے تھے : اے اللّٰہ ! میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری قوت اب مجھے چھوڑے جا رہی ہے اور امت دنیا میں پھیل رہی ہے . مجھے اپنے پاس بلا لیجٸے اس حال میں کہ آپ مجھ سے خوش ہوں، مجھ سے خوش ہو جاٸیے جو بھی میں نے آپ کی امت کے ساتھ کیا۔

پھر چند دن بعد حضرت عمرؓ مسجد میں فجر کی نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت عمرؓ کی عمر 63 برس تھی بالکل اسی طرح جیسے حضرت مُحَمَّد ﷺ کی اور حضرت ابوبکرؓ کی عمر وفات کے وقت 63 برس تھی۔

حضرت عامر ابن معمون ؓ بیان کرتے ہیں کہ اس دن حضرت عمرؓ صلاہ الفجر کے لٸے تشریف لائے اور میں دوسری صف میں کھڑا تھا. میرے اور حضرت عمرؓ کے درمیان کوٸی نہیں تھا سواٸے عبداللّٰہ ابن عباس کے۔ حضرت عمرؓ نے نماز میں سورہ یوسف کی تلاوت کی اور تلاوت کے دوران وہ بہت زیادہ روٸے، ابولٶلٶ نے ایسا نیزہ تیار کیا جو دونوں اطراف سے بہت تیز تھا، اس نے اس کے دونوں اطراف کو زہر میں بھگویا اور اپنے کپڑوں میں چھپا لیا اور وہ بھی جا کے جماعت میں کھڑا ہو گیا۔

حضرت عمرؓ جب سجدے میں گٸے تو ابولٶلٶ نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ نیزہ 9 دفعہ مارا، حضرت عمرؓ کے پیچھے، آگے اور سب سے بڑا حملہ ان کے معدے میں کیا،

جب سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كو ابولؤلؤ فيروز مجوسى نے نيزہ مارا تو آپ رضی اللہ عنہ كو دودھ پلايا گيا جو پسليوں كى طرف سے نكل گيا۔ طبيب نے كہا:
اے امير المؤمنين ! وصيت كر ديجيے اس ليے كہ آپ مزيد زندہ نہيں رہ سكتے۔
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ نے اپنے بيٹے عبداللہ كو بلايا اور كہا :
ميرے پاس حذيفہ بن يمان كو لاؤ۔ حذيفہ بن يمان وہ صحابى تھے جنھیں رسول اللہﷺ نے منافقين كے ناموں كى فہرست بتائى تھى ، جس كو اللہ، اللہ كے رسول اور حذيفہ كے علاوہ كوئى نہ جانتا تھا۔

حذيفہ رضى اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امير المؤمنين سيدنا عمر رضى اللہ عنہ گويا ہوئے جبكہ خون آپ كى پسليوں سے رس رہا تھا: حذيفہ! ميں تجھے اللہ كى قسم ديتا ہوں ، كيا رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين ميں ليا ہے كہ نہيں؟
حذيفہ رضى اللہ عنہ روتے ہوئے كہنے لگے :
اے امير المؤمنين! يہ ميرے پاس رسول اللہﷺ كا راز ہے، ميں اسے مرتے دم تک كسى كو نہيں بتا سكتا۔

سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كہنے لگے: حذيفہ! بلاشبہ يہ رسول اللہﷺ كا راز ہے ، بس مجھے اتنا بتا ديجيے كہ رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين كے فہرست ميں شمار كيا ہے يا نہيں؟
حذيفہ كى ہچكى بندھ گئى ، روتے ہوئے كہنے لگے: اے عمر! ميں صرف آپ كو يہ بتا رہا ہوں اگر آپ كے علاوہ كوئى اور ہوتا تو ميں كبھى بھى اپنى زبان نہ كھولتا، وہ بھى صرف اتنا بتاؤں گا كہ رسول اللہﷺ نے آپ كا نام منافقين كى لسٹ ميں شمار نہيں فرمايا۔

سيدنا عمر رضى اللہ عنہ يہ سن كر اپنے بيٹے عبداللہ سے كہنے لگے : عبداللہ اب صرف ميرا ایک معاملہ دنيا ميں باقى ہے ۔ پِسر جانثار كہنے لگا: اباجان بتائيے وہ كون سا معاملہ ہے؟
سيدنا عمر رضى اللہ گويا ہوئے : بيٹا ! میں رسول اللہ اور ابوبكر رضى اللہ عنہ كے پہلو ميں دفن ہونا چاہتا ہوں ۔

اے ميرے بيٹے ! ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ عنہا كے پاس جاؤ اور ان سے اجازت طلب كرو كہ عمر اپنے ساتھيوں كے پہلو ميں دفن ہونا چاہتا ہے ۔ ہاں بيٹا، عائشہ رضى اللہ عنہا كو يہ نہ كہنا كہ امير المؤمنين كا حكم ہے بلكہ كہنا كہ آپ كا بيٹا عمر آپ سے درخواست گزار ہے ۔

ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ عنہا كہنے لگيں : ميں نے يہ جگہ اپنى قبر كے ليے مختص كر ركھى تھى ، ليكن آج ميں عمر كے ليے اس سے دست بردار ہوتى ہوں ۔

عبداللہ مطمئین لوٹے اور اپنے اباجان كو اجازت کا بتایا. سيدنا عمر رضى اللہ عنہ نے يہ سن كر اپنے رخسار كو زمين پر ركھ ديا، آداب فرزندى سے معمور بيٹا آگے بڑھا اور باپ كى چہرے كو اپنے گود ميں ركھ ليا ، باپ نے بيٹے كى طرف ديكھا اور كہا : اس پيشانى كو زمين سے كيوں اٹھايا ؟

اس چہرے كو زمين پر واپس ركھ دو، ہلاكت ہوگى عمر كے ليے اگر اس کے رب نے اسے قيامت كے دن معاف نہ كيا !” رحمك اللہ يا عمر”
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ بيٹے عبدأللہ كو يہ وصيت كركے اس دار فانى سے كوچ كر گئے:

“جب ميرے جنازے كو اٹھايا جائے اور مسجد نبوى ميں ميرا جنازہ پڑھا جائے ، تو حذيفہ پر نظر ركھنا كيونكہ اس نے وعدہ توڑنے ميں تو شايد ميرا حيا كيا ہو ، لیکن دھيان ركھنا وہ ميرا جنازہ بھى پڑھتا ہے يا نہيں؟

اگر تو حذيفہ ميرا جنازہ پڑھے تو ميرى ميت كو رسول اللہﷺ كے گھر كى طرف لے كر جانا، اور دروازے پر كھڑے ہو كر كہنا : يا ام المؤمنين! اے مومنوں كى ماں، آپ كے بيٹے عمر كا جسد خاكي آيا ہے ۔ ہاں ! يہاں بھي ياد ركھنا امير المؤمنين نہ كہنا عائشہ مجھ سے بہت حياء كرتى ہے ۔ اگر عائشہ رضى اللہ عنہا اجازت مرحمت فرما ديں تو ٹھیک، اگر اجازت نہ ملے تو مجھے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفنا دينا۔

عبداللہ بن عمر رضى اللہ عنہ كہتے ہيں : ابا جان كا جنازہ اٹھايا گيا تو ميرى نظريں حذيفہ پر تھيں ، حذيفہ آئے اور انھوں نے اباجان كا جنازہ پڑھا۔ ميں يہ ديكھ كر مطمئین ہوگيا، اور اباجان كى ميت كو عائشہ رضى اللہ عنہا كے گھر كى طرف لے كر چلے جہاں اباجان كے دونوں ساتھى آرام فرما تھے ۔

دروازے پر كھڑے ہو كر ميں نے كہا : يا أمّنا، ولدك عمر في الباب هل تأذنين له؟
اماں جان ! آپ كا بيٹا عمر دروازے پر كھڑا ہے، كيا آپ اس كو دفن كى اجازت ديتى ہيں؟

اماں عائشہ رضى اللہ عنہا نے كہا : مرحبا ، امير المؤمنين كو اپنے ساتھيوں كے ساتھ دفن ہونے پر مبارك ہو۔ رضى اللہ عنہم ورضوا عنہ
اللہ راضى ہو عمر سے جنہوں نے زمين كو عدل كے ساتھ بھر ديا ، پھر بھى اللہ سے اتنا زيادہ ڈرنے والے، اس كے باوجود كہ رسول اللہﷺ نے عمر كو جنت كى خوش خبرى دى۔!!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں